سب نے دیکھا اور جس نے نہیں دیکھا وہ اب جان لے کہ، پنجاب یونیورسٹی کے اساتذہ کو کرپشن اور اقرابا پروری کے الزامات میں پابہ سلاسل، عدالت میں پیش کیا گیا۔ الزامات سچ ہیں یا جھوٹ، اس کا فیصلہ تو عدالت ہی کرے گی لیکن یہ زنجیریں، جن سے ان کے ہاتھ باندھے گئے تھے، بالکل حقیقی تھیں۔اتنی حقیقی تھیں کہ ہر قدم پہ ان کے بجنے کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ ایک بزرگ استاد، لاٹھی کے سہارے چل رہے تھے اور اس پہ بھی انھیں مزید کسی کے سہارے کی ضرورت تھی، حال باقی دونوں کا بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ یہ زنجیریں تو غالباً ان منہ زور لوگوں کے لیے ہوتی ہیں جو پولیس کا گھیرا توڑ کے اور عدالت کی دیوار پھلانگ کے بھاگ سکتے ہیں۔ ان کافوری سروں والے بزرگوں میں تو شاید عدالت جانے کی بھی سکت نہیں تھی۔پولیس والے بھی اسی ملک اور معاشرے کے پڑھے لکھے لوگ ہوتے ہیں، کیا ان کو یہ نظر نہ آیا یا انھیں کسی خاص وجہ سے اساتذہ کی اس توہین اور تذلیل کا حکم دیا گیا تھا؟ وجہ جو بھی رہی ہو، یہ ایک ایسی افسوس ناک حرکت ہے کہ جس پہ جتنا بھی شرمندہ ہوا جائے کم ہے۔ اساتذہ کے ساتھ بد سلوکی کا یہ پہلا واقعہ نہیں۔پاکستان بنا تو ہمیں بنا بنایا نظامِ تعلیم ملا۔ جسے ہم میکالے کا نظامِ تعلیم کہہ کر کوستے پیٹتے تو رہے لیکن کسی استاد نے، کسی وزیرِ تعلیم نے اسے بدلنے کی کوئی بھی کوشش نہ کی۔تعلیم کا مقصد، یا تو بابو بننا یا اپنے آبائی پیشے کو چھوڑ کر کسی اور کی ملازمت اختیار کرنا رہا۔ وکیل ، ڈاکٹر، پائلٹ اور انجینیئر بننے کا خواب دکھانے والے اساتذہ اور ماں باپ نے شاید بچوں کی اخلاقی تربیت کی طرف سے آنکھیں موند لیں۔آج سے پچیس تیس سال پہلے تک بھی ٹیوشن پڑھنے والے بچے نالائق اور پڑھانے والے اساتذہ لالچی سمجھے جاتے تھے۔ یونیورسٹی کے اساتذہ، ایک آدھ لیکچر کے بعد، باقی وقت، طلبا کے ساتھ گفتگو اور مباحثوں کے لیے میسر ہوتے تھے۔ امتحانوں کے پرچے آؤٹ ہونے اور پیسے لے کے نمبر لگانے کا سلسلہ بھی شروع ہو چکا تھا۔ اقربا پروری بھی ہوتی تھی لیکن ہم اپنے استادوں کی عزت کرتے تھے۔استاد بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں جو تیزی سے تنزل کی طرف جا رہا ہے اس لیے اساتذہ بھی اخلاقی بربادی کی اس دوڑ میں شامل ہوتے چلے گئے۔ ٹیوشن کے لیے بچے گھر بلانے سے لے کر، ٹیوشن سینٹر کھولنے، پرائیوٹ یو نیورسٹیوں میں پارٹ ٹائم پڑھانے تک کا سفر بڑی تیزی سے طے ہوا۔اس کے ساتھ ساتھ، ملک سے اچھے ذہنوں کا انخلا بھی شدو مد سے جاری رہا۔ پیچھے رہ جانے والوں کو یہ ہی تربیت ملتی رہی کہ تعلیم کے دو ہی مقاصد ہیں، اول اچھے نمبر لینا، دوئم اچھی نوکری حاصل کرنا۔ طلبا اچھے نمبر بھی لیتے رہے اور اچھی نوکریاں بھی حاصل کرتے رہے لیکن پوری قوم پچھلے ستر سال کے دوران شدت سے تنزل کا شکار ہوتی گئی۔اخلاقیات کا جنازہ پٹ گیا۔ آج کی نئی نسل، جس زبان میں گفتگو کرتی ہے اور جس قسم کی بازاری گالیاں ان کی نوکِ زبان پہ ہر وقت دھری رہتی ہیں، اس سے ایک جرم تو ثابت ہو جاتا ہے کہ ہم نے اپنی قوم کی تربیت نہیں کی۔قوم کی یہ تربیت، ماں باپ اور اساتذہ مل کر ہی کرتے ہیں۔ پاکستان میں چونکہ خواندگی کی شرح بہت کم ہے اس لیے ماں باپ کو تو ہم کافی حد تک، کم تعلیم یافتہ اور غیر مہذب پس منظر کا ہونے کی چھوٹ دے سکتے ہیں لیکن کیا اساتذہ کو معافی دی جاسکتی ہے؟آج عدالتوں اور نیب میں بیٹھے لوگ، پولیس والے، سب ہی ہمارے تربیت یافتہ ہیں۔ بطور استاد جہاں مجھے اس بات کا شدید دکھ ہے کہ ان اساتذہ کو زنجیریں کیوں پہنائی گئیں وہیں مجھے ایک حکایت بھی یاد آرہی ہے کہ ایک قاتل کو اس کے جرائم پہ پھانسی دی جارہی تھی۔ آخری خواہش کی تکمیل میں اس کی ماں کو بلوایا گیا کہ مجرم مرنے سے پہلے ماں کے کان میں کچھ کہنا چاہتا تھا۔ ماں آئی، مجرم نے بات کرنے کے بہانے سے اس کا کان کاٹ کھایا اور کہا کہ جب میں نے پہلا جرم کیا تھا تو مجھے کیوں منع نہ کیا؟قصور شاید کہیں ہمارا ہی ہے۔ تربیت کرنے والے تو ہم ہی تھے۔ ہم ان کو استاد کی عزت کرنا کیوں نہ سکھا سکے۔ تحریری معافی بھی مانگ لی گئی ہے لیکن وہ موٹی موٹی زنجیریں میرے سامنے لہرا رہی ہیں اور بطور استاد بطور قوم کے معمار مجھ سے اورمجھ جیسے ہزاروں اساتذہ سے جواب طلب کر رہی ہیں کہ یہ کیسی قوم پالی ہے جسے استاد کی عزت کی دھیلے برابر بھی پروا نہیں؟مقدس عدالت کے بلند کنگورے جھک کے مجھ سے کہتے ہیں کیوں استاد ! کیسی رہی؟
( بشکریہ : بی بی سی )
فیس بک کمینٹ