دنیا بھر کے باشندے 2019 کی آمد کا انتظار کررہے ہیں۔ انفرادی اور اجتماعی طور پر نئے سال کے لئے نئے عزم اور خواہشوں کا اظہار ہو رہا ہے۔ یہ امیدیں باندھی جارہی ہیں کہ جو کام جانے والے سال میں مکمل نہ ہو سکے، ان کی تکمیل کی جائے۔ جو غلطیاں سال گزشتہ میں سرزد ہوئیں اور جن کی وجہ سے ذاتی یا قومی سطح پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، ان سے سبق سیکھا جائے اور ترقی اور خوش حالی کا راستہ کھوجا جائے۔ تاہم پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس پر سال پرانا ہو یا نیا، مایوسی کے سائے مزید گہرے ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ یہ صورت حال بھی انہی غلطیوں کے دہرانے اور ان پر اصرار کرنے سے پیدا ہورہی ہے جو گزشتہ ستر برس سے ہمارے پاﺅں کی زنجیر بنی ہوئی ہیں۔
ملک میں اس وقت احتساب کا غل ہے اور اعلان کیا جارہا ہے کہ تاریخ میں پہلی بار سب کا بلا تخصیص احتساب ہوگا۔ لیکن یہ اعلان کرنے والے بھول رہے ہیں کہ احتساب کرنے اور اسے سیاسی منفعت کا ہتھکنڈا بنانے کا سلسلہ تو قیام پاکستان کے ساتھ ہی شروع ہو گیا تھا۔ جو کام اس وقت عمران خان اور تحریک انصاف کو بالواسطہ قوت فراہم کرتے ہوئے انجام دینے کی کوشش کی جارہی ہے، اسی کو پورا کرنے کے لئے چار فوجی جرنیلوں نے ملک کے آئین کو توڑا، سپریم کورٹ کے ججوں نے قومی احتساب اور شفافیت کے اس مقدس مشن میں فوج کا ساتھ نبھانے کے لئے کسی شرمندگی کے بغیر آئین کی پاسداری اور حفاظت کے لئے کیے گئے حلف سے رو گردانی کی اور پی سی او یعنی طاقتور کی زبردستی کو مان لینے کے اصول کو تسلیم کرتے ہوئے قانون و آئین کا حلیہ بگاڑنے میں کردار ادا کیا۔ یہ کردار ابھی تک کسی نہ کسی صورت میں ادا کیا جارہا ہے۔ جس طرح ملک کی فوج ایک فعال جمہوری حکومت کے پلڑے میں اپنا وزن ڈالتے ہوئے، وہ مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کررہی ہے جو ماضی کے جرنیل براہ راست حکومتی معاملات سنبھالتے ہوئے اور جمہوریت کو روندتے ہوئے حاصل کرنے میں ناکام رہے تھے۔
آج کی سپریم کورٹ آئین کی سربلندی کے لئے کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار ہے۔ وہ جب چاہے وزیراعظم کو بے اختیار کرتے ہوئے عہدے سے نکال باہر کرے اور اس کے فیصلوں کو مسترد کردے۔ پارلیمنٹ کے فیصلوں کو آئین کے منافی قرار دے اور وزیر اعظم کے قانونی اختیار کا تعین کرنے میں پھرتی دکھانے کو اپنا آئینی حق سمجھے۔ اور جب ضرورت محسوس ہو دہری شہریت کے معاملہ میں سینکڑوں سرکاری افسروں کو عہدوں سے معزول کرنے کا حکم دینے کے چند ہفتے بعد ہی ایک برطانوی شہری کو وزیر اعظم کا معاون خصوصی بننے کا حق عطا کردے۔ کیوں کہ امور مملکت تو بہر حال وزیر اعظم نے چلانے ہیں، اس لئے انہیں اپنی مرضی کے افراد چننے کا حق بھی حاصل ہونا چاہیے۔ اب آئین و قانون انہیں اس کا حق دے تو سپریم کورٹ کیا کرسکتی ہے۔
سپریم کورٹ اپنی غیر جانبداری ثابت کرنے کے لئے ایک وزیر مملکت کو فوری طور پر طلب کرکے ای سی ایل پر ایک وزیر اعلیٰ کا نام ڈالنے پر سرزنش کرسکتی ہے اور یہ مشورہ دے سکتی ہے کہ کابینہ اس فیصلہ کو تبدیل کرے۔ چیف جسٹس نے کیا خوبصورت بات کی ہے کہ ’اگر حکومت ایک وزیر اعلیٰ کا نام ای سی ایل میں شامل کرنا ضروری سمجھتی ہے تو ہم بھی چار وزیروں کا نام ای سی ایل میں ڈال کر توازن پیدا کردیتے ہیں‘۔ یہ دلیل تو صائب ہے لیکن اس میں قانون کی حجت تلاش کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا۔ یہ تعلی، ضد اور مقابلہ بازی ہی ہے جس نے ملک کے افق پر مایوسی اور ناکامی کے بادل گہرے کیے ہیں۔
سپریم کورٹ میں ہی آج اصغر خان کیس میں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے فیصلہ پر عمل درآمد کیس کی سماعت بھی ہوئی اورعدالت عظمی کے ججوں کو حیرت سے انگلی دانتوں میں دبا کر ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل سے پوچھنا پڑا ’اچھا تو یہ معاملہ صرف اخباری خبروں پر کھڑا ہے۔ خبروں کی بنیاد پر تو کسی کو سزا نہیں دی جاسکتی‘۔ چیف جسٹس ثاقب نثار جو دو روز قبل ایک خطاب میں یہ اقرار کرچکے ہیں کہ ’ان کے امتحان کا نتیجہ ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد نکلے گا‘۔
آج اصغر خان عمل درآمد کیس میں یہ دور کی کوڑی لائے ہیں کہ ایف آئی اے کی طرف سے ثبوت اور شواہد نہ ہونے کی بات سامنے آئی ہے۔ سپریم کورٹ تو قانون اور ثبوت کے ساتھ ہی بندھی ہے تاہم مدعی کی اشک شوئی بھی ضروری ہے۔ اس لئے اسی سے پوچھ لیتے ہیں کہ اس معاملہ میں وہ کیا کہتے ہیں۔ مدعی ائیر مارشل (ر) اصغر خان اگر رحلت کرگئے ہیں تو انصاف کے تقاضے تو پورے ہونے چاہئیں۔ اس لئے ان کے ورثا سے پوچھ لیا جائے کہ ان کا کیا موقف ہے۔
اب ایف آئی اے کو تو ثبوت مل نہیں رہے۔ شاید اصغر خان کے وارث ایسا کوئی ثبوت لادیں اور سپریم کورٹ ملزموں کو سزا دلوانے کا اہتمام کرسکے۔ عدالت نے قانون کوسب کے لئے یکساں طور سے نافذ کرنے کا عزم کیا ہوا ہے۔ لیکن ثبوت تلاش کرنا تو اس کاکام نہیں ہے۔
اس مقدمہ کو ملک کے مبصر اور تجزیہ نگار پاکستان میں سیاسی بدعنوانی کی ماں قرار دیتے ہیں۔ اصغر خان نے 1996 میں سپریم کورٹ میں مقدمہ دائر کیا تھا جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ اس وقت کے صدر غلام اسحٰق خان کی ہدایت پر ایوان صدر میں 1990 میں الیکشن سیل بنایا گیا تھا۔ اس میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل مرزا اسلم بیگ اور ڈی جی آئی ایس آئی اسد درانی شامل تھے۔ انتخابات میں بے نظیر بھٹو کو شکست دینے کے لیے آئی ایس آئی کے سیاسی ونگ نے مبینہ طور پر مہران بینک کے یونس حبیب کے ذریعے سیاستدانوں میں 14 کروڑ روپے تقسیم کیے۔
س سے عوام کو شفاف انتخابات اور حق رائے دہی سے محروم رکھ کر حلف سے رو گردانی کی گئی۔ 16 سال بعد عدالت نے 2012 میں اس کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے ریٹائر جرنیلوں اسلم بیگ، اسد درانی اور مہران بینک کے سربراہ یونس حبیب کے خلاف کارروائی کا حکم دیا۔ رقم وصول کرنے والے سیاستدانوں کے خلاف ایف آئی اے کو تحقیقات کا حکم دیا گیا تھا۔
تفصیلی فیصلہ سناتے ہوئے عدالت نے کہا تھا کہ ’اس وقت کے صدر، آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی نے اپنے عہدوں کا ناجائز استعمال کیا۔ 1990 کے انتخابات میں دھاندلی کی گئی۔ اسلم بیگ اور اسد درانی غیر قانونی سرگرمیوں میں شریک ہوئے لیکن ان کا یہ عمل انفرادی فعل تھا، اداروں کا نہیں۔ فیصلے میں کہا گیا تھا کہ خفیہ اداروں کا کام الیکشن سیل بنانا نہیں بلکہ سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے۔ صدر، ریاست کا سربراہ ہوتا ہے۔ صدر حلف سے وفا نہ کرے تو آئین کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوتا ہے‘۔
اس تفصیلی فیصلہ کے چھے برس گزرنے کے بعد ایف آئی اے پر سپریم کورٹ کے فیصلہ کے برعکس یہ انکشاف ہوا ہے کہ یہ کیس تو اخباری خبروں کی بنیاد پر بنا تھا اور اس میں تو کوئی ثبوت موجود ہی نہیں ہیں۔ اور سپریم کورٹ اصغر خان کے ورثا کو مدعی قرار دے کر ان کی رائے جاننا ضروری سمجھتی ہے۔ عدل و انصاف اور بلا امتیاز احتساب کے اس زمانے میں اصغر خان کیس میں عدالت عظمی کے ججوں کی یہ نرم خوئی بھی اسی مزاج کا شاخسانہ ہے جو ماضی میں ججوں کو پی سی او کے تحت حلف اٹھانے پر مجبور کرتا رہاہے۔
ریاست کے اہم کارندے عوام کے حق پر ڈاکہ ڈالنے کا اہتمام کرتے ہیں۔ سولہ برس کے غیر معمولی انتظار کے بعد سپریم کورٹ ملزموں کا تعین کرتی ہے۔ اور اس حکم کے چھے برس بعدایف آئی اے کی مجبوری دیکھتے ہوئے سپریم کورٹ اپنے پیشرو کا لکھا ہوا فیصلہ پڑھنے کی بجائے، اصغر خان کے ورثا کی رائے جاننا چاہتی ہے۔ سوال صرف اتنا ہے کہ کیا یہ معاملہ اصغر خان کی ذاتی جائیداد کی بازیابی کا معاملہ ہے یا عوام کے آئینی اور بنیادی حق پر ڈاکہ کا مقدمہ تھا۔
اس معاملہ میں تو ریاست کو مدعی اور عدالت کو ذمہ دار ہونا تھا۔ اب اصغر خان کے ورثا طے کریں گے کہ 2012 میں سپریم کورٹ نے درست فیصلہ کیا تھا یا آج کی ایف آئی اے ٹھیک رائے دے رہی ہے۔ عوام کے حق انتخاب اور اداروں کے سربراہان کی طرف سے انتخابی عمل پر اثر انداز ہونے کا معاملہ قانونی پیچدگیوں نے کتنی آسانی سے ایک خاندان کے حق کا معاملہ بنا دیا۔ انہی گھاٹیوں میں ٹھوکریں کھاتے پاکستان نئے سال کا استقبال کرنے کی تیاری کررہا ہے۔ جہاں انصاف عملیت پسند، جج عصری تقاضوں کے نبض شناس اور قانون ثبوت کے ہاتھوں یرغمال ہوچکا ہے۔
اہل پاکستان نے ماضی سے سبق نہ سیکھنے کی قسم کھائی ہے۔ سقوط ڈھاکہ کا سانحہ اس بات کو یاد دلاتا ہے کہ جب بھی کسی صوبے کے حق مسترد کرنے کی کوشش کی جائے گی، قومی مسائل میں اضافہ ہوگا۔ بلوچستان سے بہتا لہو اس سبق کو یاد دلاتا رہتا ہے۔ پشتون تحفظ موومنٹ کے نوجوانوں کا غم و غصہ اسی تکلیف کا اظہار ہے۔ ریاست اب بھی اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے کے لئے افراد کو لاپتہ کرتی ہے اور کوئی قانون اور اس کا رکھوالا ان کی بازیابی کی ذمہ داری قبول نہیں کرتا۔ اس کے باوجود قومی سلامتی اور مفاد کو نقصان پہنچانے کا الزام انہیں ہی اٹھانا پڑتا ہے جن سے بنیادی حق کے لئے آواز بلند کرنے کا گناہ سرزد ہو۔ ہم بطور قوم ان امور کو سمجھنے سے انکار کرتے ہیں۔
سرحدوں پر خون آشام صورت حال ہے۔ ایک ہمسایہ طاقت ور اور دوسرا نالاں ہے۔ سپر پاور کے ساتھ لیکن چھپن چھپائی کا کھیل جاری ہے۔ خزانہ خالی ہے لیکن ملک معاشی طور سے درست راستے پر گامزن ہو چکاہے۔ حکمران جمہوریت کی پیدا وار ہیں لیکن وہ تدبر کی باتیں کرنے کی بجائے تعصب اور انتقام کے انگارے برساتے ہیں۔ ملک کی نیّا پار لگانے کا عزم ہے لیکن پتوار ہاتھ میں نہیں ہے۔
اہل پاکستان 2019 میں داخل ہوا چاہتے ہیں۔ نئے سال کی مبارک رسم دنیا ہے۔ لیکن ہر نئے سال کو بہتر اور کامیاب بنانے کے لئے زاد راہ فراہم کرنا ہر فرد اور قوم کی اپنی ذمہ داری ہوتی ہے۔ قومیں تحمل اور اعتماد کے ساتھ آگے بڑھتی ہیں۔ انہیں بھائی چارہ اور اجتماعی دانش پر یقین کرنا پڑتا ہے۔ قومی مفاد کو اداروں یا افراد کی اجارہ داری بنا کر کوئی قوم ترقی کا سفر طے نہیں کرسکتی۔ نئے سال میں پاکستان کے لئے یہی خواہش کی جاسکتی ہے کہ وہ ماضی سے سبق سیکھ سکے اور غلطیوں کو دہرانے سے اجتناب کرے۔
جس جمہوری عمل کے نتیجہ میں یہ ملک وجود میں آیا تھا، یہ قوم اسے سنبھال سکے اور اس کی حفاظت کو اپنی منزل مقصود بنا سکے۔ تب ہی اس کے مقدر پر چھائے مایوسی کے بادل امید کی کرنوں میں تبدیل ہوں گے۔
(بشکریہ: کاروان۔۔ناروے)
فیس بک کمینٹ