عید سے قبل پیاسے چولستان نے تین معصوم بچیوں کا خون پی لیا۔ المناک واقعہ کی تفصیل اس طرح ہے کہ 12 جون 2018ء کو چولستان کے گاؤ ں 466ایچ آر ٹوبہ شہر والا تحصیل فورٹ عباس کی دو سگی بہنیں اور ایک رشتہ دار بچی دو کلو میٹر دور اپنے خالو نصیر احمد کے گھر جا رہی تھیں کہ راستہ بھٹک گئیں، یہ بچیاں دن رات سفر کرتی رہیں، کہیں سے نہ پانی ملا نہ مدد ، آخر پیاس سے بلک بلک کر دم توڑ گئیں اور 95 کلومیٹر کی رفتار سے آنے والے آندھی کے طوفان نے بچیوں کو ریت کا کفن پہنا دیا۔ بتایا جاتا ہے کہ لواحقین نے پہلے دن اپنے طور پر بچیوں کو تلاش کیا اور دوسرے دن انتظامیہ کو اطلاع دینے کے ساتھ خود بھی بچیوں کو ڈھونڈتے رہے، مگر کامیابی نہ ہوئی، وسیب کی طرف سے ریسکیو کے عمل میں سینکڑوں موٹر سائیکل و گاڑیاں استعمال ہوئیں، مقامی کھوجیوں کی مدد بھی حاصل کی گئی، کربناک تلاش بسیار کے بعد 15 جون کو بچیوں کی میتیں ملیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انتظامیہ نے ریسکیو کا عمل دیر سے شروع کیا اگر بروقت ہوتا تو بچیوں کی جان بچ سکتی تھی لیکن جیسا کہ حقائق چھپانا حکومت کی پرانی عادت ہے اس المناک واقعہ پر بھی حقائق اس طرح مسخ کئے گئے کہ ڈی سی او بہاولنگر اپنی پریس ریلیز میں کہتے ہیں کہ ریسکیو آپریشن 15 جون کو شروع کیا گیا جبکہ آر پی او بہاولپور کا کہنا ہے کہ ریسکیو آپریشن 13 جون کو شروع ہوا اس تضاد سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حقائق کس طرح چھپائے جاتے ہیں اور صدمے سے نڈھال لواحقین کے زخموں پر مرہم کی بجائے نمک پاشی کس طرح ہوتی ہے۔ بچیوں کی شہادت کے واقعے کی تفصیل جاننے کیلئے فورٹ عباس کے سینئر صحافیوں چودھری خالد مسعود بزمی اور غریب اللہ غازی سے میں نے رابطہ کیا تو اشکبار آنکھوں کے ساتھ وہ بتا رہے تھے کہ بچیوں کی ایک دوسرے سے محبت اور بے چارگی کا یہ عالم تھا کہ بچیاں دو دن یا تین دن تک بھٹکتی رہیں لیکن انہوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ نہیں چھوڑا اور جب ان بچیوں کی لاشیں ملیں تو یہ دیکھ کر لوگ دنگ رہ گئے کہ موت کے بعد بھی تینوں نے ایک دوسرے کے ہاتھ مضبوطی کے ساتھ تھامے ہوئے تھے۔ اس منظر نے سب کو رلا دیا اور کوئی ایسی آنکھ نہ تھی جو اشکبار نہ ہو۔ میں نے صوبائی حکومت کی طرف سے رد عمل اور امداد کے بارے میں پوچھا تو کہا کہ امداد کے نام پر مذاق کیا گیا اور واقعے کا ایکشن تو کجا وزیر اعلیٰ کی طرف سے تعزیت بھی نہیں کی گئی۔ انہوں نے بتایا کہ اس واقعہ کی بہت ہی دردناک کہانی ہے ان کا کہنا ہے کہ حکومت رنگین میوزیکل فواروں پر کروڑوں روپے خرچ کر سکتی ہے تو یہاں پانی کا انتظام کیوں نہیں ہو سکتا؟ میں نے ڈپٹی ڈائریکٹر تعلقات عامہ بہاولنگر طارق اسماعیل سے بات کی اور سوال کیا کہ کیا حکومت کی طرف سے 70 ہزار کی امداد مذاق نہیں؟ تو انہوں نے بتایا کہ ڈسٹرکٹ گورنمنٹ نے صوبائی حکومت کو امداد کیلئے لکھا ہے۔ میرا اتنا سوال ہے کہ نگران کس بات کی نگرانی کر رہے ہیں؟ اتنے بڑے واقعہ پر نگران حکومت کے کسی ذمہ دار کے تعزیت نہ کرنے کا مطلب تو یہ ہے کہ اس خطے کو اپنا نہیں سمجھتے۔ اس کے ساتھ میں اپنے شعبے میڈیا کے بارے میں بھی کہوں گا کہ اُس نے بھی اپنا کردار صحیح معنوں میں ادا نہیں کیا۔ دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ لاہور کراچی میں ہونیوالے چھوٹے سے چھوٹے واقعے کو بھی میڈیا کور کرتا ہے اور تین بچیوں کی موت جیسے ہر واقعہ کی نہ صرف لائیو کوریج ہوتی ہے بلکہ میڈیامیں گھنٹوں اس پر گفتگو ہوتی ہے، لیکن چونکہ یہ واقعہ لاہور، کراچی کا نہیں اس لئے میڈیا پر سکوت طاری ہے۔ سندھ کے صحرا تھر کے واقعات پر بھی میڈیا بہت چیختا چلاتا ہے لیکن چولستان کے واقعات پر خاموشی افسوسناک ہے۔ ان حالات کو دیکھ کر وسیب کے لوگ ایک دوسرے سے سوال کرتے ہیں کہ کیا یہ خطہ پاکستان کا حصہ نہیں؟ پانی کا نام زندگی اور زندگی کا نام پانی ہے، دریا ہندوستان کو دیکر ظلم کیا گیا۔ ہندوستان سے پانی حاصل کر کے ستلج تہذیب کو نہ بچایا گیا تو بہاولنگر ، وہاڑی اور بہاولپور کے بیشتر علاقے صحرا میں تبدیل ہو جائیں گے اور چولستان کے بعد ایک نیا چولستان ہنستی بستی آبادیوں کیلئے موت کا پیغام لے کر آئے گا۔ قدرت کے اجزاء ناقابل فروخت ہوتے ہیں ، اسی طرح ہوا، روشنی ، دریا اور پانی فروخت نہیں کئے جا سکتے ۔ اس حوالے سے پاکستانی دریاؤں کا سودا نظام قدرت کے خلاف بغاوت ہے۔ ہندوستان سے مذاکرات کرکے زیادہ نہیں تو اتنا تو پانی حاصل کر لیا جائے کہ علاقے کی تہذیب اور آبی حیات زندہ رہ سکے۔ قیام پاکستان کے بعد ستلج تہذیب اور بہاولنگر کا بہت زیادہ نقصان ہوا ۔ دریائے ستلج بیچ دیا گیا ‘ سمہ سٹہ تا دہلی با راستہ امروکہ بٹھنڈہ ریلوے ٹریک بند ہونے سے تجارت تباہ ہو گئی ۔ اس علاقے میں انڈسٹری بھی قائم نہیں ہو سکی اور ستلج کی بندش کے بعد زیر زمین پانی کا لیول بہت نیچے چلا گیا ، پانی کڑوا ہو گیااور لہلہاتے کھیت ویرانی میں تبدیل ہو گئے ۔ ضلع بہاولنگر 3428 مربع رقبے کا طویل ضلع ہے ‘ جو کہ پانچ تحصیلوں پر مشتمل ہے ،اس علاقے میں اب تک دو تین نئے اضلاع بن جانے چاہئیں ۔مگر اس طرف کوئی توجہ نہیں دے رہا ۔ چولستان میں یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں اس طرح کے واقعات مسلسل ہوتے آرہے ہیں مگر حکومت کی اس طرف توجہ نہیں ہے۔ پاکستان کے چولستان سے دوسری طرف ہندوستان کا راجستھان ہے جو کہ رقبہ اور آبادی میں چولستان سے بڑھ کر ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہاں اس طرح کے واقعات کیوں نہیں ہوتے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں کے حکمران پیاس کے مسئلے پر خاموش تماشائی کا کردار ادا نہیں کرتے ہم سیاسی اور فوجی حکومتوں کو دوش دیتے آرہے ہیں مگر اس مسئلے پر نگران حکومت کی بے حسی ان سے بھی بڑھ کر ہے۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ نگران حکومت نے وفاقی اور صوبائی سطح پر وسیب کو مکمل طور پر نظر انداز کیا ہے، اس علاقے سے کسی بھی شخص کو کوئی چھوٹی سی وزارت بھی نہیں دی ۔ آج اگر کابینہ میں کوئی وزیر ہوتا تو شاید وہ کچھ اور نہیں تو تعزیتی بیان تو جاری کرتا مگر حکمرانوں نے اس علاقے کو دیوار سے لگا دیا ہے۔ گزشتہ شب ہمارے گاؤ ں دھریجہ نگر میں تیرھویں سالانہ سرائیکی کانفرنس تھی اس موقع پر اس واقعہ کا خصوصی طور پر ذکر ہوا اور تین بچیوں کی شہادت پر حکومتی بے حسی کی مذمت کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ پنجاب کے استعفیٰ کا مطالبہ کیا ہے۔ اس موقع پر یہ بھی کہا گیا کہ جب تک الگ صوبہ نہیں بنے گا وسیب کے مسئلے حل نہیں ہوں گے۔ وسیب کے مسائل پر قبل اس کے توجہ دی جائے کہ کوئی مریم ، بختاور یا بلاول پیاس و افلاس کے صحرا چولستان میں پیاس سے بلک بلک کر نہ مر جائے۔
( بشکریہ روزنامہ 92 نیوز )
فیس بک کمینٹ