آج میں اپنے آپ پر افسوس کررہا ہوں کہ کاش میں مرثیہ نگار ہوتا ، وہ جن کے جیتے جی ان کے مرثیے لکھتا تھا میں اس کی موت پر اس کا مرثیہ لکھتا ۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ میر انیس زندہ ہوتے تو یہ وصیت کرکے جاتے کہ ” میں مرجاؤ ں تو یہی صاحب اسلوب نثرنگارمیرامرثیہ لکھے ” وہ کیا تھا ایک عام سا اردو کا استاد مگر اس کے پاس خوبصورت اور پر تصنع الفاظ کا خزانہ تھا بلکہ یوں کہنا چاہیئے کہ وہ لفظ ڈھالنے کی ٹیکسال تھااور اپنے ڈھالے ہوئے لفظوں کی اس نے اس قوم سے جو قیمت وصول کی وہ حرف و صوت کا دھندہ کر نے والا کوئی تاجر شاید ہی وصول کر سکے۔
کون نہیں جانتا کہ حرف و صوت کا تعلق الہام سے ہوتا ہے اور وہ جو اتنا حرف شناس تھا کہ حرفوں سے خنجر ڈھال لیتا تھا جن کی انی اتنی باریک اور تیز دھار ہوتی کہ زخم ایسا کاری لگتا کہ کسی زہر میں بجھے تیرسے بھی زیادہ درد ناک اور مہلک ہوتا۔فقط یہ نہیں وہ حرفوں سے پتھر بھی تراش لیتا تھا جو سینہ چیر کر دل کے پارہوجاتے تھے ۔
پروفیسر مرزا منور نے آغا شورش کاشمیری کے بارےکہا تھاکہ "ان کی سرگوشی بھی گونج تھی،کسی کو ان کی باتوں کے معنی سے ہزار اختلاف ہو ، مگر یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ وہ بات کرنا نہ جانتے تھے ،وہ صحیح معنوں میں لسان تھے، مشکل سے مشکل اور پیچیدہ سے پیچیدہ امر کو بھی سہولت
سے بکمال فصاحت و بلاغت بیان کر سکنے پر قادر تھے کہ حیرت ہوتی تھی "۔
اس کا بھی یہی حال تھا، وہ بھی "اظہار و ارقام کی "صراط مستقیم ” کو جانتا تھا ” مگر اس پر چلنے سے تادم مرگ گریزاں رہا، شاید اس لئے کہ ایک اردو کے استاذ کی معاشی بساط کیا ہوتی ہے بس خوشحالی کے کچھ خواب وہ اپنی آنکھوں میں سجائے ہوتا ہے،اس کے پاس بھی یہی خواب تھے اور یہ اپنے قلم کی کمائی سے، اپنے خوابوں کی تعبیر خریدنا چاہتا تھا تاکہ اس کے بچے کبھی نان جویں کو ترسنے نہ پائیں اسلئے اس نے لفظوں کے بیوپار کی ٹھانی اور عمر بھر اسی دھندے میں سر تا پا ملوث رہا۔شاید اسے صرف دھن دولت کی ضرورت تھی اگر شہرت و عزت اور عزیمت کی احتیاج ہوتی تو اس کے قلم کی منقار اعلائے کلمہ الحق سے بہت کچھ حاصل کرنے کی قدرت رکھتی تھی ۔ مگر ،مگر وہ ایک خاندان کا قصیدہ خواں ہوکر رہ گیا وہ خاندان جو نصف صدی سےاختیار ات کا رسیا ہے ، دولت وثروت کی اندوختگی سے اس خاندان کی ہوس ،حرص اور لذت کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا ۔ لوہا کوٹنے والوں نےایک ایسی آہنی تلوار ڈھال کر اسے دے دی جس سے وہ ہر جمہوری حکومت کی جڑیں کاٹنے کا کام لیتا رہا ۔وہ شخص جس نے طالبان کی جدو جہد پر ،ان کے حقوق اور ان کی مظلومیت کے نعرے پر شہرت پائی ۔لوگ اس کے کالمز کی فوٹو کاپیاں نکلواکر نماز جمعہ کے بعد مساجد میں تقسیم کیاکرتے تھے ،پھر رفتہ رفتہ اپنے اور اپنے ممدوحین کے
سیاسی مفادات کے لئے اپنے ہی موقف سے پیچھے ہٹنا شروع کر دیا۔کہ جیسے اپنا قلم شریف خاندان کے پاس رہن رکھ دیا اور وہ بھی بڑے بڑے فیصلے اسی
کے ایما پر ،اسی کے مشوروں سے کرتے ،یہاں تک کہ اپنی تقریریں اسی سے لکھواتے ، شریف خاندان علامہ اقبال کے
اس مصرع کی مثال بن گیا کہ
انہیں کے مطلب کی کہہ رہا ہوں
زبان میری ہے بات ان کی
اور اس کی قیمت بڑے بڑے عہدوں کی صورت چکائی جاتی۔ مرشد شورش کاشمیری نے فرمایا تھا کہ "کوئی تاریخ اس لئے نہیں روکی جاسکتی کہ اس کے سامنے کا راستہ ہموار
نہیں یا جن لوگوں کے ہاتھ میں قلم ہے وہ سیاست کے تھانے میں بیٹھ کر اپنے منشاء کے مطابق ضمنیاں لکھتے رہے ہوں ہمیشہ وہی لوگ سورج کے طلوع
ہونے سے ڈرتے ہیں جو اندھیروں میں ہی میں رہنا چاہتے ہیں۔جن کے پاس صداقتیں ہوں وہ کبھی دوسروں کی صداقتوں سے خوفزدہ نہیں ہوتے بلکہ کھلے دل سے ان کا خیر مقدم کرتے ہیں”۔مجھے افسوس ہے کہ جناب عرفان صدیقی اپنی صداقتیں رکھنے کے باوجود دوسروں کی صداقتوں سے آنکھیں چراتے
رہے ۔انہیں کسی سورج تو کیا کسی سچ سے بھی آنکھ ملانا نہیں آتا تھا۔
دوبئی قیام کے دوران چوہدری نورالحسن تنویر کے گھر پر ان کی میری کئی ملاقاتیں ہوئیں ۔ جن کا ذکر کسی اور اظہاریئے میں کریں گے۔بہرحال وہ ایک
نیک آدمی تھے اللہ ان کی نیکیوں کو ان کی بخشش کا ذریعہ بنائے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون
فیس بک کمینٹ

