عہد حاضر کے ابھرتے ہوئے مؤ رخ اخلاق قادری روزانہ کی بنیاد پر سوشل میڈیا پر تاریخی واقعات شیئر کرتے رہتے ہیں۔17اگست کو انہوں نے نوبل انعام یافتہ ناول نگار جارج آرویل کے ناول animal farmکا ذکرکیا تو نامور صحافی وارث میر یاد آئے۔جنہوں نے ضیاء دور میں اس ناول کا حوالہ دیتے ہوئے اس کے کرداروں کی تطبیق آمر کی کابینہ پر کرتے ہوئے کالم لکھا تھا۔
مذکورہ علامتی ناول میں کیمیونزم کو نشانہ تنقید بناتے ہوئے اس کے نظریاتی وارثوں کا تجزیہ کرنے کے ساتھ ساتھ روس کی صورت حال اور بورژوا سماج میں روارکھے جانے والے جبر کو موضوع بنایا گیا تھا۔
وارث میر نے ضیاء آمریت کے پس منظر میں یہ دکھانے کی کوشش کی کہ کس طرح پاکستانی معاشرے میں ایک ایسے جبرکو روا رکھا جارہا ہے جو سچ کا گلا دبانے پر ہی موقوف نہیں بلکہ جس نے جمہوری قوتوں کا ناطقہ بند کردیا ہے،اظہار رائے کی
آزادی سلب کی جارہی ہے اور سیاسی عمل پر بے جا قدغن لگا دی گئی ہے،سنسر شپ کے ذریعے اخبار ورسائل پر فوجی پہرے لگا دیئے گئے ہیں تاکہ سیاہ دور کی کوئی خبر باہر نہ نکلنے پائے۔سیاسی کارکنوں کو قیدوبند کی صعوبتوں سے دوچار کرنے کے علاوہ ٹک ٹکیوں پر چڑھا کر کوڑے مارے جارہے ہیں۔ہر سوجنگل کا قانون ہے جس کے خلاف مزاحمت
کرنے والی ہر آوزکو دبایا جا رہا ہے۔
ردعمل کرنے والے کئی صحافیوں نے ریاستی جبر کے خلاف مزا حمت کا مظاہرہ کیا،جن میں وارث میر سر فہرست تھے جنہیں خود ہی ان کے خاندان بھی کو دشوار صورتحال کا سامنا پڑا،ان کی موت کے بارے میں بھی اس شک کا اظہار کیا گیا کہ انہیں زہر دیا گیا۔یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ جارج آرویل کو 17اگست 1945ء میں نوبل پرائز ملا جبکہ 17اگست کو ہی ضیاء الحق ایک ہوائی حادثے میں لقمہ اجل بنا۔جارج آرویل کے ناول کے کرداروں کی مماثلت کا مارشل لاء دور کے وزیروں مشیروں پایاجانا بھی ایک اتفاق ہی تھا۔جسے صحافی وارث میر نے محسوس کیا اور اس اخبار کی بھی رندانہ جرأت تھی جس نے وہ کالم چھاپ دیا۔
آج اگر وارث میر زندہ ہوتے تو ان کا اتنا کھرا اور کڑوا سچ شاید وہ اخبار بھی شائع نہ کرتا جس کا چیف ایڈیٹر پچھلے کچھ عرصے سے پابند سلاسل ہے اور کوئی احتجاج ان کو بچانے میں تا حال کامیاب نہیں ہوا۔
جارج آرویل کے ناول animal farmکو موجودہ نام نہاد جمہوری اشرافیہ پر منطبق کیا جائے توعین مثل حقیقت ہوگاکہ ان دنوں ہرسوسیاسی اور غیر سیاسی قوتوں کی جس کشمکش میں پاکستان گھرا ہے وہ کسی اینیمل فارم سے کم نہیں،کون ہے جو طاقت کا منبع بننے کی کوشش میں نہیں۔؟دست و گریبانی کی داستانیں عام ہیں،ہر ایک دوسرے کو کھاجانے والی نظروں سے دیکھ رہا ہے۔ایوان اقتدار میں انسانی رویوں کا فقدان بھی ڈھکا چھپا نہیں۔کہیں وفاق صوبے کے ساتھ پنجہ آزما ہے تو کہیں اپنے اختیارات کی جنگ میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے چکر میں۔جن مقاصد کے لئے لوگوں سے
ووٹ مانگے گئے تھے وہ مقاصد پس پشت ڈال دیئے گئے ہیں،کہیں صوبوں کی حکومت کے خاتمے کا چرچا ہے توکوئی وفاقی حکومت کے تحلیل ہونے کے واضح اشارے دے رہاہے۔سیاسی استحکام تو کجا،سیاسی ہم آہنگی بھی عنقا ہے۔
جنگل میں شیر کے بادشاہ ہونے پر تو دو آرا نہیں ہوتیں ِبھلے اور جانور ایک دوسرے کے خلاف اپنے حقوق کے لئے جسقدر بھی نبرد آزما ہوں۔یہاں تو شیر کو شیر کوئی نہیں مانتا باقیوں کا تو قصہ ہی کچھ اور ہے۔
بہر حال موضوع کے اعتبار سے animal farmآج بھی اپنے اندر معروضی تازگی رکھتا ہے،جسے شک ہو ناول پڑھ کر خود ہی تسلی کر لے کہ ہم کس حال میں جی رہے ہیں۔محترمہ خالدہ نسیم کے دو شعر یاد آرہے ہیں۔
مجبوریئ حالات میں کھلتی ہے زباں بھی
سلگی ہے اگر آ گ تو نکلے گا دھواں بھی
جینا تو ہے حالات کے زنداں میں بڑی بات
دنیا نے کبھی دی ہے سسکنے کی اماں بھی
فیس بک کمینٹ