صحافیوں کے بیان کردہ خدشات درست ثابت ہوجائیں تو وہ بہت فخر سے ’’میں نے تو پہلے ہی کہہ دیا تھا‘‘ والے فقرے کے ساتھ اپنی ’’بصیرت اور دوراندیشی‘‘ کا ڈھونڈوراپیٹنا شروع ہوجاتے ہیں۔ ربّ کریم نے ایسی خود غرضی سے بجائے رکھا۔ اسی باعث نہایت عاجزی سے یہ لکھنے کو مجبور ہوں کہ استنبول میں پاکستان اور افغانستان کے مابین ہوئے مذاکرات سے مثبت نتائج کی توقع نہیں باندھ رہا تھا۔ اگرمگر چونکہ اور چنانچہ کے استعمال کے ساتھ اس ضمن میں اپنے خدشات کا اظہار بھی اس کالم میں کرتا رہا۔ منگل کی رات بالآخر جب ان مذاکرات کے کسی نتیجے پر پہنچے بغیر خاتمے کی خبر ملی تو میں کسی خیر کی توقع نہ رکھنے کے باوجود اداس ہوگیا ہوں اور میری اداسی پاکستان سے زیادہ افغانستان کے بارے میں ہے۔
اب ذرا سوچیں 1978ء کے اپریل میں وہاں نور محمد ترہ کئی کی قیادت میں ’’کمیونسٹ انقلاب‘‘ برپا ہوا تھا۔ ’’قائد انقلاب‘‘ کو مگر اس کے عزیز ترین ’’کامریڈ‘‘ حفیظ اللہ امین نے منہ پرسرہانہ رکھ کے قتل کردیا۔ حفیظ اللہ امین کا اقتدار بھی زیادہ دن چل نہیں پایا۔ اقتدار میں آئی ’’خلق‘‘ پارٹی افغانستان جیسے روایت پسند ملک میں تیزی سے ایسی سیاسی اور سماجی تبدیلیاں لانا چاہ رہی تھی جنہیں چین اور ویت نام کے کمیونسٹوں نے بھی اپنے ہاں متعارف کروانے میں بہت احتیاط سے کام لیا تھا۔ ان کی جلد بازی سے گھبراکر ہزاروں افغان پاکستان آنا شروع ہوگئے۔ ’’خلق‘‘ پارٹی کے مقابلے میں کمیونسٹوں کا ایک اور دھڑا ’’پرچم‘‘ کے نام سے بھی کام کررہا تھا۔ ببرک کارمل اس کا سربراہ تھا۔ خلق پارٹی کی قیادت کے باہمی اختلافات نے افغانستان میں ابتری پھیلائی تو دسمبر1979ء میں سوویت افواج کابل میں داخل ہوگئیں۔ ببرک کارمل کو جسے خلق پارٹی نے چیکو سلاوکیہ کا سفیر بناکر ’’جلاوطن‘‘ کردیا تھا کابل بلاکر ایوان صدر میں بٹھادیا گیا۔
سرد جنگ کے عروج میں روسی افواج افغانستان میں درآئیں تو امریکہ کو ان سے ویت نام میں اپنی ذلت وہزیمت کا بدلہ لینے کا موقع نظر آگیا۔ پاکستان میں ان دنوں جنرل ضیاء الحق ایک فوجی آمر کی طرح برسراقتدار تھے۔ موصوف نے 1979ء کے اپریل میں ایک مقبول وزیر اعظم کو پھانسی بھی لگوائی تھی۔ امریکی خواہش کو نہایت ہوشیاری سے بھاپنتے ہوئے موصوف لہٰذا ’’جہادی‘‘ ہوگئے۔ افغانستان کو کمیونزم سے آزاد کروانے کے نام پر طویل جنگ کی تیاری شروع کردی۔ افغان پناہ گزینوں کی بستیوں سے افغانستان میں ’’گوریلا جنگ‘‘ لڑنے کے لئے ’’جہادی‘‘ تیار کئے گئے۔ جہادی مگر کبھی بھی متحد جماعت کی صورت نہ اختیار کر پائے۔ کم از کم 8دھڑوں میں منقسم ہوئے افغانستان میں اپنے اپنے حلقہ ہائے اثر میں مزاحمت کی آگ بھڑکاتے رہے۔ افغان مزاحمت پر قابو پانے کیلئے کمیونسٹ افواج نے ہر نوع کی بربریت آزمائی۔ ان کی فضائی اور فوجی برتری کو مگر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے جدید ترین ہتھیاروں کی فراہمی سے کمزور سے کمزور تر بنایا۔ بالآخر 1986ء میں روس نے اپنی افواج کو افغانستان سے نکالنے کا فیصلہ کرلیا۔ روسی افواج کے انخلاء کے باوجود افغان مذاکرات کے ذریعے اپنے لئے کوئی سیاسی نظام تشکیل نہ دے پائے۔ 1992ء کے اپریل میں افغان مجاہدین کے دھڑوں کو خانہ کعبہ جاکر ایک معاہدہ کرنے کو مجبور کیا گیا۔ صبغت اللہ مجددی اس کے تحت عبوری افغان صدر بنے۔ ان کے صدارت سنبھالتے ہی مگر احمد شاہ مسعود اور گل بدین حکمت یار کے دھڑے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی وحشت میں مبتلا ہوگئے۔ افغانستان کے وسیع تر قصبے مجاہدین کے مختلف دھڑوں نے آپس میں بانٹ لئے۔ بندوق بردار دھڑوں کی ’’سکھاشاہی‘‘ کو طالبان نے للکارا۔ وہ ’’احیائے اسلام‘‘ کے نام پر اقتدار میں آئے۔ اپنے دعویٰ کو حقیقت میں بدلنے کے لئے انتہاپسندانہ رویے اختیار کرتے ہوئے خود کو دنیا سے بیگانہ بنالیا۔ پاکستان پرمسلسل ان کی سرپرستی کا الزام لگتا رہا۔ حالانکہ ان کے نمودار ہونے سے قبل گل بدین حکمت یار پاکستان کا چہیتا تصور ہوتا تھا۔
طالبان نے اقتدار سنبھالا تو فیصلہ نہ کر پائے کہ حقیقی ’’اسلام‘‘ فقط افغانستان ہی میں نافذ کرنا ہے یا ’’اسلامی انقلاب‘‘ دنیا کے ہر مسلم اکثریتی ملک میں برپا کیا جائے۔ دنیا بھر سے روس کے خلاف لڑنے کے لئے افغانستان آئے ’’مجاہدین‘‘ کو سمجھ نہ آئی کہ اب کیا کریں۔ امریکہ کو لہٰذا انہوں نے اسلام کے ’’نئے دشمن‘‘میں تبدیل کرلیا۔ اس کے نتیجے میں نائن الیون ہوا۔ اس کے بعد جو ہوا حالیہ تاریخ ہے۔ اسے دہرانے سے کیا حاصل؟ یک سطری حقیقت مگر یہ ہے کہ افغانستان اپریل 1978ء سے مسلسل خانہ جنگیوں اور غیر ملکی تسلط کے خلاف مزاحمت میں مصروف رہاہے۔ اس کی کم از کم تین نسلوں کو جنگی جنون کے علاوہ کسی اور جذبے کے ساتھ زندگی گزارنے کا موقعہ ہی نہیں ملا۔
پاکستانیوں کی اکثریت کو امید تھی کہ اگست 2021ء میں بقول عمران خان ’’غلامی کی زنجیریں‘‘ کاٹ کر برسراقتدار آئے طالبان تاریخ کا نیا اور پرامن باب لکھیں گے۔ ان دنوں اپوزیشن میں ہوتے ہوئے بھی آج کے وزیر دفاع خواجہ آصف کو بھی یہ ہی امید تھی۔ دونوں ہی یہ سمجھ نہ پائے کہ اپنے تئیں دوسپرطاقتوں- روس اور امریکہ- کو شکست دینے والے طالبان اپنے ’’اسلامی نظام‘‘ کو افغانستان تک ہی محدود نہیں رکھیں گے۔ وہ اپنے پاکستانی ’’برادران‘‘ کے ویسے ہی پشت پناہ ہوں گے جیسے بے شمار پاکستانی جہاد اور بعدازاں امریکہ کی مزاحمت کے دوران طالبان کے پشت پناہ رہے تھے۔
افغان تاریخ سے تھوڑی آگہی اور 1978ء سے وہاں کے معاملات پر جلال آباد،کابل اور قندھارسے رپورٹنگ کی بدولت جمع ہوئے تجربے کی بدولت میں بدنصیب تواتر سے اس کالم میں التجا کرتا رہا کہ طالبان کا نیا ورڑن ملاعمر کے دور ایسا نہیں۔ امریکی افواج کی افغانستان موجودگی کے دوران طالبان یکسو ویکجا ہوکر مزاحمت کے قابل نہیں تھے۔ وہ اپنی تنظیم کو مختصر ترین تشکیلات میں ڈھالنے کو مجبور ہوئے۔
خفیہ معلومات حاصل کرنے کیلئے امریکہ کے اپنائے جدید ترین حربوں اور آلات کو ناکام بنانے کے لئے چھوٹے گروہوں میں بٹ کر مزاحمت جاری رکھنا ان کی مجبوری تھی۔ اس کی بدولت وہ بہت تخلیقی اور ’’تکنیکی‘‘ بھی ہوگئے۔ ہم مگر اس گماں میں مبتلا رہے کہ طالبان بدستور مدرسوں کے سادہ لوح شاگردوں پر مشتمل ہیں۔ پاکستان کے سوا ان کا دنیا میں کوئی اور دوست وخیر خواہ نہیں۔ ان کی ’’سادگی‘‘ پر بھروسہ کرتے ہوئے ہم سمجھ ہی نہ پائے کہ امریکہ کی مرضی سے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ’’طالبان کے دفتر‘‘ کا قیام درحقیقت ان کی ’’خودمختاری‘‘ کا اعلان ہے۔ یہ دفتر حامد کرزئی کے دورِ اقتدار میں قائم ہوا تھا۔ ایک کائیاں سیاستدان ہوتے ہوئے کرزئی پاکستان سے زیادہ دوحہ میں طالبان کے دفتر کے قیام کے بارے میں متفکر وناخوش رہا۔
دوحہ میں بیٹھ کر طالبان نے امریکہ کے علاوہ دنیا کے دیگر ممالک سے بھی اپنے روابط بڑھائے۔ دریں اثناء 2016ء میں ٹرمپ امریکہ کا صدر منتخب ہوگیا اور وائٹ ہائوس پہنچتے ہی افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کی تیاری کرنے لگا۔ افغان نڑاد امریکی -زلمے خلیل زاد- کو اس نے اس ضمن میں اپنا خصوصی مشیر تعینات کیا۔ طالبان نے زلمے خلیل زاد کے ذریعے امریکہ کو طویل مذاکرات میں الجھاکر بالآخر ایک ’’معاہدہ‘‘ کیا۔ اس پر اگست 2021ء میں عملدرآمد ہوا تو امریکہ کے حصے میں فقط ذلت ورسوائی آئی۔ طالبان کو امریکہ کے ساتھ دوحہ مذاکرات کے لئے رضا مند کرنے کے لئے دبائو بڑھانے والے عمران خان اور قمر جاوید باجوہ بھی پاکستان کے لئے کچھ دوررس ضمانتیں حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ فاتح کی طرح کابل لوٹنے کے بعد سے طالبان بتدریج ’’احیائے اسلام‘‘ کے غم میں مبتلا ہونے کے بجائے پختون وطن پرستی کے رویے اختیار کررہے ہیں۔ اسی رویے نے انہیں مودی سرکار کو دوست بنانے کو اْکسایا ہے۔
طالبان کے وزیر خارجہ-امیر خان متقی- کے دورہ بھارت کے بعد ترکی میں ہوئے پاک-افغان مذاکرات سے مثبت نتائج کی امید رکھنا خام خیالی تھی۔ قطر اور ترکیہ کی وجہ سے پاکستان کو مگر اتمام حجت سے کام لینا پڑا۔ اب پاکستان کے طالبان کے ساتھ تعلقات اپنے منطقی انجام کی جانب بڑھیں گے۔ امن واستحکام برقرار رکھنے کی خاطر یہ انجام خوشگوار نہیں بلکہ انتہائی تکلیف دہ بھی ہوسکتا ہے۔
( بشکریہ : روزنامہ نوائے وقت )
فیس بک کمینٹ

