اگر پاکستانی سیاست کا کلینڈر ترتیب دیا جائے تو واقعاتی اعتبار سے عجیب و غریب اتفاقات سامنے آتے ہیں، سترہ اگست وہ تاریخ ہے کہ جس دن ضیاء الحق کا طیارہ ہوا میں پھٹ کر گرا اور وہ کئی جرنیلوں سمیت اس میں ہلاک ہو گئے، اٹھارہ اگست پرویز مشرف کے استعفے کا دن ہے یعنی سترہ اگست پاکستان کے دو آمروں کے اختیار و اقتدار کا آخری دن ہے، اور اٹھارہ اگست ہی وہ تاریخ ہے جس دن عمران خان کی حکومت وجود میں آئی، اسی لیے اس وقت میڈیا اسی پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے کہ عمران خان کی حکومت نے ان دو سالوں میں کیا کھویا کیا پایا، سوچا کہ ہم بھی اس کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں.
ہمارے ملک کے لوگوں کو اور خصوصاً عمران خان کے حامیوں کو جنابِ حسن نثار جیسے علما کی باتیں بہت پسند آتی ہیں لہٰذا اس کالم کا عنوان انہی کے ایک شعر کے مصرعے پر باندھا ہے شعر یہ ہے،
شہر آسیب میں آنکھیں ہی نہیں ہیں کافی
الٹا لٹکو گے تو پھر سیدھا دکھائی دے گا
پی ٹی آئی کے رہنما اور خود عمران خان جو باتیں اپنی حکومت کی کارکردگی کے حوالے سے کر رہے ہیں انکو سمجھنے کے لیے سب سے پہلے اس شعر کو سمجھنا ضروری ہے، اور اس میں کی گئی بات کو معیار مان کر انکی باتوں کا جائزہ لینے سے شاید ہم کسی نتیجے تک پہنچ پائیں…
اگر میں ان ہزاروں ویڈیو کلپس کو کہ جن میں ایک انقلابی عمران خان نظر آتا تھا جو بجلی اور گیس کی قیمتوں کے بڑھنے کو حکمرانوں کی بے ایمانی سے تعبیر کیا کرتا تھا، جو ایک روپے ڈالر کی قیمت بڑھنے پر حکمران کو کرپٹ کہہ ڈالتا تھا، جو آئی ایم ایف کے پاس جانے سے خود کشُی کو بہتر سمجھتا تھا، جو گزشتہ حکمرانوں کو امریکی پٹھو کہتا تھا، جو کہتا تھا کہ اگر میری حکومت میں کسی ایجنسی نے کسی پاکستانی شہری کو اٹھایا تو یا تو میں نہیں یا وہ ایجنسی نہیں وغیرہ وغیرہ… ان تمام باتوں کو اگر میں سیاسی بیانات کا مارجن دے بھی دوں تو بھی کارکردگی نہایت خراب ہے….
دو سالہ کارکردگی پر کامران خان شو میں وزیراعظم کا انٹرویو صرف ایک بات کی نشاندہی کر رہا ہے کہ عمران خان کی سیاسی زندگی کے آغاز میں ہی کسی نے انکو ایک جعلی قسم کے خبط عظمت کا اس بُری طرح سے شکار کیا کہ وہ اس جھوٹ کو ہی سچ سمجھنے لگے، کیونکہ جو باتیں وہ کنٹینر پر کھڑے ہو کر کیا کرتے تھے وہ بھی غیر حقیقی تھیں اور آج جو باتیں وہ بطور وزیراعظم کر رہے ہیں انکا بھی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے نہ ہی وہ باتیں ایک حکمران جماعت کے قائد کو زیب دیتی ہیں..
ہم عموماً یہ مانتے ہیں کہ باتیں دو طرح کی ہوتی ہیں یا تو کوئی بات سچ ہوتی ہے یا جھوٹ، لیکن باتوں کی ایک تیسری قسم بھی ہے، یہ بات ہمیں فلسفے اور سیاسیات کے ایک امریکی استاد "ہیری گورڈن فرینکفرٹ” نے بتائی ہیری فرینکفرٹ نے Yale, Princeton, Rockefeller اور Ohio State University جیسے عالمی شہرت کے تعلیمی اداروں میں فلسفے اور سیاسیات کے استاد کے طور پر کئی دہائیاں طالبعلموں کی فکری آبیاری کی ہے، آپکی ایک کتاب ہے جس کا نام ہے On Bullshit یہ کتاب سن 2005 میں منظر عام پر آئی جبکہ دراصل یہ ایک مضمون تھا جو کہ ہیری نے 1986 میں لکھا جب وہ Yale University میں فلسفہ اور سیاسیات پڑھا رہے تھے، اس میں انہوں نے واضح کیا کہ باتوں کی حقیقتاً تین قسمیں ہیں ایک سچ دوسرا جھوٹ اور تیسری بلشٹ(Bullshit )….
سچ اور جھوٹ سے تو ہم واقف ہیں بلشٹ کیا ہے؟؟
ہیری کے بقول بلشٹ ہے تو جھوٹ لیکن جھوٹ سے زیادہ خطرناک ہے کیونکہ جھوٹ بولنے والا اگر یہ نہ بھی جانتا ہو کہ سچ کیا ہے پھر بھی یہ ضرور جانتا ہوتا ہے کہ جو وہ بول رہا ہے کم از کم وہ سچ نہیں ہے… لیکن بلشٹر اولاً جھوٹ کو سچ سمجھ کر بولتا ہے اور تواتر کے ساتھ بولتا ہے یہاں تک کہ آہستہ آہستہ وہ خود بھی اسیُ جھوٹ کو سچ مان لیتا ہے، ایک جھوٹ کی مسلسل تکرار صاحب کلام کو بھی مجبور کر دیتی ہے کہ وہ خود بھی اس جھوٹ کے انہی مطالب کو سچ سمجھے کہ جن کو منوانے پر وہ اصرار کر رہا ہے، آج کی دنیا کے بیشتر حکمرانوں کی باتیں نہ تو سچ ہیں اور نہ ہی جھوٹ بلکہ وہ Bullshit ہیں مثلاً ہم سب جانتے ہیں کہ امریکی فوج گزشتہ بیس سالوں سے افغانستان میں پھنسی ہوئی ہے اور واپسی کا راستہ چاہتی ہے لیکن اس سب کے باوجود ٹرمپ کہتا ہے کہ میں دس دن میں افغانستان کو ٹھکانے لگا سکتا ہوں، انڈیا کے عوام اور حکمران جانتے ہیں کہ انکا ملک اور معیشت جنگ افورڈ نہیں کرتے لیکن ہر روز مودی پاکستان کو دھمکیاں دیتے ہیں اور قوم کو یہی بتاتے ہیں کہ پاکستان ہمارے لیے ایک تر نوالہ ہے جس کو ہم جب چاہیں نگل سکتے ہیں، یہی حالات ہمارے ملک میں بھی نظر آتے ہیں، عمران خان جب کنٹینر پر کھڑے تھے تب بھی وہ بلشٹنگ کرتے تھے اور آج جب وہ حکومت میں ہیں تو بھی بلشٹنگ ہی کر رہے ہیں، عمران خان نے جھوٹ بولے اور اس تواتر کے ساتھ بولے کہ نہ صرف وہ خود بلکہ انکی کابینہ اور ان کے فالوورز کو یہ یقین ہو گیا کہ جو خان کہہ رہا ہے وہی سچ ہے اور باقی ہر بیانیہ جو خان کے بیانیے کے خلاف ہے بکواس ہے اور انُ چوروں نے پھیلایا ہے کہ جو اس ملک کے غدار ہیں، اگر آج آپ یاد کریں تو گزشتہ چھ سے سات سالوں میں عمران خان نے جو بیانیہ یہاں پھیلایا وہ کیا تھا؟؟ اگر مختصراً بات کریں تو وہ بیانیہ یہ تھا کہ اس ملک کو یہ دو پارٹیاں (ن لیگ اور پیپلز پارٹی) لوٹ کر کھا گئیں ہیں، ان دونوں پارٹیوں نے یہاں پینتیس پینتیس سال حکومت کی اور ملک کو لوٹ لیا، انہوں نے اس ملک کو مافیاز کے رحم و کرم پر چھوڑے رکھا اور ان مافیاز کے سربراہ یہ خود تھے، معاملہ یہاں رکتا نہیں تھا خان صاحب اپنی دھاک بٹھانے اور اپنی بات کا وزن بڑھانے کے لیے فگرز بھی بتاتے تھے کہ زرداری کے ساٹھ ملین ڈالرز ملک سے باہر سوئس بینکوں میں پڑے ہیں جبکہ شریف خاندان نے تین سو ملین ڈالر سے زائد بیرون ملک منی لانڈرنگ کی ہے، اس ملک میں ہر روز بارہ ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے، نواز شریف مودی کا یار ہے کیونکہ اس کی فیکٹری میں انڈین لوگ کام کرتے ہیں، نجم سیٹھی نے چونکہ 2013 کے الیکشنز میں پینتیس پنکچر لگائے تھے اس لیے اس کو کرکٹ بورڈ کا چئیرمین بنایا گیا ہے، جب ثاقب نثار چیف جسٹس بننے لگے تو پی ٹی آئی نے انکو نواز شریف کا دوست قرار دیا (جبکہ حقیقتاً وہ عمران خان کے سلیکشن بورڈ کے ممبر نکلے) اسی طرح کی ہزاروں باتیں ہیں جو عمران خان نے متواتر کیں اور ہوا یہ کہ آج خود عمران خان اور انکے تمام رفقاء ان سب باتوں کو ہی سچ مانتے ہیں…
پی ٹی آئی نے اپنے پہلے سو دن کا جو منشور پیش کیا وہ بھی اسی بلشٹنگ کے زیر اثر ترتیب دیا گیا تھا، اس کا بھی حقیقت سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا، اس کا اگر آپ کو ثبوت چاہیے ہو تو آج آپ کسی پی ٹی آئی کے فالوور سے ایکدم یہ پوچھیں کہ خان نے مینار پاکستان پر کھڑے ہوکر جو گیارہ نکات پیش کیے تھے ان میں سے کوئی دو یا ایک ہی بتا دو تو امید ہے کہ کوئی پی ٹی آئی فالوور فوری طور پر آپ کو کچھ نہیں بتا پائے گا، شاید اسی لیے کہتے ہیں کہ سچ کی خوبی یہ ہے کہ اس کو یاد نہیں رکھنا پڑتا جبکہ جھوٹ کو یاد رکھنا پڑتا ہے اسی لیے جب کوئی بیانیہ جھوٹ پر مبنی ہو تو اس کو لوگوں کے ذہنوں میں نقش کرانے کے لیے اس جھوٹ کو بار بار بولنا پڑتا ہے تاکہ وہ لوگوں کے ذہنوں میں اچھی طرح نقش ہو سکے….
آج آپ کسی بھی پی ٹی آئی کے نوجوان سے نواز شریف اور زرداری کے بارے میں پوچھیں تو وہ بلا تامل کہے گا کہ دونوں چور ہیں اور اگر آپ آگے سے یہ کہیں کہ اگر وہ اتنے ہی بڑے مجرم ہیں تو خان نے انہیں ملک سے باہر کیوں جانے دیا؟؟ تو وہ سارا ملبہ عدالتوں پر ڈال دیں گے، نہ انکو عمران خان کے بیان یاد رہیں گے نہ ہی ڈاکٹر یاسمین راشد کے، سن 2014 میں ہمیں کائنات کا سب سے بڑا ظلم سانحہ ماڈل ٹاؤن لگا کرتا تھا کیونکہ بلشٹرز کی طرف سے اس بیانیے کو اتنی بار دہرایا گیا تھا کہ انسان چھوڑیے پتھر قائل ہو جاتا لیکن آج جبکہ علامہ طاہر القادری کے کزن کی حکومت ہے وہ اس واقعے کا ذکر تک نہیں کرتے رانا ثنا اور شہباز شریف مہینوں اداروں کی تحویل میں رہے وزیراعظم عمران خان تھے تو کیوں ماڈل ٹاؤن کے واقعات کی تفتیش ان دونوں لوگوں سے نہ کی گئی؟؟
اگر ہم اس حکومت کے وزرا پر غور کریں تو آپ کو سوائے بلشٹرز کے اور کچھ نظر نہیں آئے گا "اسد عمر دی فنانشل جینئس” جس کے بارے میں خان کا کہنا تھا کہ یہ ہے اس ملک کے مسائل کا حل! اپوزیشن بینچوں پر بیٹھے اسد عمر دی فنانشل جینئس کے مطابق ڈالر ساٹھ اور پیٹرول چھیالیس روپے لیٹر سے اوپر ایک پیسہ بھی اگر بڑھ جائے تو اسکا مطلب یہ تھا کہ ملک میں کرپشن ہو رہی ہے، اور آج جبکہ ڈالر 170 اور پیٹرول 104 روپے ہے تو کوئی اس آدمی کو یہ کہنے والا نہیں کہ حضور آپ کو مبارک ہو کہ آپ اپنے ہی پیش کئے گئے کلیے کے تحت اس ملک کی کرپٹ "ترین” حکومت کا اتنا ہی اہم "ترین” حصہ ہیں جتنا ڈھاکہ میں ہتھیار ڈالنے والی پاکستانی فوج کا آپکے والد تھے، آئیے ایک اور بلشٹر سے آپ کو ملواتے ہیں جنابِ فیصل واڈا کیا ہی کہنے! چائنیز قونصلیٹ پر حملہ ہو رہا تھا دہشت گرد اندر موجود تھے سیکورٹی فورسز ان سے نبرد آزما تھیں کہ دنیائے بلشٹ کے سوپر سٹار کی انٹری ہوتی ہے اور وہ ہتھیاروں سے لیس ہو کر وہاں پہنچتے ہیں اور میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ گھبراہٹ کی کوئی بات نہیں ہم ان سے لڑنے کو تیار ہیں، کبھی مگ 21 کے ملبے پر پاکستانی پرچم پکڑ کر کھڑے ہوتے ہیں اور کشمیر فتح ہو جاتا ہے، کبھی ٹاک شو میں میز پر بوٹ رکھ کر اپنی اصلیت سے آگاہ کرتے ہیں اور کبھی پاکستان میں نوکریوں کی بارش کی پیش گوئی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر میں غلط ثابت ہوں تو میری تکہ بوٹی کر دئجیے گا، لیکن کوئی ان سے آج کئی مہینے گزر جانے کے باوجود یہ نہیں پوچھ سکتا کہ حضور نوکری تو ملی نہیں تکہ ہی کھلا دیں؟؟؟
زرتاج گل کے بقول پاکستان کے اچھے موسم عمران خان کی ہینڈ سم شخصیت کا شاخسانہ ہیں، انہی کے بقول عمران خان کی کلنگ سمائیل ہے، کووڈ 19 کے انیس پوائنٹس ہیں جس کی وجہ سے اسکو کووڈ 19 کہا گیا ہے، اور تازہ ترین 17 اکست جنابِ ضیاء الحق شہید کا برتھ ڈے ہے، اسی طرح مراد سعید، فواد چوہدری، شہریار آفریدی، علی امین گنڈاپور، شیریں مزاری، پرویز خٹک، فیاض الحسن چوہان ،عثمان بزدار، علی زیدی ، عارف علوی، عمران اسماعیل، فردوس عاشق اعوان بلشٹنگ کی دنیا کے درخشندہ ستارے ہیں اور سب کے سب پی ٹی آئی میں شامل ہیں…
میرے نزدیک اس حکومت کی دو سالہ اور تحریک انصاف کی دس سالہ کارکردگی صرف اور صرف بلشٹنگ پر مبنی ہے جس میں عمران خان اور انکے ساتھیوں نے سلیکٹرز کے ساتھ مل کر قوم کو گمراہ کیا ہے…….اگر آپ نے اس حکومت کی کارکردگی سمجھنی ہو تو اس حکومت سے تعلق رکھنے والے کسی بھی شخص کی باتوں کو جنابِ حسن نثار کے بتائے ہوئے کلیے کے تحت الٹا کر دیکھیں سمجھ میں آجائے گا یعنی اگر ان میں سے کوئی کہے کہ ہم نے کشمیر کو عالمی مسئلے کے طور پر منوالیا تو اسکا مطلب یہ گا کہ انڈیا نے کشمیر ہڑپ لیا ہے، اگر کوئی کہے کہ مافیاز کو نہیں چھوڑیں گے اسکا مطلب یہ ہوگا کہ مافیاز کے سامنے ہتھیار ڈال دئیے گئے ہیں، مشن عمران خان کا مقصد قوم کو تقسیم کرنا تھا جو قوم ہو رہی، کام کرنے کی نہ ان میں صلاحیت ہے اور نہ ہی ان کو پاکستان کے مسائل کا ادراک ہے، چینی سے لیکر کشمیر تک کوئی معاملہ ایسا نہیں کہ جس میں اس حکومت نے بلشٹنگ نہ کی ہو، آج دو سال گزر جانے کے بعد یہ سمجھنا مشکل نہیں رہا کہ یہ حکومت کیوں لائی گئی تھی اس طرح کی حکومتوں کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ اس طرح کی حکومتیں عوام کے دماغ میں جمہوریت کو ایک گالی بنا دیتی ہیں اور عوام ہر طرح کی سیاسی سرگرمی ترک کردیتے ہیں
یں اس کا ثبوت اگر کسی کو چاہیے تو وہ اس ملک میں ایک سروے کرے اور عوام سے پوچھے کہ آپ فوجی حکومت چاہتے ہیں یا عمران خان کی حکومت جو جواب آپکو ملے وہی اس حکومت کی کارکردگی ہے…..