اب کی بار گیم ایسی الجھی ہے کہ سلجھنے کو ہی نہیں آ رہی۔ یوں لگتا ہے کہ اُون کے گولے کو غلط ملط کر کے بظاہر مقتدر کی جانب اچھال دیا گیا ہے اور حکم دے دیا گیا ہے کہ جلدی سے دوبارہ اصل حالت میں واپس لایا جائے۔جو جیتے گا وہ ہی مملکت کا اصل حق دار۔۔۔ وقت کم اور مقابلہ سخت۔۔۔ ٹیم کمزور اور نا تجربہ کار۔۔۔ اب ایسے میں گیم میں واپس آنا ہے، جیتنا بھی ضروری ہے اور شکست کو شکست دینا بھی۔یہ ملک قائد اعظم نے بنایا تھا اور اس خیال کے ساتھ کہ یہاں بسنے والے اپنے عقائد اور مذہب میں آزاد ہوں گے۔ پھر یوں ہوا کہ ریاست انتہا پسندوں کے ہاتھوں ہی یرغمال ہو گئی۔ یہاں تک کہ قائد اعظم کی مشہورِ زمانہ تقریر، جس میں انھوں نے مذہب اور ریاست کو الگ الگ رکھنے کی تلقین کی تھی، کے سنہری الفاظ تقریر سے ہی حذف کر دیے گئے۔ کیا کسی کو خوف تھا کہ ایک ایسی ریاست جہاں سب اپنی مذہبی آزادی کے ساتھ جئیں اگر تخلیق پا گئی تو کئی دکانیں بند ہو جائیں گی؟
یاد دہانی کے لیے، قائداعظم نے گیارہ اگست کی اس تقریر میں فرمایا تھا کہ:
’آپ آزاد ہیں اپنے مندروں میں جانے کے لیے، آپ آزاد ہیں اپنی مسجدوں میں جانے کے لیے اور ریاست پاکستان میں اپنی کسی بھی عبادت گاہ میں جانے کے لیے۔ آپ کا تعلق کسی بھی مذہب، ذات یا نسل سے ہو ریاست کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں۔‘
قائد نے جو کہا اس کے بالکل الٹ کیا گیا۔ ملک کے بہترین مفاد میں بار ہا فیصلے کیے گئے، کبھی پارلیمانی نظام کی موجودگی میں گورنر راج، صدارتی نظام کے ہوتے ہوئے بنیادی جمہوریتیں، کبھی طویل آمریتوں کے دور میں نیم پارلیمانی نظام اور کبھی پارلیمانی جمہوریت کے دور میں بدترین آمریت۔
صرف یہی نہیں، جہاں جہاں جو ’ملکی مفاد‘ میں مناسب سمجھا گیا وہ کیا گیا۔ جہاں لگا کہ ریاست کو امریکہ کا حلیف بننا ہے تو سات سمندر پار یارانہ لگایا گیا۔ جب لگا کہ عالمی سامراج کے ساتھ اتحاد میں جہاد کرنا ہے، جوق در جوق جہادی تیار کر دیے۔ ملک میں فرقہ واریت کی آگ بھڑکا دی گئی، دیو بندی مسلک سے جڑے لوگوں کی حوصلہ افزائی کی گئی اور جب لگا کہ یہ ریاست سے زیادہ طاقت ور ہو چکے تو وہ نظر انداز ہونے لگے۔
نظرِ کرم خاموش اکثریت کی جانب ہوئی اور خیال آیا کہ متصادم بیانیہ ہی حالات کا مقابلہ کر سکتا ہے۔ جہاں ریاست خود مقابلہ نہ کر سکے وہاں مقابل اور متصادم قوتوں کو آمنے سامنے کھڑا کر کے ہی کام چلانے میں عافیت ہے۔ خاموش اکثریت کے چند بڑبولوں نے ٹھیکداری شروع کی تو سیاسی مقاصد کے لیے بہترین چوائس ٹھہرے۔زیادہ دن نہیں گزرے، محض ایک سال قبل ہی یہ پریشر گروپ فیض آباد میں دھرنا دیے بیٹھا تھا، حکومت اور ریاست بے بس تھے یا بے بسی کا ڈرامہ دہرا رہے تھے۔ ریاست نے بیچ چوراہے میں نہ صرف گھٹنے ٹیکے بلکہ تاریخی دستاویزات بھی منظر عام پر لائی گئیں۔ٹھیک ایک سال بعد تاریخ نے خود کو دہرایا تو پہلے حکومت نے سپریم کورٹ کے فقید المثال فیصلے سے خود کو الگ کیا جس کے نتیجے میں دباؤ عسکری ادارے پر آ گیا لہذا انھوں نے بھی خود کو الگ کرنے میں عافیت ہی سمجھی۔ اب کی بار ریاست نے اپنی رٹ قائم کرنے کا اعلان کیا اور پہلے سے کہیں زیادہ کمزرو معاہدہ کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ ریاست ایک کمزور ترین عورت کو بھی بچانے کے لیے جسے قانون نے بے گناہ قرار دیا ہے ناکام ہو رہی ہے۔ یہ سانحہ پہلا نہیں مگر خدا کرے کہ آخری ہو۔
( بشکریہ : بی بی سی اردو)
فیس بک کمینٹ