ذوق ومشرب میں اختلاف ہے تو ہوتا رہے فقط یہ اہتمام کیاجائے کہ ذوق بیہودہ اورمشرب آلودہ نہ ہونے پائے۔ اسی طرح فکرونظر میں فرق ہے تو کوئی عیب نہیں‘بس کیایہ جائے کہ فکرقباحت اورنظر کراہت سے پاک ہو جائے‘ زاویہ نظر ہی کسی منظر کو حسین بناتاہے۔اگر ہر کوئی ایک طرح سوچنا شروع کردے تو اس کامعنی یہ ہوا کہ لوگوں نے سوچنا چھوڑ دیاہے اوراگر ہرکوئی ایک ہی بات کہنے لگے تو اس کانتیجہ نکلے گا کہ لوگ ہم کلامی کی بجائے خود کلامی کاشکار ہوگئے ہیں۔ انسانوں کی د±نیا میں ہم کلامی سے ح±سن ہے خود کلامی سے نہیں۔ سابق صدر آصف علی زرداری گزشتہ تین دنوں میں سندھ کے مختلف شہروں کے اندر اوپرتلے جلسوں سے خطاب کرچکے ہیں۔ اس سے قطع نظر کہ زرداری صاحب کے فرمودات کوہم کلامی سے تعبیر کیاجائے یا خود کلامی کاشاہکار کہاجائے ان کی تقاریر دلائل سے خالی اورمضحکہ خیز ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کااپنا نظام ہے۔ اس مالکِ حقیقی کااپنا ایک نظام الاوقات ہے۔ سچ اورجھوٹ میں تمیز ہوہی جاتی ہے۔ اس سے بڑا اورمذاق کیاہوگا کہ اگر الزام ”منی لانڈرنگ“ کا ہوتو جواب میں یہ کہاجائے کہ یہ 18ویں آئینی ترمیم منظور کرنے کی سزا ہے۔
دوسری حقیقت یہ ہے کہ عمران سرکار یا عسکری قیادت نے تو یہ مقدمات قائم نہیں کیے ہیں۔ فالودے والے‘دودھ والے اورلڈو بیچنے والے نابینا کے اکا?نٹ سے کروڑوں روپوں کی منتقلی کیا اسٹیبلشمنٹ نے کرائی ہے؟ بنکوں کے جعلی کھاتے کیا اس نے کھولے ہیں؟ بنکوں کے قرضے کیافوج نے جاری کیے تھے؟ جے آئی ٹی رپورٹ نے تو یہ سب کچھ اب ظاہر کیاہے جبکہ راقم نے اپنے مضمون کی دو اقساط کے ذریعے روزنامہ ”خبریں“ کی دس اور گیارہ نومبر2015ءکی اشاعت میں یہ سب کچھ شائع کردیاتھا۔ سب سے پہلے روزنامہ ”خبریں“ میں شائع ہوا تھا کہ سندھ حکومت سے بیمار صنعتی یونٹوں کی بحالی کے لئے ایک پالیسی بنوائی گئی جو چار گھنٹوں کے اندر منظور ہوئی۔پانچویں گھنٹے میں رقم مخصوص کردی گئی۔چھٹے گھنٹے میں سندھ حکومت نے دو ارب روپے سندھ بنک کو منتقل کردئیے‘ ساتویں گھنٹے میں یہ رقم اومنی گروپ کودے دی گئی۔ جس کے کرتادھرتا انورمجید اورعبدالغنی مجید باپ بیٹا تھے۔ظلم دیکھئے کہ یہ بیماریونٹس پہلے سے مختلف بینکوں کے پاس گروی تھے۔ ان کو ورکنگ پوزیشن میں دکھایا گیا اوردلچسپ حقیقت یہ ہے کہ جب یہ یونٹس دوسرے بنکوں کے پاس تھے تو چالوحالت میںتھے مگر سندھ حکومت کے سامنے ان کولاغر اور بیمار ادارے ظاہر کیاگیا۔
پاکستان کوتو چھوڑئیے کیا دنیا بھر کے بنکنگ کے نظام میں ایسی مثال مل سکتی ہے کہ ایک دن کے اندر یہ سب کچھ کیاگیاہو‘ زرداری صاحب کے دور صدارت میں سندھ کے اندراصل حکمرانی انورمجید اور ”اَدّی“ صاحبہ کی تھی۔ میرے خیال میںانور مجید اور ان کا ٹولہ بہت بڑے مالیاتی دہشت گرد ہیں۔ اسی طرح سب سے پہلے نثار مورائی کے حوالے سے روزنامہ ”خبریں“ میں شائع کیاگیا تھا کہ موصوف پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر ہیں لیاری گینگ وار کو منظم کرنا اور ان کو اسلحہ فراہم کرنا اس کی ذمہ داری تھی۔ یہ فشریزکوآپریٹو سوسائٹی کاچیئرمین تھا۔ یہ مچھیروں کی فلاح وبہبود سے متعلق قدیمی اورمشہور سوسائٹی ہے۔ نیلامی کا چودہ فیصد روپیہ اس سوسائٹی کو جاتا تھا ہر ماہ تقریباً ساڑھے تین کروڑ روپیہ مورائی جی کی جیب میں جاتا تھا۔کہتے ہیں اسی ڈاکٹر نثار مورائی کے پاس محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کاراز بھی ہے۔یہ بھی ”خبریں“ ہی میں شائع ہوا تھاکہ بدعنوان ا±ٹھائی گیرٹولے نے پچاس کے قریب ایان علی ٹائپ دوشیزاﺅں کو اپنے نیٹ ورک میں ”جاب“ پررکھا ہوا تھا شروع شروع میں یہ ماڈلز ایک فیصد کمیشن پرکرپشن کا لوٹا ہوا مال باہرلے کرجاتی تھیں بعد میں ایان علی نے یہ کمیشن ایک فیصد سے بڑھا کرچارفیصد کرایا۔یہ بن ٹھن کر پورے پروٹوکول کے ساتھ ائیرپورٹ میں داخل ہوتیں لباس اس نوعیت کے ہوتے کہ چیکنگ کرنے والے بس ان کوہی دیکھتے رہ جاتے اوریہ مال آسانی کے ساتھ باہر لے جاتیں۔ ان کے ایک وکیل سرداراسحاق خان تھے جن کے پاس رحمن ملک کے بھائی خالد ملک فیس لے کر حاضر ہوتے رہے ہیں اور آخر میں حضرت بحریہ سرکار بھی پہنچے اورفرمایا کہ کسی نہ کسی قیمت پراس کو چھڑا دو۔ پکڑنے والوں نے ایان علی کوپکڑاتھا باقی تو ایان علی کے پے رول پر تھے اور اس سے بڑا ظلم کیا ہوگاکہ غریب سندھیوں کے بچوں کو پیسے لے کر پولیس میں سپاہی بھرتی کیاگیا۔ گندم کی سرکاری خریداری میں باردانے تک پرکمیشن لیاگیا۔ ان کونہ تو بددعا?ں کاڈرتھا اور نہ ہی خداکاخوف‘ کوئی پوچھنے والا نہیں تھا کہ نواب شاہ میں ضیا النجار کس کافرنٹ مین ہے۔ ٹنڈو اللہ یار میں غلام قادر مری کس کا منظور نظر ہے؟ ایشیائ کی سب سے بڑی شوگرمل کس طرح قبضے میں لی گئی‘ نوشہروفیروز میں کس کے کہنے پر ممتازچانڈیو نے جتوئیوں کی زمینوں پر قبضے کیے۔ ضلع دادو کی تحصیل مہڑ میں محکمہ آبپاشی کاریسٹ ہاﺅس کس نے بیچ کھایاجو ایکڑوں میں پھیلا ہواتھا۔ محترمہ شازیہ مری کسی ٹی وی شو میں یہ بھی فرمادیں کہ کھپروٹاﺅن کمیٹی میں گزشتہ دس برسوں سے کس کو باقاعدگی کے ساتھ منتھلی جارہی ہے۔ جھنڈی بروہی مشہور اشتہاری ہے اوربابل خان بھی آئے دن پولیس کو مطلوب رہتاہے۔ یہ دونوں آغا جی کے پاس ملازمت کرتے ہیں۔ اگلی بات زبان زد عام ہے علاقے میں۔
اپنے منظوروسان صاحب اور ان کے بھائیوں کی تو کیا بات ہے‘ ماشاءاللہ اب تو وسان انٹر پرائززدبئی میں بھی قائم ہے۔فرید نامی شخص آغا سپرمارکیٹ کراچی کامالک ہے‘ آغا خانی ہے فارن کرنسی میں ڈیل کرتاہے۔ سندھ کے نامی گرامی وزراءنے اس کو اپنی اپنی حق حلال کی ”کمائی“ کاروبار میں لگانے کے لئے دی۔ یہ سب کاباپ نکلااور سب کے پیسے لے کر دبئی فرار ہوگیا۔ مصطفی میمن کے ذریعے ان وزراءنے فرید آغاخانی کو دبئی میں ایک کھانے پربلایا اورمنتیں کی کہ وہ کم ازکم آدھے ہی پیسے واپس کردے۔ بڑے حضرت صاحب کو اس واقعہ کی بھنک پڑ گئی‘ فرید آغا خانی اورصاحب بہادر ایک ہوگئے‘ وزراءٹھنڈے پڑ گئے اور مال پرم±ورپڑ گیا۔ ڈاکٹر عاصم کے ہسپتال کو چیریٹی کی بنیاد پر پچاس کروڑ روپیہ سندھ کے بجٹ سے دیاگیا حالانکہ ان کاہسپتال چیریٹی کے لئے رجسٹرہی نہیںہے۔ عدالت کافیصلہ موجود ہے۔
سلسلہ بحریہ کے سجادہ نشین مخیر بابا کوسپر ہائی وے سے لے کرحب تک زمین دے دی گئی۔20 کلو میٹر روڈ بلوچستان کی سرحد تک جاتی ہے‘ ساری باتیں چھوڑیں‘ جے آئی ٹی کی رپورٹ کو بھی ایک طرفہ رکھ دو کیا محترم ومکرم قمرالزمان کائرہ صاحب قمبرعلی خان کے پ±نل سومرو‘ ٹنڈو آدم کے فدا ڈیرو‘ ڈپلو تحصیل کے نواز جونیجو‘ تھرپارکرکے محمدلنڈ کلوئی‘ نگر پاری کے عبدالغنی کھوسو کی ”قربانیوں“ کے بارے میں کچھ کہنا پسند فرمائیں گے؟ کیا دان ہنگورچو‘ معین بھچر‘ میر بالو‘ زبیر جمالی‘امیر انور‘ نوڈیروہاﺅس کے انچارج شفقت سومرو‘ ذوالفقارسرکی‘ رتوڈیرو کے اعجاز لغاری کو چودھری اعتزازاحسن صاحب جانتے ہیں؟ کیا چودھری صاحب کے علم میں یہ ہے کہ یہی اعجازلغاری ہے کہ جس نے ذوالفقارعلی بھٹو شہیدکے پوتے اورمرتضیٰ بھٹو کے بیٹے کارقبہ ہتھیالیاہے؟ کیا ذوالفقارعلی بھٹو کی پھانسی اورمحترمہ بے نظیر بھٹو صاحبہ کی شہادت اورپیپلزپارٹی کے کارکنوں کی لازوال قربانیاں ریاض لال جی‘ انور مجید‘ شکیب قریشی‘ ڈاکٹر ڈین شاہ‘ انکل ساریا‘ غنی انصاری‘ عبدالغنی مجید‘عبید جتوئی‘یو کے والے ناصر بیگ‘ منظورقادر کاکا‘ عمرگیلانی‘ ڈاکٹرعاصم‘ مصطفی میمن‘ فیاض علوی‘ ناصرلوتا‘ جاوید جسکانی‘ ندیم یوسفزئی‘ غلام علی پاشا اور پروفیسرچانڈیو کے لئے تھیں؟ کیاان کی کوئی قربانی ہے یا پیپلزپارٹی کاکارکن ان کو جانتاہے۔ قیامت کی نشانی اعجاز جاکھرانی نے کیااپنے سرپرکرپشن اورلوٹ مارکی ہے؟ کس کس کے اوصاف ِ حمیدہ بیان کروں۔ یہ سب کچھ اوربھی بہت کچھ سابق کور کمانڈر کراچی جناب نوید مختار اورسابق ڈی جی رینجرز سندھ اور موجودہ کورکمانڈر راولپنڈی جنرل بلال اکبر کے علم میں ہے۔ان صاحبان نے بہت محنت کی تھی‘ یہ صاحبان وہ کچھ جانتے ہیں جو اور نہیں جانتے۔ عدلیہ اورنیب کا جن لوگوں سے واسطہ پڑا ہے وہ بہت کاریگر حضرات ہیں‘ ان کے لمبے ہاتھ ہیں۔ انہوں نے دنیا کی عدالتوں کو چکمہ دیا ہواہے‘ یہ لٹیروںاورڈاکوﺅں کاٹولہ ہے جس کو صاحب بہادر نے کھل کرکھیلنے کی اجازت دی ہوئی تھی۔ ان کوآگے کیاہوا تھا‘ ان کو کسی کی پرواہ نہیں تھی یہ تو خدا نے سوموٹو لیا اورعزت چیف جسٹس ثاقب نثار کے مقدر کاحصہ بنی۔ ہمارے بڑوں نے اپنے اور اپنی نسلوں کے لئے پاکستان کی شکل میں پناہ گاہ کی آرزو کی تھی‘ تماشا گاہ کی نہیں‘یہ ایک فیصلہ کن گھڑی ہے۔ میاں نواز شریف کی سزا اورزرداری صاحب کے خلاف جے آئی ٹی کی رپورٹ سے لگتا ہے کہ احتساب کا یہ عمل اب تھمے گا نہیں۔ایک کے بعد دوسرے گروہ کے لوگ زد میں آئےں گے۔عیاری‘مکاری‘ خرکاری اورچالاکی کی ایک حد ہوتی ہے‘ تھوڑا وقت رہ گیا ہے کہ وہ حادثہ ہونے والا ہے کہ جو وقت کے ناخداﺅں اور بڑا بول بولنے والوں کے بکھرے ہوئے پتنگوں میں بدل ڈالے گا۔ ان کے پیٹ کی قبریں سب کچھ ا±گلنے اوران کے سینوں کے صندوق پگھلنے پر مجبور کردئیے جائیں گے۔ یہ فرمانِ خداوندی ہے۔ وزیراعظم عمران خان احتساب کے حوالے سے پکاراگ الاپتے رہنے سے گریز کریں۔ ضلعی اورتحصیل سطح پر ابھی بھی سفارش اوررشوت کا راج ہے۔ ہر سطح پر اب پاکستان کرپشن سے پاک ہوناچاہئے۔
(بشکریہ: روزنامہ خبریں)
فیس بک کمینٹ