حوصلہ مندی، جرات اور بہادری کے سب دعوؤں کے باوجود ملک کے وزیر اعظم عمران خان نے اپنی حکومت کے دو سال پورے ہونے پر پریس کانفرنس منعقد کرکے اپنی کارکردگی بتانے اور اس پر اٹھنے والے سوالوں کے جواب دینے کی بجائے ایک ٹی وی پروگرام میں اپنے کارناموں کا ذکر کرنا مناسب سمجھا۔ اس انٹرویو میں متعدد ایسی باتیں کہی گئی ہیں جو اگر جان بوجھ کر غلط بیانی کی کوشش نہیں تو سیاسی، سفارتی اور معاشی معاملات سے صریح لاعلمی کا پرتو ضرور ہیں۔
ملک کے خاص و عام کو یہ باتیں ازبر ہیں کہ : ’عمران خان کبھی ہار نہیں مانتے، انہوں نے ساری زندگی جد و جہد کی ہے اور اب وہ ملک کو مدینہ ریاست کی طرح فلاحی مملکت بنانے کے راستے پر ڈال چکے ہیں‘۔ انٹرویو میں ایک بار پھر وزیر اعظم نے اپنی حکومت کی معاشی کامیابیوں کی سب سے اہم دلیل کے طور پر بجٹ خسارہ میں کمی کو پیش کیا ہے۔ کسی معیشت کو ماپنے کا یہ صرف ایک اشاریہ ہے۔ اسے بھی اسی وقت ایک کامیاب اور قابل قبول معیار مانا جائے گا اگر حکومت دیگر معاشی شعبوں میں ایسی کارکردگی دکھا چکی ہو جس سے پیدا واری صلاحیت میں اضافہ اور قومی معیشت میں استحکام کے آثار نمایاں ہوں۔ تحریک انصاف کی حکومت میں بجٹ خسارہ کی کمی کے دعوے کو بیرون ملک سے لئے گئے قرضوں، سرمایہ کاری کی صورت حال، ترقیاتی پروگرام اور عوامی بہبود کے بنیادی منصوبوں میں سرمایہ کاری کی روشنی میں ہی جانچا جائے گا۔ مدینہ ریاست جیسی فلاحی ریاست کے نام پر عمران خان کا کل ’ویژن‘ احساس پروگرام کے نام سے چند خیراتی پروگرام شروع کرنے یا نوجوانوں کے لئے قرضوں کی آزمودہ اسکیمیں نئے نام سے جاری کرنے تک محدود ہے ۔
جدید فلاحی ریاست خیرات تقسیم کرنے اور لنگر چلانے کی بنیاد پر کام نہیں کرتی بلکہ اس میں عوام کو روزگار کے مواقع فراہم کئے جاتے ہیں، تعلیم پر سرمایہ کاری کی جاتی ہے، عوامی صحت کے منصوبے ترجیح پاتے ہیں اور بنیادی سہولتوں تک رسائی ممکن بنائی جاتی ہے۔ جدید فلاحی ریاست ضد، مقابلے بازی، انتقام، جبر اور آزادی رائے کو مسدود کرکے پروان نہیں چڑھتی۔ ایسی کسی بھی ریاست میں اختلاف کو صحت مند رویہ سمجھا جاتا ہے اور تنقید سے اصلاح کا درس لیا جاتا ہے۔ جس طرح فلاحی ریاست خیرات بانٹنے کا نام نہیں ہے، اسی طرح ملکی معیشت کی اصلاح یا کامیابی کا واحد پیمانہ قومی بجٹ میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق دکھایا جانے والا اور سیاسی بیان کے طور پر پیش کیا جانے والا ’بجٹ خسارہ میں کمی‘ کا نعرہ بھی نہیں ہوتا بلکہ اس کا اہم ترین اشاریہ یہ ہوتاہے کہ کیا ملک میں قیمتیں مستحکم ہیں، کیا لوگوں کو روزگار کا تحفظ حاصل ہے اور کیا ملک میں نوجوانوں کے لئے کام کے مواقع پیدا کئے جارہے ہیں؟ اگر ان تینوں سوالوں کا جواب نفی میں ہو تو یقین کیاجانا چاہئے کہ ایسی معیشت صحت مند نہیں ہے۔
عمران خان نے اس انٹرویو میں اشرافیہ اور مافیاز کو ملک میں مہنگائی اور سیاسی عدم استحکام کا بنیادی سبب قرار دیا ہے۔ اور اعلان کیا ہے کہ اب انہوں نے اپنی زندگی مافیاز کے خاتمہ کے لئے وقف کردی ہے۔ حکومت میں دو سال گزارنے کے بعد جب کسی لیڈر کے پاس کارکردگی کے نام پر کچھ دکھانے کے لئے نہیں ہوتا تو وہ نئے نعرے ایجاد کرتا ہے۔ اب نواز شریف اور آصف زرداری کو گالی دے کر عمران خان کی سیاست چمکنے کا امکان ختم ہوچکا ہے اس لئے مخالف کے طور پر مافیا کا ایک نیا نعرہ ایجاد کیا گیا ہے۔ دیانت داری کا دعویٰ کرنے والے وزیر اعظم پر لازم تھا کہ وہ یہ بھی بتاتے کہ وہ کسے مافیا کہہ رہے ہیں؟ اگر ان کا اشارہ چینی بنانے والے کارخانہ داروں کی طرف ہے تو وہ اب بھی ان کے ساتھی ہیں اور جہانگیر ترین کے بارے میں وہ اسی انٹرویو میں کہہ چکے ہیں کہ وہ تو ایک ’اچھے تاجر‘ ہیں۔ اسی لئے ان کی نظر میں مافیا صرف وہ تجارتی کمپنیاں رہ جاتی ہیں جن کا کسی نہ کسی طرح تعلق شریف خاندان یا آصف زرداری کے ساتھ جوڑا جاسکے۔ ایسی ہی صورت حال کے بارے میں ’نئی بوتل میں پرانی شراب‘ کامحاورہ مشہور ہے۔ عمران خان اپنی تمام تر ناکامیوں کی ذمہ داری ماضی کی حکومتوں اور لیڈروں پر ڈالنا چاہتے ہیں لیکن اب عوام کی تشفی کے لئے الفاظ کے ہیر پھیر سے اپنی بات میں وزن پیدا کررہے ہیں۔
تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ اس نے ملک میں شوگر مافیا کی کمر توڑ دی ہے۔ اس کامیابی کا واضح نمونہ تو یہ ہونا چاہئے تھا کہ مارکیٹ میں شکر پہلے سے بھی سستی دستیاب ہوتی۔ جب شوگر مافیا کے ہتھکنڈوں، دھمکیوں اور ان کی روک تھام کے لئے اپنی حکومت کی کامیابیوں کا قصہ سنانے کے بعد وزیر اعظم کو اعتراف کرنا پڑے کہ چینی تو سستی نہیں ہوسکی تو اس ناکامی کا ذمہ دار کون قرار پائے گا ؟ یا پھر اگر مافیاز اور اشرافیہ ہی ملک میں مشکلات پیدا کرنے اور تحریک انصاف کی انقلابی حکومت کے لئے مسائل کھڑے کرنے کا سبب بنے ہیں تو دو سال حکومت کرنے کے دوران وزیراعظم اور ان کی ٹیم نے کون سی برائیوں کو ختم کیا ہے۔ اگر آج بھی لوگوں کو انجانی برائیوں سے ڈرا کر ہی تحسین حاصل کرنی ہے تو حکومتی کارکردگی کس چڑیا کا نام ہوتا ہے؟ وزیر اعظم اعتراف کرتے ہیں کہ ملک میں مافیا طاقت ور ہیں ۔ کیا مرکز کے علاوہ تین صوبوں پر حکومت کرنے والی پارٹی کے سربراہ اور ملک کے وزیر اعظم کو اس کا جواب نہیں دینا چاہئے کہ ایک نیک ، دیانت دار اور انصاف پسند حکومت کے ہوتے یہ گروہ کیسے طاقت ور ہیں۔ اور اگر ان کی حکومتیں ان عناصر پر قابو نہیں پاسکیں تو اسے کس کی ناکامی کہا جائے؟ کیا یہ مبنی بر انصاف بیان ہے کہ ان کی حکومت تو چینی کی زخیرہ اندوزی کو ختم کرچکی تھی لیکن سندھ میں چونکہ پیپلز پارٹی کی حکومت ہے لہذا وہاں چینی اسٹاک کی جاتی ہے۔
وزیر اعظم کو سب کے لئے انصاف عام کرنا ہے۔ وہ اشرافیہ کے ہتھکنڈوں سے عاجز آئے ہوئے ہیں لیکن ہار نہیں مانیں گے ۔ احتساب بیورو جب اپوزیشن کے بدعنوان لیڈروں کو پکڑتا ہے تو وہ ’این آر او ‘ لینے اور احتساب قانون کو تبدیل کروانے کے لئے دباؤ ڈالتے ہیں۔ عمران خان حقیقی قوم پرست اور عوام دوست ہونے کی وجہ سے ایسا دباؤ قبول نہیں کرتے۔ یہ سب برحق لیکن جب وزیر اعظم کا چہیتا ادارہ نیب ، ان کے دوسرے چہیتے ، وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے خلاف اقدام کرتا ہے اور انہیں پوچھ گچھ کے لئے طلب کیا جاتا ہے تو وزیر اعظم اپنی ماتحت ایجنسیوں سے تمام ’حقائق‘ معلوم کرکے اپنے وسیم اکرم پلس کو معصوم اور بے گناہ قرار دیتے ہیں۔ کیا وزیر اعظم بتانا پسند کریں گے کہ اگر نیب خود مختار اور انصاف پسند ادارہ ہے تو عثمان بزدار کے معاملہ میں اس کی دیانت و لیاقت پر اعتبار کیوں نہیں ہے؟ اور یہ بھی کہ کیا کسی وزیر اعظم کو زیب دیتا ہے کہ وہ آئینی لحاظ سے خود مختار ایک ادارے کے زیر تفتیش معاملہ پر اظہار رائے کریں اور جو شخص قانونی اصطلاح میں ‘مشتبہ ‘ ہے، اسے وہ ایک ٹی وی ٹاک شو میں بے گناہ قرار دیں؟ کیا یہ عمل انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق اور ملک میں اداروں کو مستحکم کرنے کی پالیسی سے مطابقت رکھتا ہے؟
ایسی ہی کوئی شکایت اگر کسی سابق وزیر، وزیر اعلیٰ، وزیر اعظم یا صدر کے خلاف ہوتی تو نیب شاید اس کی گرفتاری کے لئے اقدام کرچکا ہوتا۔ اگر ایسا کوئی شخص کسی ایسے میڈیا گروپ کا مالک و مدیر ہوتا جس سے حکومت وقت نالاں ہو تو اسے میر شکیل الرحمان کی طرح عبرت کا نشان بنایا جاچکا ہوتا ۔ لیکن معاملہ چونکہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ اور عمران خان کے سایہ عاطفت میں رہنے والے عثمان بزدار کا ہے، اس لئے نیب کا اقدام ناانصافی اور ناجائز قرار پاتا ہے۔ کیا ملک کے وزیر اعظم کو اپنے قول و فعل کا تضاد دکھائی دیتا ہے یا وہ آئینہ دیکھے کی صلاحیت سے قطعی طور سے محروم ہوچکے ہیں۔
یہ اصول طے کرنے کی ضرورت ہے کہ عثمان بزدار ہو یا شہباز شریف، آصف زرادری ہوں یا کوئی دوسرا سیاست دان، نیب جیسے ادارے کو اپنی پبلک ریلیشننگ کے لئے ان کا نام استعمال کرنے کی اجازت نہ دی جائے۔ ملک میں احتساب کے موجودہ قانون اور اس کے تحت قائم احتساب بیورو نے اپنے فعل و قول سے یہ ثابت کیا ہے کہ اس قانون اور ادارے کو سیاسی انتقام کے لئے استعمال کیاجاتا ہے۔ جسٹس (ر) جاوید اقبال کے چئیرمین نیب بننے کے بعد سے اس ادارے کو باقاعدہ سیاسی پروپیگنڈا ، چند افراد کی کردار کشی اور بعض دوسرے لوگوں کی امیج بلڈنگ کے لئے بھی استعمال کیاجاتا رہا ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے اور ججوں کے تبصرے اس سلسلہ میں واضح تصویر پیش کرتے ہیں۔ عمران خان کا یہ مؤقف گمراہ کن ہے کہ اپوزیشن ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے قانون سازی کے لئے نیب قانون میں ایسی ترمیم چاہتی تھی جس سے اس کے لیڈر بچ جائیں۔ اپوزیشن نے ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے متعدد قوانین منظور کرنے میں حکومت سے تعاون کیا ہے لیکن حکومت نے نیب ترمیمی قانون کو مسلسل اپوزیشن کی کردار کشی کے لئے استعمال کیا ہے۔ حالانکہ حکومت کو یہ ترامیم سپریم کورٹ کے اعتراضات دور کرنے کے لئے کرنا چاہئیں۔
جب ایسی صاف تصویر کو اپوزیشن کی بدکرداری کے طور پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی تو کیا یہ ملک کے ’صاف شفاف ‘ وزیر اعظم کی دروغ گوئی نہیں ہے؟ کیا وجہ ہے کہ وزیر اعظم اس سطح پر اتر کر غلط بیانی پر مجبور ہوچکے ہیں۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ