گلے شکوے کبھی راہ چلتے کسی اجنبی سے نہیں ہوتے، دل دکھتا ہے تو اپنوں کے لفظوں سے، غیروں کی بات پر نہیں۔ جن کے ساتھ رہتے ہیں،بستے ہیں شکایتیں بھی ان ہی سے ہوتی ہیں۔قانون نافذ کرنے والے اداروں اور سکیورٹی ایجنسیوں کے حوالے سے بات کی جائے تو ان اداروں سے بھی بہت سے لوگوں کو شکایات ہوتی ہیں، ہمارے سوشل میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے لیے یہ شکایات ہر لمحے ایک بریکنگ نیوز کا درجہ رکھتی ہیں، ادھر شکایت ہونٹوں سے نکلی ادھر پلک جھپکتے عام ہوئی۔ مفاد عامہ سے وابستہ کسی بھی شکایت کو مفادات کے پردوں میں چھپا دینا یقینا کوئی مثبت عمل نہیں لیکن یہ بات بھی اپنی جگہ انتہائی اہمیت کی حامل ہے کہ میڈیا جہاں شکایتوں کو عام کرتا ہے وہیں اسے ان کامیابیوں، اچھائیوں اور قربانیوں کا تذکرہ بھی کرنا چاہیے جن کے دم سے ہمارے سماج کا پہیہ گردش میں رہتا ہے۔پولیس، قانون نافذ کرنے والے اداروں میں وہ واحد ادارہ ہے جس سے عام آدمی کو براہ راست واسطہ پڑتا رہتا ہے۔کبھی ٹریفک چالان کی شکل میں تو کبھی چھوٹے موٹے لڑائی جھگڑوں کی صورت میں، کبھی کرائے نامے کا اندراج کروانے کے لیے تو کبھی کسی تصدیق کے لیے لیکن اس براہ راست واسطے کے باوجود ہمارے معاشرے میں ’تھانے جانا‘ کوئی لائق ستائش عمل نہیں سمجھا جاتا۔اور اگر کبھی ایسا ہو کہ آپ کے گھر کے باہر پولیس کی گاڑی کھڑی نظر آجائے تو سارا محلہ دانتوں میں انگلیاں دبا کر کن انکھیوں سے شکوک و شبہات کا اظہار کرنے لگتا ہے۔سوال یہ ہے کہ اگر ہم مجرم نہیں تو پھر پولیس سے ہمارا خوف کا رشتہ کیوں؟؟؟کیا پولیس ملازمین کسی اور دنیا کے باشندے ہوتے ہیں؟؟؟کیا پولیس والوں کے سینے میں بھی ہماری طرح کا دل نہیں دھڑکتا؟؟؟
اصل میں پولیس اور عوام کے بیچ خوف ، غیریت اور عدم اعتماد کا بیج بونے کے ذمے دار وہ گنتی کے چند ملازمین ہوتے ہیں جو محض چند ٹکوں کے عوض اس اختیار کو فروخت کر دیتے ہیں جو حکومت انہیں تفویض کرتی ہے، وہی اختیار جسے عرف عام میں ’ رٹ آف دی گورنمنٹ‘ کہا جاتا ہے۔اس اختیار کو فروخت کرنے کا عمل صرف پولیس ڈیپارٹمنٹ تک ہی محدود نہیں،شہروں میں ناجائز تجاوزات کی بھرمار، بغیر نقشہ منظوری کے بننے والی کمرشل عمارتیں، گندے تیل میں تلے جانے والے سموسے اور پکوڑے، ٹھنڈی مرغیوں سے بنائے جانے والے پیزے اور شوارمے،پرانی تاریخوں میں فروخت ہونے والے جعلی اسٹامپ پیپر اور سرکاری اوقات کار میں سرکاری اداروں کے اساتذہ کی زیر سرپرستی چلنے والی اکیڈمیاں بھی اسی اختیار کو ٹکے ٹوکری کرنے کی مثالیں ہیں۔ بلاشبہ اس طرح کے مکروہ جرائم میں ملوث لوگ اس غلط فہمی کا شکار ہوتے ہیں کہ انہیں اس دنیا میں ہمیشہ رہنا ہے، انہیں موت کبھی نہیں آئے گی، اور اسی غلط فہمی کی بنیاد پر وہ جرم در جرم کرتے چلے جاتے ہیں لیکن یقین کیجیے کہ اس طرح کے احمقوں کی تعداد آج بھی آٹے میں نمک کے برابر ہے،یہ اور بات کہ بیس بائیس کروڑ کی آبادی میں یہ نمک برابر تعداد بھی لاکھوں میں بن جاتی ہے۔ہمیں مل جل کر آٹے سے اسی نمک کو نکالنا ہے، یہ کام صبر آز ما ضرور ہے، ناممکن نہیں۔اس عمل کے لیے ہمیں عوام اور سرکاری اہلکاروں کے درمیان اعتماد اور یقین کے رشتے کو بھی مضبوط کرنا ہوگا۔
وزیر اعلی پنجاب جناب سردار محمد عثمان بزدار کی خصوصی دلچسپی کے نتیجے میں محکمہ پولیس نے عوام اور پولیس ڈیپارٹمنٹ کے درمیان اعتماد کو فروغ دینے کے لیے ’ کمیونٹی پولیسنگ سسٹم‘ متعارف کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔اس سسٹم کے تحت کمیونٹی پولیسنگ تھانے قائم کیے جائیں گے جن کو مقامی مساجد کے خطیب حضرات، اچھی شہرت کے حامل ریٹائرڈ سرکاری ملازمین، ، ڈاکٹرز، اساتذہ اور دانشوروں پر مشتمل کمیٹیاں سپروائز کریں گی۔ کمیونٹی پولیسنگ سسٹم بہت سے مغربی ممالک میںعرصہ دراز سے نہایت کامیابی کے ساتھ مروج ہے اور اس پر نئی ریسرچ کا کام بھی جاری ہے۔اس سسٹم کا بنیادی خیال صرف اتنا ہے کہ باہمی اختلافات اور چھوٹے موٹے معاملات و مسائل کو تھانوں تک لانے کی بجائے گلی محلے کی سطح پر ہی حل کرلیا جائے۔ان کمیٹیوں کی یہ ذمے داری بھی ہوگی کہ قدیم زمانے سے مروج چوکیدارہ نظام کو دوبارہ سے زندہ کرنے کے ساتھ ساتھ مقامی لوگوں کو اس بات کا بھی احساس دلایا جائے کہ کسی بھی گھر میں انجان لوگوں اور اجنبی گاڑیوں کی غیر معمولی آمدو رفت پر نظر رکھنا ان کے اپنے مفاد میں ہے۔کسی بھی شخص کو کوئی بھی عمارت پولیس کو اطلاع دیے بغیر کرائے پر نہ دی جائے،محلے میں منشیات کے کاروبار میں کسی بھی شخص کے ملوث ہونے کا اندیشہ ہو تو کمیونٹی پولیسنگ تھانہ کمیٹی مرکزی تھانے کے تعاون سے فوری اقدامات کرے۔کسی بھی شخص کی ذاتی یا سرکاری پراپرٹی پر قبضے کی کوشش کے خلاف بھی کمیونٹی پولیسنگ سسٹم کے تحت بنائی جانے والے یہ تھانے فوری کاروائی کرنے کے مجاز ہوںگے۔ مذکورہ سسٹم کو اپنانے سے ایک طرف جرائم اور جرائم پیشہ عناصر کے گرد گھیرا تنگ کیا جاسکے گا تو دوسری طرف پولیس اور عام شہریوں کے بیچ مراسم کو دوستانہ اور ہمدردانہ بنیادوں پر فروغ دینے میں بھی مدد ملے گی۔قانون نافذ کرنے والے اداروں اور قانون پسند شہریوں کے درمیان اعتماد کا رشتہ جرم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوتا ہے۔کمیونٹی پولیسنگ سسٹم میں ہر علاقے کی مسجد بھی نہایت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یہ سسٹم مساجد کے خطیب حضرات کو اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ وہ اپنی تقاریر بالخصوص جمعے کے خطبات میں لوگوں کو امن، بھائی چارے اور انسانی ہمدردی کی تلقین کریں اور انہیں یہ باور کرائیں کہ مذہبی منافرت معاشرے کو انتشار کی طرف لے جاتی ہے، ہمیں اس انتشار سے بچنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
جنوبی پنجاب کی ایک الگ خود مختار انتظامی حیثیت اس وسیب کے لوگوں کا دیرینہ خواب بھی ہے اور مطالبہ بھی۔حکومت اس حوالے سے ضروری اقدامات میں بھی مصروف ہے تاکہ یہاں کے لوگوں کو اپنے مسائل کے حل کے لیے طویل سفر کی صعوبتوں سے بچایا جاسکے۔گھر کی دہلیز پر مسائل حل ہوجائیں تو اس سے بہتر کیا ہوگا۔کمیونٹی پولیسنگ سسٹم بھی مسائل کو گھر کی دہلیز پر حل کرنے کا نام ہے۔اگلے چند ماہ میں متوقع نئی انتظامی تقسیم کے بعد ملتان، بہاولپور اور ڈیرہ غازی خان جیسے علاقوں میں جہاں لوگوں کے لیے آسانیاں بڑھیں گی وہیں امن و امان کے بہت سے مسائل بھی جنم لیں گے۔اسی لیے وزیر اعلیٰ پنجاب محترم سردار عثمان بزدار نے آئی جی پنجاب جناب امجد جاوید سلیمی کو خصوصی ہدایت کی ہے کہ کمیونٹی پولیسنگ سسٹم کو متعارف کرانے کی ابتدا ان ہی ریجنزسے کی جائے۔ملتان ریجن میں اس سسٹم کو رائج کرنے کی چند برس پہلے بھی کوشش کی گئی تھی، اس کے کچھ نہ کچھ ثمرات بھی سامنے آئے تھے لیکن اس سسٹم کو متعارف کرانے والے اس وقت کے آرپی او ملتان کیپٹن (ر) امین وینس کے تبادلے کے باعث اس نظام کو مکمل طور پر مو¿ثر نہیں بنایا جاسکا۔امید ہے کہ موجودہ آر پی او ملتان وسیم احمد خان کمیونٹی پولیسنگ سسٹم کو کچھ اس انداز میں مو¿ثر بنانے کی کوشش کریں گے کہ ان کی عدم موجودگی میں بھی یہ سسٹم چلتا رہے۔ کمیونٹی پولیسنگ سسٹم کے حوالے سے بنائی جانے والی کمیٹیوں کی تشکیل کے وقت یہ بات بھی پیش نظر رکھنا ہوگی کہ ان کمیٹیوں میںوہ پیشہ ور افراد شامل نہ ہوجائیں جن کا اپنا ریکارڈ مشکوک ہو، ماضی میں ملتان ریجن میں کمیونٹی پولیسنگ سسٹم کے تحت جو کمیٹیاں بنائی گئی تھیں ان میں چند ایک پیشہ ور حضرات کی موجودگی نے اس سسٹم کی شفافیت کو متاثر کیا تھا۔یہ بہت اچھی بات ہے کہ پولیس ڈیپارٹمنٹ اپنے سسٹم کو بہتر کرنے کی کوشش کر رہا ہے، پولیس ملازمین کے سروس سٹرکچر ،ان کی ترقی ،پولیس شہداءکے لواحقین کی کفالت اور سی ایم ایچ کی طرز پر علاج معالجے کی جدید ترین سہولیات کی فراہمی کے منصوبوں پر بھی کام کیا جارہا ہے لیکن آج بھی عوامی سطح پر لوگ پولیس ڈیپارٹمنٹ کے ان ہزاروں بہادروں سے نا آشنا ہیں جو اپنی زندگی کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ،دہشت گردوں کے راستے میں فولادی دیوار بن جاتے ہیں۔ قبضہ گروپوں کی معاونت کرنے والے اور اپنا ضمیر بیچ کر مجرموں کا ساتھ دینے والے مٹھی بھر بدعنوان اہلکاروں کو یہ حق قطعاً بھی حاصل نہیں کہ وہ ایسے ہزاروں فرض شناس اور سرفروش پولیس والوں کی لازوال قربانیوں کو اپنے مفادات کی بھینٹ چڑھا دیں۔ ایسی کالی بھیڑوں کا احتساب کیے بغیرعوام میں پولیس کا سافٹ امیج ابھارنا یقینا کوئی آسان کام نہیں۔
(بشکریہ: روزنامہ خبریں)
فیس بک کمینٹ