احمد نے 15 دسمبر 1979 کو مشن ہسپتال ملتان میں جنم لیا۔مشن ہسپتال سے ہمارے خاندان کا پرانا تعلق تھا کیونکہ زچگی کے دوران ہمارے خاندان کی خواتین مشن ہسپتال کا رخ کیا کرتی تھیں۔میں ہفتہ وار چھٹی پر گھر آیا ہوا تھا اور 14 دسمبر کو رات آٹھ بجے سے نو بجے تک پی ٹی وی سے "وارث ” ڈرامے کی نشر ہونے والی قسط دیکھ کر 10 بجے رات ڈیرہ اڈہ سے راجن پور جانے والی بس پر سوار ہو کر الصبح اپنی ڈیوٹی پر پہنچ گیا۔۔مین روڈ کے کنارے واقع میرے بنک کی برانچ کے سامنے ہی بس سٹاپ تھا۔دوپہر سے کچھ پہلے سٹاپ پر رکنے والی بس سے میں نے اپنے چھوٹے بھائی مجاہد خان کو اتر کر مسکراتے ہوئے برانچ کی طرف آتے دیکھا تو اپنی سیٹ چھوڑ کر میں برانچ کے دروازے تک آ گیا۔مجاہد خان نے خوشی سے بغلگیر ہوتے ہوئے کہا ۔۔” بھائی جان مبارک ہو اللہ نے بیٹا عطا کیا ہے”۔۔۔
گھر آ کر نوزائیدہ بیٹے کو دیکھا، خوبصورت شکل وصورت اور نازک سا ننھا فرشتہ۔۔۔احتیاط سے گالوں کو چھوا تو اتنے نرم کہ لگا جیسے کپاس کو چھو لیا ہو۔۔
نام حسان شاہد رکھا گیا۔بیٹے کی پیدائش کی خوشی اس وقت پریشانی میں بدلنے لگی جب چند ماہ کی عمر میں ہی وہ مسلسل بیمار رہنے لگا۔دوا علاج بے اثر دکھائی دینے لگے تو اپنی بڑی بھابی کے اصرار پر دعا کی خاطر ایک ایسے بزرگ کے پاس لے گئے جو "روائتی بزرگوں” سے قطعی مختلف تھے۔سیدھے سادے باریش، پیشہ بائیسکلوں کی مرمت۔۔۔محبت اور شفقت سے ہماری پریشانی سنی۔بچے کا نام تاریخ پیدائش اور وقت پوچھا۔کاغذ پر کچھ حساب کتاب کیا اور گویا۔۔” بچے کا نام بدلنا پڑے گا” ۔۔۔۔میں کہا "آپ ہی نام رکھ دیجیۓ”۔۔۔کہنے لگے۔۔”احمد خلیل”۔۔۔اور ساتھ ہی کاغذ کے ایک ٹکڑے پر بچے کی کچھ عادات و صفات لکھ کر کاغذ ہمارے حوالے کر دیا ۔۔
کاغذ کا وہ ٹکڑا احمد کی والدہ کے "خلد مکانی” ہونے تک اس کے پاس محفوظ تھا اور احمد عادات و صفات میں عین اس تحریر کے مطابق ہے۔۔دیگر کئی صفات کے علاوہ ان میں سے ایک صفت شاعر بلکہ اچھا شاعر ہونا بھی تھی۔۔۔احمد کو شعر و سخن سے لگاؤ اور دلچسپی تو شروع ہی سے تھی۔اس کی پہلی سامع اور مداح اس والدہ تھی اور پھر بہن بھائی اور کزنز کے علاوہ دوست بھی سامعین و مداحین میں شامل ہوتے چلے گئے۔۔ احمد کی سعادت مندی ہے کہ وہ اس مقام پر ہو کر بھی میرے سامنے زیادہ بات کرنے کی جسارت نہیں کرتا اور اس جھجھک کی واحد وجہ باپ بیٹے کے رشتے کا احترام ہے۔اس لئے میرے سامنے اپنی شعر گوئی کا وہ کھل کر کبھی اظہار نہیں کرتا تھا۔
کئی سال پہلے میرے گھر پر منعقد ہونے والی ایک مختصر سی شعری نشست میں’ جس میں محترم جناب ڈاکٹر انوار احمد صاحب کے علاوہ معروف شعراء رضی الدین رضی، شاکر حسین شاکر ، وسیم ممتاز، قمر رضا شہزاد، نوازش علی ندیم اور قیصر عباس صابر’ شامل تھے’ احمد نے اپنا کلام پیش کیا اور تمام شرکاء محفل نے دل کھول کر نہ صرف داد دی بلکہ پذیرائی اور حوصلہ افزائی کا حق بھی ادا کیا تو اس کے بعد احمد نے شعر گوئی کے میدان میں اپنی خداداد صلاحیت کے بل بوتے پر باقاعدہ قدم رکھا۔۔
جب احمد نے اس میدان سخن میں قدم رکھا تو پھر اپنی پیشہ ورانہ انتہا درجے کی مصروفیات کے باوجود پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔احمد شعر کہتا چلا گیا اور میں اس کا کلام کتاب کی صورت میں شائع کروانے کی سوچ کو عملی شکل دینے کی خواہش اور کوشش میں مصروف ہو گیا۔۔یوں پہلا شعری مجموعہ مارچ 2021 میں "ادراک” کے نام سے سامنے آیا جسے شاکر حسین شاکر نے "کتاب نگر” سے شائع کیا اور اب نیا شعری مجموعہ ” ایسی اداسی بھی نہیں ہے” گرد و پیش پبلیکشنز کے زیر اہتمام رضی الدین رضی نے شائع کیا ہے۔۔
ڈاکٹر احمد خلیل خان کی شاعری کے اسلوب’ لب و لہجے ‘ندرت خیال’جہت و جدت فنی حسن وقبح کے بارے میں یہاں میں کچھ نہیں کہوں گا کہ ان پر راۓ دینا قاری کا حق ہے ۔۔میری دعا ہے کہ احمد کا یہ شعری سفر کامیابی سے جاری رہے۔احمد کی اولین سامع اور مداح اس کی والدہ خلد مکانی بھی اپنے بیٹے کی کامیابی پر آسمان کے کسی دروازے سے جھانکتی یقناً خوش ہو رہی ہو گی۔
فیس بک کمینٹ

