گزشتہ سات برسوں سے وطن عزیز میں ’’گندم کا بحران‘‘ معمول بن رہا ہے۔ عمران خان کی وزارت عظمیٰ کے دوران مجھے لاہور کئی بار جانے کا موقع ملتا رہا۔ کرائے پر لی گاڑیوں کے ڈرائیور زیادہ تر لاہور کے نواحی دیہاتوں سے تعلق ر کھتے تھے۔ ان کی زبانی علم ہوا کہ پولیس زمینداروں کی ’’چھپائی‘‘ گندم بازیاب کروانے کے لئے کاشتکاروں کے ڈیرو ں پر چھاپے ماررہی ہے۔ گندم چھپانے کی وجہ یہ بتائی گئی کہ سرکار نے اس کی خریداری کے جو نرخ متعین کئے تھے وہ کسان کو مناسب منافع نہیں دیتے۔ تھوڑی تحقیق کے بعد معلوم یہ بھی ہوا کہ سرکاری نرخوں سے کہیں زیادہ قیمت پر سمگلر مافیا کسان کو بیج اور کھاد وغیرہ کے لئے پیشگی رقم دے کر فصل اٹھانے کا بندوبست کرلیتا ہے۔ اپنے پلے سے ایک پیسہ لگائے بغیر کسان لہٰذا کافی منافع کمالیتے۔ سرکاری نرخوں کے مقابلے میں زیادہ نرخ پر اٹھائی یہ گندم عموماََ خیبرپختون خواہ کی فلور ملوں کے علاوہ افغانستان بھی بھجوادی جاتی۔ چند ’’ڈیرے دار کسان‘‘ البتہ نجی ملاقاتوں میں حلفاََ یہ دعویٰ دہراتے رہے کہ انہیں اپنا بھرم رکھنے کے لئے ’’بھڑولے‘‘ میں گندم چاہیے۔ کئی ایک نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ سرکار جب ان کی کاٹی گندم سرکاری نرخ پر اٹھاکر لے گئی تو انہیں ’’بھڑولے‘‘ بھرنے کے لئے دیگر کاشتکاروں سے مجرمانہ انداز میں گندم خریدنا پڑی۔
مجھے امید تھی کہ عمران حکومت کے خاتمے کے بعد ’’کسان دوست‘‘ پیپلز پارٹی کی مدد سے قائم ہوئی شہباز حکومت ’’گندم کا بحران‘‘ حل کرنے کی حکمت عملی دریافت کرلے گی۔ ’’بحران‘‘ کا لفظ کچھ عرصے کے لئے یقینا سننے کو نہیں ملا۔ فروری 2024ء کے بعد قائم ہوئی حکومت کے دوران مگر یہ انگڑائی لے کر بیدار ہوگیا ہے۔ معاشی اور کاشتکاری سے متعلق امور سے نابلد مجھ جاہل شہری کو یہ بتایا گیا کہ پاکستان کو دیوالیہ سے بچاکر معاشی استحکام کے راستے پر ڈالنے والے آئی ایم ایف نے یہ شرط عائد کردی ہے کہ گندم کو سرکاری نرخوں کے ساتھ خریدنے کی برسوں پرانی روایت ختم کردی جائے۔ طلب اور رسد کا اصول گندم اگانے کے رحجان اور اس کی قیمت کو طے کرے۔
آئی ایم ایف کے حکم کی تعمیل کے باوجود ہمارے ہاں ریکارڈ توڑ گندم پیدا ہوئی۔ حکومت اسے خریدنے کو آمادہ نہ ہوئی تو وافر سپلائی کے معاشی اصول کے مطابق گندم کو انتہائی کم نرخوں پر بیچنا پڑا۔ اس سے کسان پریشان ہوگئے۔گزشتہ نومبر میں گندم اگانے سے پرہیز کو ترجیح دیتے ہوئے اپنے رقبے سرسوں جیسی فصلیں اگانے کے لئے استعمال کرنا شروع ہوگئے جن پر لاگت کے مقابلے میں گندم سے بہتر منافع ملتا تھا۔ گندم اگانے سے گریز نے جو قلت پیدا کی اس کا اندازہ یہ جان کر لگا لیں کہ انتظامیہ گندم کو 2200روپے فی من بکتا دیکھنا چاہتی ہے۔ بازار میں لیکن ممنوعہ اشیاء کی طرح بکتی گندم کے ایک من کا نرخ پیر کی شام 3600روپے تھا۔ جو نرخ میں بتارہا ہوں وہ پنجاب کے کئی شہروں میں گندم اگانے اور اسے فروخت کرنے والوں سے ٹیلی فون پر ہوئی گفتگو کے ذریعے دریافت ہوا۔ پیر ہی کے دن مگر وفاقی حکومت کی جانب سے اعلان ہوا کہ اب کے برس آئی ایم ایف کی مہربانی سے سرکار گندم کے نرخ مقرر کرے گی۔ ایک من گندم کی قیمت لہٰذا 3500روپے مقرر ہونے کا اعلان کردیا گیا۔ جو نرخ منظر عام پر لایا گیا وہ پیر کے روز بازار سے نکلے ریٹ سے 100روپے کم تھا۔
حکومت کی جانب سے نرخ کا تعین ہوگیا تو اپنے ایک ساتھی کے ساتھ مل کر ہم نے پنجاب کے کئی کسانوں سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا۔ ان کی اکثریت نے اصرار کیا کہ جو نرخ متعین ہوا ہے وہ کاشت کار کو ’’وارا‘‘ نہیں کھاتا۔ زیادہ رقبوں والے کاشتکاروں نے بتایا کہ وہ ماضی کے مقابلے میں اپنے آدھے رقبوں پر گندم ذاتی ضرورت کے لئے اگائیں گے۔ سفید پوشی اور مہمان نواز کا بھرم رکھنے کے لئے ’’بھڑولے‘‘ بھرنا ضروری ہے۔ گندم کی کاشت مگر ’’توری‘‘ کے حصول کے لئے بھی لازمی ہے جو مویشیوں کو فربہ بناتی اور سردی سے محفوظ رکھتی ہے۔ گندم کے مقابلے میں سرسوں کے علاوہ جو کوبھی ترجیح دی جائے گی۔ وزن کم رکھنے اور شوگر کے مرض سے بچنے کے لئے شہری متوسط طبقے میں اس جنس کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ اس کی فصل اگانے کاخرچ گندم کے مقابلے میں کم مگر زیادہ منافع بخش ہے۔ کسانوں کا ایک گروہ گندم کے بجائے ’’مونجی (چاول)‘‘اگانے کو بھی سوچ رہا تھا۔
کسانوں سے گفتگو کرتے ہوئے اسلام آباد میں گھر تک محدود ہوئے مجھ شہری کو علم ہوا کہ ڈیزل کی گزشتہ برسوں سے مسلسل بڑھتی قیمت کی وجہ سے گندم کی بوائی کے لئے زمین کو ٹریکٹر کے ذریعے تیار کروانا بہت مہنگا ہوگیا ہے۔ کھاد کے نرخ بھی آسمان کو چھورہے ہیں۔ اس کے علاوہ پانی لگانے کی قیمت اگر ڈیزل یا بجلی سے چلائے ٹیوب ویل کو ذہن میں رکھتے ہوئے شمار کی جائے تو گندم کی اگائی کو مزید مہنگا بنادیتی ہے۔ سولر سے چلائے ٹیوب ویل اگرچہ کچھ حوصلہ دیتے ہیں۔ 15سے زیادہ کسانوں سے طویل گفتگو کے بعد دریافت ہواکہ اب کی بار ایک من گندم اگانے کے لئے کسان کو کم ازکم 3600سے 4000روپے خرچ کرنا ہوں گے۔ اس خرچ کو ذہن میں رکھتے ہوئے جو سرکاری نرخ سامنے آیا وہ یقینا گھاٹے کا سودا ہے۔
مجھے کاروباری حساب کتاب کا ککھ پتہ نہیں۔ ہمارے وزیر اعظم مگر ایک کامیاب تصور ہوتے کاروباری خاندان سے تعلق رکھتے ہیں۔ وزیر خزانہ اورنگزیب صاحب ویسے تو بینکار ہیں مگر وہ کمالیہ کے کاشتکار گھرانے سے بھی تعلق رکھتے ہیں۔ خوراک کی سلامتی کے نگہبان وزیر رانا تنویر حسین ہیں جو بنیادی طورپر زمیندار ہیں۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی کہ ایسے افراد ان زمینی حقائق سے غافل کیسے ہوسکتے ہیں جن کاپتہ چلانے کے لئے مجھے صرف تین کے قریب گھنٹے محض فون پر صرف کرنا پڑے۔ حکومتوں کے پاس خواہ وہ کتنی ہی نکمّی کیوں نہ ہوں زمینی حقائق کا پتہ لگانے کے ہزاروں ذرائع موجود ہوتے ہیں۔ انہیں دیانتداری اور لگن سے استعمال کیا جاتا تو وفاقی حکومت گندم کا نرخ 3500روپے فی من مقرر نہ کرتی۔ کسان کا منافع یقینی بنانے کے لئے اسے کم ازکم چار ہزار روپے فی من تک بڑھادیتی۔ ’’گندم کا بحران‘‘ ہماری تاریخ میں کئی حکومتوں کے زوال کا باعث ہوا ہے اور یہ سلسلہ قیام پاکستان سے کئی صدیاں قبل جاری ہوا تھا۔ کاش گندم کے نرخ تعین کرتے ہوئے وفاقی حکومت نے اس حقیقت کو ذہن میں رکھا ہوتا۔
( بشکریہ : نوائے وقت )
فیس بک کمینٹ

