ہم کتابیں لکھ رہے ہیں اور اس بات پر خوش ہورہے ہیں کہ ہماری قوم میں کتب بینی کا رجحان بڑھ رہا ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ یہ کتابیں کہیں ان عامیانہ ناولوں کی طرح تو نہیں جو نکمے اور کام چور طالب علم امتحان سے ایک رات پہلے درسی کتابوں کے نیچے چھپا کر پڑھتے ہیں اور ماں باپ دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے رہتے ہیں کہ بچہ بہت محنت کر رہا ہے۔کوئی کتاب پاکستان کے انتہائی حساس رازوں سے پردہ اٹھا رہی ہے تو کوئی کتاب بیڈ روم سٹوریز کو پبلک کر رہی ہے۔ ہم تو ایک ایسی کتاب کا تذکرہ بھی سن رہے ہیں جو شائع ہوئے بغیر ہی گھر گھر پہنچ چکی ہے، اور حد تو یہ ہے کہ مبینہ مصنف، ممکنہ پبلشر اور امکانی پرنٹر تک کتاب کی ہیت، نوعیت اور معاملات طباعت تک سے نا آشنا ہیں لیکن قارئین کی بے تابی دیکھیے کہ وہ پڑھنے کے لیے نہ لفظوں کے محتاج ہیں نہ آنکھوں کے۔ بالکل ویسے ہی جیسے ڈائس پر کھڑا مقرر اس بات سے مکمل طور پر نا آشنا ہوتا ہے کہ کون اس پر جوتا اچھالنے والا ہے اور کس کی جیب میں گندے انڈوں اور پھسے ہوئے ٹماٹروں کا پورا کریٹ چھپا ہوا ہے۔یقین کیجیے آزادیءعمل اور آزادی ءاظہار کی یہ صورت انتہائی جدید ترقی یافتہ معاشروں میں بھی نظر نہیں آتی۔کاش ہم اپنے رویوں پر نظر ثانی کر سکیں، کاش ہمارا کوئی بڑا ہمیں یہ سمجھا سکے کہ اپنی ان حرکتوں کی بنیاد پر ہم مزید پستیوں کا شکار ہو جائیں گے۔قابل افسوس بات یہ بھی ہے کہ ہماری حماقتوں اور نادانیوں کو اشتہار بنا کر دنیا بھر میں آویزاں کیا جارہا ہے جس سے پہنچنے والے نقصان کا ہم میں سے اکثر کو اندازہ ہی نہیں۔مختصر یہ کہ اقوام عالم خود کو زندہ رکھنے کی کوشش میں مصروف ہیں جبکہ ہم قومی خودکشی کے نئے نئے راستے تلاش کر رہے ہیں۔کبھی بین الاقوامی اخبارات کا مطالعہ کیجئے، کبھی فلمیں ڈرامے اور بندر بانٹ والے ٹی وی شوز چھوڑ کر سی این این فوکس نیوز اور بی بی سی جیسے چینلز کے پروگرام دیکھنے کے لیے تھوڑا سا وقت نکالیے، آپ کو معلوم ہوگا، ہمارا ہر جگہ تماشہ بن رہا ہے۔معلوم نہیں ہمیں یہ بات کس نے سمجھا دی ہے کہ سی پیک منصوبہ ہمارے تمام مسائل کا حل ہے، یہ کیوں کہا جارہا ہے کہ سی پیک کی تکمیل کے بعد ہمیں بجلی پانی ایندھن روزگار جیسے کسی بھی مسئلے کا سامنا نہیں رہے گا۔یاد رکھیے، سی پیک منصوبہ پاکستان کی اقتصادی تاریخ کو نہایت مثبت انداز میں بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ امر ہے کہ وہ بڑے بڑے بنگلے بھی قبرستان بن جاتے ہیں جہاں بھائی بھائی کی جان کا دشمن ہو اور جہاں بہنیں، بہنوں کے خلاف الزام تراشی کے لیے پریس کانفرنسوں کا سہارا لینے پر مجبور ہوجائیں۔اگر ہم معمولی معمولی سیاسی اور نظریاتی اختلافات کو بنیاد بنا کر ایک دوسرے کے کپڑے اتارنے میں لگے رہے تو سی پیک جیسے ایک ہزار منصوبے بھی ہمیں کچھ نہیں دے سکیں گے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ چینیوں کو اس منصوبے کی تکمیل کے بعد سونے کی ایک ایسی کان ہاتھ آجائے گی جس کی گہرائی اور لمبائی کا اندازہ لگانے کے لیے کوئی پیمانہ ہی نہیں ہوگا۔ پھر یہ بات بھی ہے کہ ہمارے ’بڑے بھائی‘ بھارت کی سفارتی اور سیا سی چابکدستی بلکہ سمجھداری بہت آسانی کے ساتھ ہمیں اس کھیل میں فتح مند نہیں ہونے دے گی۔ ہمیں نہایت سچائی اور قوت کے ساتھ اس سی پیک منصوبے سے حاصل ہونے والے فوائد بلکہ اپنے قومی مفادات کی حفاظت کرنا ہوگی۔ویسے بھی یہ ہندو بنئیے کا مزاج ہوتاہے کہ مفاد کی خا طر سب کچھ بھول جاﺅ، دشمن کو دوست بنالو، اور کام نکل جائے تو پھر سب کچھ پہلے جیسا۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم سے اس طرح کی قومی منافقت نہیں ہوتی۔ہم مردہ باد کے نعرے کو زندہ باد میں تبدیل نہیں کرتے۔بھارت اور چین ماضی میں کئی بار محاذ جنگ پر ایک دوسرے سے نبرد آزما ہوچکے ہیں۔ ان محاذوں میں سب سے بڑا 1962 میں ایک ماہ سے زائد عرصے جاری رہنے والی جنگ کی صورت سامنے آیا۔کوہ ہمالیہ میں دونوں مما لک کے مابین 3,225 کلومیڑ طویل سرحدی حدود کا تعین اس جنگ کی بنیاد بنا۔بھارت کو شدید ترین جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا۔ بھارت نے مجبور ہوکر امریکہ سے فضائی امداد کی درخواست بھی کی لیکن اس امداد کا فوری جواب ملنے کی بجائے سناٹا رہا۔بالآخر۔20 اکتوبر 1962 سے 20 نومبر 1962 تک جاری رہنے والی اس جنگ کا اختتام چین کی طرف سے یک طرفہ اعلان جنگ بندی پر ہوا۔ اس جنگ سے پہلے ’ھندی چینی بھائی بھائی‘ کا نعرہ بے پناہ مقبول تھا لیکن جنگ کے بعد ’ پاک چین دوستی زندہ باد‘ کے نعرے نے اس کی جگہ لے لی۔ اک ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے۔ کل کے دوست آج کے دشمن بن گئے،جنگ بندی کے بعد بھی آج تک چین اور بھارت کے درمیان وقتا فوقتا جنگی جھڑپیں ہوتی رہتی ہیں۔لیکن اس سب کے باوجود بھارت اپنی روایتی منافقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے چین کے ساتھ بغل میں چھری منہ میں رام رام کا اصول اپنائے ہوئے ہے۔
بالی وڈ کے کارپردازان نے چینی فلم سازوں کے ساتھ مل کر ’ ہندی چینی بھائی بھائی‘ کے نام سے جو فیچر فلم بنائی وہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔2017 کے آخر میں منظر عام پر آنے والی اس فلم کو ہندی اور چینی دونوں زبانوں میں ڈب کیا گیا ہے۔ بھارتی میڈیا نے بھی اس فلم کو مقبول عام کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ اس سے پہلے ’کنگ فو یوگا‘ کے نام سے بھی ایسی ہی ایک فلم بنائی گئی تھی جس کی تکمیل کے بعد معروف کنگ فو سٹار جیکی چن نے بھارت کا ایک نہایت بھرپور دورہ بھی کیا تھا۔ بھارت کی طرف سے چینی سیاحوں کے لیے انتہائی ارزاں نرخوں پر خصوصی پیکج بھی جاری کیے گئے ہیں۔ مختصر یہ کہ بھارت اپنے پرانے دشمن چین کو ہر حال میں اس بات پر قائل کرنے کی کوشش میں ہے کہ رات گئی بات گئی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم بطور قوم سی پیک منصوبے پر بغلیں بجانے کے علاوہ اور کیا کام کر رہے ہیں۔ہماری فلم انڈسٹری اور ہمارے ڈرامہ پروڈیوس کرنے والے پرائیویٹ ٹی وی چینلز ہجر و وصال کی ر وایتی کہانیوں کے جال سے باہر کیوں نہیں نکلتے۔اس حوالے سے کہیں بھی کوئی دوسری رائے نہیں کہ ہمارے گلوکار، اداکار، کہانی نویس اور فلم ڈائرکٹرز صلاحیتوں کے اعتبار سے بھارتی ہنر مندوں سے ہر لحاظ سے کہیں آگے ہیں۔ اگر وہ بھارتی اداکاروں، گلوکاروں سے بہتر نہ ہوتے تو بھارتی فلم انڈسٹری انہیں اپنی فلموں میں کاسٹ کرنے کی کوشش کبھی نہ کرتی۔بلکہ میں تو یہ بھی کہوں گا کہ پاکستانی گلوکاروں، اداکاروں حتی کہ تکنیک کاروں پر بھی حال ہی میں بھارت میں کام کرنے پر جو بین عائد کیا گیا ہے وہ بذات خود اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستانی فنکار بھارتی فنکاروں کی مارکیٹ ڈاﺅن کرنے کا سبب بن رہے تھے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بھی صرف اس بات پر خوشی کے شادیانے بجانے کی بجائے کہ ہمارے ہاں سی پیک بن رہا ہے،کوشش کریں کہ سفارتی اور ثقافتی سطح پر چین کے ساتھ ہمارے مراسم اتنے بہتر ہوجائیں کہ چین کو بھارت کی طرف قدم بڑھانے کی سپیس ہی نہ ملے۔ چین میں ہمارے سفارت خانے اور پاکستان کی منسٹری آف کلچر کو اس حوالے سے مزید متحرک ہونے کی ضرورت ہے۔ میں نے ابتدا میں ہندی چینی بھائی بھائی نعرے کا ذکر کیا ہے، 1962کی چین بھارت جنگ کے بعد یہ نعرہ چین کی طرف سے پاک چین دوستی زندہ باد کے نعرے میں بدل گیا، یاد رکھیے، نعرے بدلتے رہتے ہیں اور نعرے لگانے والے بھی۔ذرا سا مڑ کر دیکھیے!!!بہت سے نعرے آپ کو منہ چڑاتے دکھائی دیں گے۔۔۔۔۔باقی نام اللہ کا۔۔۔۔
فیس بک کمینٹ