بہر طور نہ میں اور میرے جاننے والے اور خاص طور پر میرے پڑھنے والے کبھی کبھی حتمی طور پر یہ فیصلہ کر سکے کہ میں ’’سونے کی چڑیا‘‘ ہوں یا ایک عدد’’پت پینڈو‘‘ کہ میری تحریروں میں بھی میری حیات عکس ہوتی ہے۔ اوائل جوانی اور وہ بھی پچاس کی دہائی میں انگلستان اور یورپ میں گزارے‘ واپس لوٹا تو اچھا خاصا کاٹھا انگریز یا براؤ ن صاحب ہو چکا تھا یہاں تک کہ دیسی خوراک ہضم نہ ہوتی تھی اور میری امی مجھے خوش کرنے کی خاطر لکڑیوں کے چولہے پر روٹی پکانے والے سیاہ توے پر ’’سٹیک‘‘ بنانے کی کوشش کیا کرتی تھیں اور میں ایک زرد ٹی شرٹ سرخ نیکر اور سفید اطالوی ہیٹ پہن کر مال روڈ کے فٹ پاتھ پر بھری دوپہر میں سیر کیا کرتا تھا۔ انگریزی محاورے کے بقول بھری دوپہر میں صرف انگریز اور آوارہ کتے ہی باہر نکلتے ہیں۔ بہرحال مغرب کا وہ رنگ ہولے ہولے اتر گیا اور مجھ پر دیسی رنگ ایسا چڑھا کہ پھر کبھی نہ اترا۔ ویسے اب بھی میں مغربی تہذیب اور مشرقی اقدار کا ایک مرکب ہوں یعنی بیک وقت سونے کی چڑیا بھی ہوں اور ایک پت پینڈو بھی۔ بیتھوون کے ’’مون لائٹ سناٹا‘‘ کو سن کر بھی وجد طاری ہو جاتا ہے اور بڑے غلام علی خان کی ’’یاد پیا کی آئے‘‘ بھی مجھے جھومنے پر مجبور کر دیتی ہے۔’’پیپر سٹیک‘‘ اور ’’بیف سٹراگوف ‘‘ بھی پسندیدہ ہیں اور پھر سب سے مرغوب تو میٹھی مکئی کی روٹی اور سرسوں کا ساگ ہے۔ ستو اور گڑ کا شربت ہے۔ بہرحال یہ جو میں مجموعہ اضداد ہو چکا ہوں اس کی باقاعدہ کہانی پھر کبھی سہی۔ لیکن ذرا دیکھئے کہ میں ’’لاہور آوارگی ‘‘لکھتا ۔۔۔۔ہوں اور ’’خس و خاشاک زمانے‘‘ میں پنجاب کے دیہات کی قدیم ثقافت اور رہن سہن کے اقدار کی تقریباً سو سالہ تاریخ بھی ناول کی صورت میں قلمبند کرتا ہوں۔ کی جانا میں کون اور بلھیا کی جانا میں کون۔ یہ جو میں آج اپنے سونے کی چڑیا اور پت پینڈو ہونے کے قصے کی تفصیل میں چلا گیا ہوں تو یہ پرسوں سویر ماڈل ٹاؤ ن پارک میں سیر کرتے جب کہ املتاس کے درختوں سے زرد رنگت کی چینی لالٹینیں لٹک رہی تھیں اور ان کے شگوفے زرد سے ہو گئے تھے ٹپ ٹپ گرتے تھے اور میں تنہا چلتا جاتا تھا اور میرے ساتھ میرے بچپن کا ایک گاؤ ں چلتا جاتا تھا۔ میں مکمل طور پر ایک پت پینڈو ہو چکا تھا اور گزر چکے وقتوں کے ایک گاؤ ں کی تصویریں آنکھوں کی سکرین پر چلتی جاتی تھیں جب یکدم مجھے ایک جھٹکا سا لگا۔ ماضی کی ان تصویروں میں ہر گاؤ ں میں ایک یا متعدد جوہڑ ہوا کرتے تھے جو کہ چھپڑ کہلاتے تھے۔ تو مجھے جھٹکا یہ لگا کہ آج کے جتنے گاؤ ں نظر سے گزرے ان میں چھپڑ معدوم ہو چکے تھے بھلا ایک چھپڑ کے بغیر پنجاب کا کوئی بھی گاؤ ں کیسے مکمل ہو سکتا ہے۔ گاؤ ں تو ہوتا ہی وہی تھا جو ایک چھپڑ کے آس پاس آباد ہو اگر چھپڑ نہیں تو وہ گاؤ ں نہیں ایک بے روح بستی ہے کوئی قصبہ یا شہر ہے۔ تو میرے چھپڑ ۔مجھے پت پینڈو کے گدلے جوہڑ اور پنجاب کی وہ جھیلیں جن پر موسم سرما میں مرغابیاں اترتی تھیں جن میں پورے گاؤ ں کی نالیوں کے سیاہ پانی اترتے تھے۔ جن کے کناروں پر بوٹی خود رو ہولے ہولے پانیوں پر ہلکورے لیتی تھی اور اس بوٹی میں سے کاسنی رنگ کے پھول ’’کمیاں‘‘ کھلتے تھے اور پنجابی کا وہ واحد بانکا شاعر شو کمار بٹالوی نے اپنی شاعری کے سب اشعار صرف اور صرف پنجاب کی رہتل سے کشید کئے دیگر بڑے پنجابی شاعروں کی مانند ایرانی گل و بلبل کے اشاروں پر انحصار نہ کیا۔ بلبل کو نہیں ایک شکرے کو اپنا یار بنایا اور اپنے محبوب کے روپ کو گلاب سے نہیں جوہڑ کی بوٹی پر کھلنے والے کاسنی پھولوں سے تشبیہ دی۔ روپ تیرے دیا کھلیاں کمیاں اور کون ہے جو پنجاب کی اس گوری کو نہیں جانتا جس کے بارے میں وہ بولی زبان زدعام ہوئی کہ۔ گوری نہا کے چھپڑ چوں نکلی تے سلفے دی لاٹ ورگی ایسے ہی چھپڑسے میں نے مچھلی پکڑی، گھر لایا اور نانی جان سے کہا:اس مچھلی کو توے پر بھون دیجیے۔ ’’نانی جان نے دوپٹہ ناک پر چڑھا کر اسے بھونا کہ وہ ایک بدبودار جوہڑی مچھلی تھی اور پھر میرے احتجاج کے باوجود گھر میں کام کرنے والی نذر محمد میراثی کی اہلیہ کو بخش دی۔ اسی جوہڑ میں بابو ڈوب گئی تھی۔ بہت دنوں کے بعد جوہڑ کی گہرائی میں اگے سرکنڈوں میں الجھی ہوئی اس کی لاش ملی لیکن بعد کے زمانوں میں ایک لوک داستان نے جنم لیا کہ بابو ابھی تک جوہڑ کی گہرائی میں موجود ہے۔ تیرتی پھرتی ہے تو میں نے ان زمانوں میں اسی داستان کی بنیاد پر ایک کہانی’’جوہڑ میں ڈوب چکی لڑکی‘‘ لکھی اور کسی یونیورسٹی کی ایک طالبہ صرف اس کہانی پر ایم فل کا ایک مقالہ لکھ رہی ہے اور اس نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ اس جوہڑ کو دیکھنا چاہتی ہے جہاں وہ لڑکی ڈوبی تھی اور وہ جوہڑ اب وہاں موجود نہیں وہاں اب ایک نئی آبادی تعمیر ہو چکی ہے۔ اس جوہڑ کے کناروں پر بڑی رونقیں ہوا کرتی تھیں، گاؤ ں کی عورتیں نہ صرف وہاں کپڑے دھوتی تھیں بلکہ اپنے کپڑے اتار کر انہیں دھوکر دھوپ میں ڈالتی تھیں اور موقع غنیمت جان کر جوہڑ میں ڈبکیاں بھی لگاتی تھیں سُلفے کی لاٹ ہوا کرتی تھیں۔ ایک روز پورے گاؤ ں میں ہاہا کار مچ گئی کہ چھپڑ کے پانیوں میں دو جل ککڑ لینڈ کر گئے ہیں۔ یہ پرندے یعنی پانی کی مرغیاں کبھی کبھار اترتی تھیں اور ان کی خصوصیت یہ تھی کہ تیرتے تیرتے یکدم غڑاپ سے پانیوں میں ’’ٹبّی‘‘ مار جاتی تھیں، یوں ڈوب جاتی تھیں کہ پھر کچھ پتہ نہ چلتا تھا کہ بہت دیر کے بعد چھپڑ کے کسی حصے میں سے یکدم نمودار ہو جائیں گی۔ یہ خبر جب چاچا سلیم تارڑ تک پہنچی۔چاچا رفیق تارڑ کے بڑے بھائی جو میرے فیورٹ تھے کہ جب وہ لاہورآئے تو بھی ان کا دم چھلا ہو گیا‘ بغل بچہ ہو گیا کہ وہ مجھ سے بہت محبت کرتے تھے۔ تو چاچا سلیم تارڑ فوری طور پر اپنی دو نالی بندوق میں دو کارتوس بھر کر جوہڑ کنارے پہنچے اور پانیوں پر بے خطر تیرتے جل ککڑوں پر فائر کر دیا۔ اتنا زور دار دھماکہ اس فائر سے ہوا کہ نہ صرف ہم بچوں کے دل رک گئے بلکہ قریبی قبرستان کے کیکر کے درختوں میں بیٹھی فاختائیں بھی سہم گئیں۔ یہ گاؤ ں، یہ چھپڑ، یہ گوریاں اور کیکروں کی شاخوں میں چھپی فاختائیں اب گم ہو گئی ہیں۔
( بشکریہ : روزنامہ 92 نیوز )
فیس بک کمینٹ