یقین مانیں افغانستان سے جند چھڑا کر میں کسی اور موضوع پر لکھنے کے لئے بے چین محسوس کررہا ہوں۔ محاورے والا کمبل مگر مجھے چھوڑنہیں رہا۔ برادر ملک قطر اور ترکیہ کی خواہش پر دوحہ میں پاکستان اور افغانستان کے مابین فائربندی کے بعد دیرپا امن کے لئے مذاکرات ہوئے۔ کئی گھنٹوں تک پھیلے مذاکرات کے اختتام پر کوئی مشترکہ اعلامیہ جاری نہیں ہوا۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دونوں ممالک کے وزرائے دفاع مشترکہ اعلامیہ کے اجراء کے بعد دوحہ میں مقیم صحافیوں کے روبرو ایک ہی جگہ کھڑے ہوکر چند اہم سوالات کے جوابات فراہم کرتے۔ ایسا مگر ہوا نہیں۔ پاکستان اور طالبان ہی نہیں دنیا کے بیشتر ملکوں میں اب خارجہ امور کو ’’رعایا‘‘ کے روبرو زیر بحث لایا نہیں جاتا۔ حالانکہ یہ بدنصیب رعایا ہی ہے جس کی اکثریت دو ممالک کے مابین جنگ کی صورت سب سے زیادہ جانی ومالی نقصان برداشت کرتی ہے۔ اس نقصان کو Collateral Damage ٹھہراتے ہوئے نظرانداز کردیا جاتا ہے۔ ڈرون طیاروں کے ساتھ نصب ہوئے بموں کا نشانہ بنی رعایا کا یہ حق ہے کہ انہیں صلح کی نوید سنائی جائے۔
پاکستان اور افغانستان کے وزرائے دفاع کے بجائے ’’صلح کی نوید‘‘ حکومت قطر کی جانب سے جاری ہوئے ایک اعلامیہ کے ذریعے سنائی گئی۔ مذاکرات اعلامیے میں پاک-افغان ’’سرحد‘‘ کا ذکر بھی ہوا تھا۔ ’’سرحد‘‘ کا ذکر کرنے والی سطر کو مگر نظرثانی شدہ اعلامیہ کے ذریعے ختم کردیا گیا ہے۔ اس کی وجہ افغانستان کے وزیر دفاع ملا یعقوب تھے جو طالبان کے بانی ملاعمر اور افغانستان کی ’’امارت اسلامیہ‘‘ کے پہلے امیر کے فرزند ہیں۔ افغانستان لوٹنے کے بجائے مذاکرات ختم ہوجانے کے بعد بھی وہ قطر ہی میں مقیم رہے۔ کہا جاتا ہے کہ موصوف کے اہل خانہ کابل یا قندھار کے بجائے قطر میں قیام کو ترجیح دیتے ہیں۔ ملایعقوب کی قطر میں موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے قطر کے مشہور ٹی وی چینل ا لجزیرہ نے ان کا پاک-افغان معاملات کے بارے میں ایک طویل انٹرویو کیا۔
سوال جواب شروع ہوئے تو ڈیورنڈ لائن کا ذکر بھی لازمی تھا۔ مذکورہ لائن کے بارے میں ملایعقوب نے وہی رویہ اختیار کیا جو سردار داؤ کی ’’پختونستان‘‘ سے محبت کے دنوں سے افغانستان کا قومی بیانیہ بن چکا ہے۔ ملایعقوب نے پاک-افغان سرحد کا تعین ’’لر(زیریں) وبر(بالائی) میں آباد ’’افغانوں‘‘ کے سپرد کردیا۔ ان سے قبل طالبان کے وزیر سرحدات ملانوری ڈیورنڈ لائن کو ایک ’’خیالی لکیر‘‘ ٹھہرانے کے بعد یہ دعویٰ بھی کرچکے تھے کہ ان کی دانست میں افغانستان کی ’’سرحد‘‘ اٹک پر ختم ہوتی ہے۔ ملا یعقوب اگرچہ اٹک پر حق دعویٰ جتانے سے باز رہے۔ ’’لروبر‘‘ کے ذکر سے پاکستان اور افغانستان کی سرحد کے تصور کو البتہ ہوا میں اڑادیا۔
چند برس قبل پشتون نوجوانوں کی ایک تحریک ہمارے سابقہ قبائلی علاقوں سے ابھری تھی۔ اس کے نعروں میں سے ایک مقبول نعرہ ’’لروبر‘‘ میں آباد ’’افغانوں‘‘ کو ایک قوم مانتا تھا۔ ہمارے ’’نظریاتی پاسبانوں‘‘ کو یہ نعرہ ’’غداری‘‘ محسوس ہوا۔ اسے بلند کرنے والے جیلوں میں بھیجے گئے۔ اس نعرے کی موجد تحریک کے ساتھ ’’کالعدم‘‘ تنظیموں والا سلوک ہوتا ہے۔ میرے سمیت خود کو ’’لبرل‘‘ کہلوانے کے شوق میں مبتلا افراد التجا کرتے رہے کہ جذباتی نوجوانوں کے نعروں سے مشتعل نہ ہوا جائے۔ ان سے گفتگو کے ذریعے ان شکایات کا ازالہ ہونا چاہیے جو مذکورہ نعرے کا سبب ہوئیں۔
اب مگر ’’احیائے اسلام‘‘ کے دعوے دار اور طالبان کے پہلے امیر ملاعمر کا فرزند ہی ’’لروبر‘‘ کا ذکر کرنا شروع ہوگیا ہے۔ یہ ذکر بھی ایک ایسے ٹی وی چینل پر ہوا جو قطر سے نیل تک ہی نہیں بلکہ دنیا کے کسی بھی شہر میں مقیم عربوں کا پسندیدہ چینل ہے۔ ملایعقوب کے بارے میں مشہور ہے کہ موصوف نے اپنی تعلیم پاکستان میں حاصل کی۔ اسے ملاعمر کا ’’شاہزادہ‘‘ سمجھتے ہوئے ہمارے حکمرانوں نے تقریباََ شاہی پروٹوکول بھی فراہم کیا۔ موصوف مگر اب پاکستان اور افغانستان کے مابین سرحد کا تعین ’’لروبر‘‘ کے حوالے کررہے ہیں۔
خواجہ آصف ہمارے وزیر دفاع ہیں۔ دوحہ مذاکرات میں انہوں نے پاکستان کی نمائندگی کی تھی۔ موصوف 1990ء کی دہائی کا آغاز ہوتے ہی سیاست میں بینکنگ کا شعبہ چھوڑ کر وارد ہوگئے تھے۔ کسی بھی موضوع پر بولتے ہوئے ’’وہ کہے اور سنا کرے کوئی‘‘ والا ماحول پیدا کردیتے ہیں۔ یہ کالم میں منگل کی دوپہر شروع ہوتے ہی لکھ رہا ہوں۔ ایک گھنٹہ گزرنے کے باوجود مجھے ایسی کوئی خبر نہیں ملی کہ دوحہ مذاکرات کے بارے میں وہ اپنی پسند کے ذہن ساز صحافیوں کو آف یا آن دی ریکارڈ بریفنگ دینا گوارہ کریں گے یا نہیں۔
اخباروں میں حکومت پاکستان کی جانب سے ’’کامیاب‘‘ ٹھہرائے دوحہ مذاکرات کے باوجود خیبر پختونخواہ کے کم از کم تین مقامات پر دہشت گرد حملے ہوچکے ہیں۔ جنگ بندی گویا پاکستان اور طالبان کے مابین ہوئی ہے۔ طالبان کے ’’پاکستانی برادران‘‘ فی الحال اس میں طے ہوئی شرائط کے پابند نظر نہیں آرہے۔
پاکستان اور طالبان کے مابین ’’امن مذاکرات‘‘ کا دوسرا دور اکتوبر کی 25تاریخ کو ترکیہ کے تاریخی شہر استنبول میں ہونا ہے۔ نظر بظاہر اس تاریخ تک طالبان کے ’’پاکستانی برادران‘‘ ہمارے ہاں دہشت پھیلانے کی ہر واردات کے لئے آزاد ہیں۔ طالبان نے گویا ان کی ذمہ داری اٹھانے سے ہاتھ اٹھالئے ہیں۔ اگرانہوں نے واقعتا ہاتھ اٹھالئے ہیں تو ترکیہ میں ان کے ساتھ ’’امن مذاکرات‘‘ کا ایک اور دور فقط افغانستان کے ساتھ تجارت کو بحال کرنے کے سوال کی نذر ہی ہوگا۔ طالبان کے ’’پاکستانی برادران‘‘ دریں اثناء دہشت ووحشت پھیلاتے رہیں گے۔
( بشکریہ : روزنامہ نوائے وقت )
فیس بک کمینٹ

