نوٹ:
یہ محض ایک خیالی حکایت ہے جس کا کسی بھی حقیقی واقعے، شخصیت یا ادارے سے کوئی تعلق نہیں۔ خاص طور پر، اس کا تعلق کسی بھی ملک کی عدالتِ عظمیٰ میں کسی مالیاتی وفد کی آمد سے قطعی طور پر نہیں جوڑا جا سکتا۔ تمام واقعات، مقامات اور کردار محض تخیل کی پیداوار ہیں، اور کسی بھی قسم کی مشابہت محض اتفاقیہ ہوگی۔
کہیں دور، پہاڑوں کے اُس پار، ایک بوسیدہ مگر شان دار عدالت ہوا کرتی تھی، جس کے دَر و دیوار پر انصاف کے اقوالِ زریں کندہ تھے اور دروازے پر ایک عظیم الشان ترازو لٹک رہا تھا۔ یہ ترازو علامت تھا اُس نظام کی، جو اپنے فیصلوں میں کبھی نہ جھکنے کا دعویٰ کرتا تھا، چاہے دنیا اِدھر کی اُدھر ہو جائے۔ مگر ایک روز، کچھ انوکھا ہوا۔
چالاک گِدھوں کا ایک وفد، جو ہمیشہ قحط زدہ زمینوں کی بو سونگھتا پھرتا تھا، اُس عدالت کے دروازے پر آ کر اُترا۔ اُن کے پنجوں میں معاہدوں کے زرد کاغذ تھے، اور اُن کی آنکھوں میں وہی پرانی بھوک— جو ہمیشہ زمین کے سب سے رسیلے ٹکڑے پر قبضہ جمانے کے لیے بے تاب رہتی ہے۔
عدالت کے دروازے پر ایک سنجیدہ چہرے والا اُلّو بیٹھا تھا، جو انصاف کے ان معاملات کا نگران تھا۔ گِدھوں نے اپنے زرد کاغذ اُس کے سامنے پھیلائے اور پوچھا، "ہمیں بتاؤ، اِس جنگل میں معاہدوں کی کیا حیثیت ہے؟ زمین کے مالکوں کو ہم کس حد تک مجبور کر سکتے ہیں؟”
اُلّو نے اپنی بڑی بڑی آنکھیں جھپکائیں، گویا سوال سمجھنے کی کوشش کر رہا ہو۔ پھر بولا، "ہم اصلاحات کر رہے ہیں، تم بہت اچھے وقت پر آئے ہو!”
گِدھوں نے چونچیں بجائیں۔ وہ ہر جگہ یہی جواب سنتے آئے تھے— "اصلاحات ہو رہی ہیں”— مگر نتیجہ کبھی اُن کے حق میں نکلتا تھا، کبھی نہیں۔ اس بار وہ یقینی بنانا چاہتے تھے کہ انصاف کا یہ ترازو اُن کے وزن سے ہی جھکے۔
"لیکن ہمیں یقین دہانی چاہیے،” ایک بوڑھا گِدھ آگے بڑھا، جس کی چونچ سودی سودے بازی میں خاص مہارت رکھتی تھی۔ "اگر ہم اپنی دولت یہاں لے آئیں، تو کیا کوئی اور اُسے ہم سے چھین تو نہیں لے گا؟”
اُلّو نے اپنی گردن گھمائی اور عدالت کے بلند و بالا ستونوں کی طرف دیکھا۔ لمحے بھر کو سوچا، پھر بولا، "یہ جو تم کہہ رہے ہو، وہ دو طرفہ ہونا چاہیے!”
گِدھوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا، جیسے کہنے والے ہوں: "یہ کیا نیا معمہ ہے؟ ہم نے تو ہمیشہ سنا تھا کہ جنگل کے کمزور قانون دو طرفہ نہیں ہوتے، ہمیشہ ایک طرفہ ہی ہوتے ہیں!”
لیکن اُلّو نے مزید وضاحت کیے بغیر ہی پَر پھیلائے اور بولا، "اور ہاں، اگر تم چاہتے ہو کہ انصاف تیزی سے ہو، تو ہمیں ایک مشین بھی چاہیے، جو انسانی دماغ سے زیادہ تیز سوچے!”
گِدھوں نے اپنی گردنیں گھمائیں۔ "مشین؟ کیسی مشین؟”
اُلّو نے سر جھکا کر سرگوشی کی، "ایسی جو فیصلے کرے، بغیر کسی جذباتی مداخلت کے۔ ایسی جو انصاف کو اتنی باریک سطح پر لے آئے کہ جنگل کے باسیوں کو لگے، سب کچھ اُن کے حق میں ہو رہا ہے، حالانکہ حقیقت میں سب کچھ تمہارے لیے ہو رہا ہو!”
یہ سن کر گِدھوں کے پروں میں سرسراہٹ دوڑ گئی۔ "بہت خوب، بہت خوب!” بوڑھے گِدھ نے چونچ ہلا کر کہا۔ "لیکن کیا یہ مشین ہمیں بھی دے سکتے ہو؟”
اُلّو نے ہنکارا بھرا، "یہ سوال تمہارے دائرہ اختیار سے باہر ہے!”
گِدھ اب جان چکے تھے کہ انصاف کا یہ ترازو واقعی "اندھا” تھا، مگر بہرا ہرگز نہیں۔ وہ اپنی چونچوں میں زرد کاغذ دبائے، ایک دوسرے کو معنی خیز نظروں سے دیکھتے، عدالت کے دروازے سے باہر نکل آئے۔ وہ جانتے تھے کہ یہاں جو کچھ کہا گیا، اُس کا کوئی سَر پیر نہیں، مگر نتائج ہمیشہ اُن کے حق میں نکلتے رہے ہیں۔
اور یوں، اُس روز بھی کچھ نہ بدلا۔ ترازو اپنی جگہ لٹکتا رہا، انصاف کے اقوال دیواروں پر جگمگاتے رہے، اور جنگل کے باسی، جو اپنے چھوٹے چھوٹے مسائل لے کر عدالت کے دروازے پر دھکے کھاتے تھے، یہ بھی نہ جان سکے کہ انصاف کی ان اونچی دیواروں کے پیچھے اصل فیصلے کون کر رہا تھا!
فیس بک کمینٹ