مذہبی جذباتیت ہمارے قومی مزاج کا خاصہ ہے۔ ہمیں عرصہءدراز سے مذہب کے نام پر بیوقوف بنا کر اپنا الو سیدھا کیا جا رہا ہے، اور ہم ایسے کمال کے لوگ ہیں کہ عقل و خرد کے استعمال کو ضعفِ ایمان تصور کرتے ہوئے پوری شدت کے ساتھ اشرافیہ کے مفادات کے تحفظ کے لیے کاشت کردہ نظریات و روایات کو نہ صرف من و عن تسلیم کرنے پر مصر ہیں بلکہ انہیں اسی طرح اپنی اگلی نسلوں کو منتقل کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔
ہم آج بھی اس بات پر مکمل یقین رکھتے ہیں کہ محمد بن قاسم نے ایک قیدی لڑکی کی پکار پر ہندوستان پر لشکر کشی کی تھی۔ مگر یہ سوچنے کی زحمت کبھی نہیں کرتے کہ اگر معاملہ صرف یہی تھا تو عرب لشکر محمد بن قاسم سے قبل بھی تین مرتبہ ہندوستان پر کیوں حملہ آور ہو چکے تھے اور ہندوستان پر پہلی عرب لشکر کشی حضرت عمر فاروقؓ کے دور میں کی گئی تھی۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ یہ معاملہ دراصل عرب سلطنت کی توسیع اور ان عرب تاجروں کے لیے محفوظ سمندری راستے کی فراہمی کا تھا، جو کہ خلیفہءوقت کے دربار میں اپنا اثرورسوخ استعمال کر کے خلیفہ پر ایسا قدم اٹھانے کے لیے مستقل دباؤ ڈال رہے تھے۔ اسلام کے پھیلاؤ سے اس کا کوئی تعلق نہ تھا، بلکہ یہ مہم جوئی سیاسی بنیادوں پر کی گئی تھی۔ ساتھ ہی ساتھ عرب مؤ رخین کی کتابوں میں بیان کردہ عرب کی انسانی منڈیوں میں بکتی ہندوستانی لونڈیوں اور غلاموں کی داستانیں عرب حملہ آوروں کے حسنِ سلوک کے راز کو طشت از بام کرتی ہیں۔
ہمیں یہ بھی یقین ہے کہ محمود غزنوی سومنات کے مندر کو تباہ کر کے کفروشرک کےاندھیرے مٹانے ہندوستان میں وارد ہوا تھا۔ مگر ہم نے یہ معمہ حل کرنے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی کہ محمود غزنوی نے اپنے دارالسلطنت سے متصل افغانستان کے بامیان کے مندروں میں اپنی بت شکن طبیعت کی جولانی کیوں نہیں دکھائی، اور کیوں چوتھی پانچویں صدی کے تعمیر کردہ ان بتوں کو طالبان کی مہم جوئی کے لیے ثابت و سالم چھوڑ دیا۔ ہم محمود غزنوی کو اپنی یاداشتوں میں اپنے غموں کو بھلانے کے لیے شراب نوشی کا سہارا لینے اورسومنات کے بت پر سونے کا چڑھاوا چڑھائے جانے کا علم ہونے پر اس کو "جہاد” کے لیے منتخب کرنے کا خود اعتراف کرتے پاتے ہیں مگر ہمارا جذبہء ایمانی پھر بھی اسے ایک مجاہدِ اسلام قرار دینے سے کم پر آمادہ نہیں۔
اسی طرح ہمارا یقین مستحکم ہے کہ مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر ایسا ولی صفت حکمران تھا کہ وہ ٹوپیاں سی کر اور قرآن پاک کی کتابت کے ذریعے اپنی معاشی ضروریات کو پورا کیا کرتا تھا۔ کیا ایک مرتبہ ہم نے یہ بھی سوچا ہے کہ ٹوپییاں سینے اور کتابت سے حاصل شدہ آمدنی مغل شاہی محلات کے پرتعیش اندازِ زندگی پر آنے والا خرچ اٹھانے کی متحمل ہو سکتی تھی۔ یا یہ کہ اپنے باپ کو تامرگ قید کروانے اور اپنے بھائیوں، جن میں علم دوست اور فقیرمنش داراشکوہ بھی شامل تھا، کو تخت کی لالچ میں اس بے دردی سے قتل کروانے والا اورنگزیب ایک مردِ مومن کی کون سی تعریف پر پورا اترتا ہے۔
ہمارے لیے احمد شاہ ابدالی اور نادر شاہ درانی جیسے لٹیرے صرف اس وجہ سے ہیرو ہیں کیونکہ وہ ہمارے ہم عقیدہ تھے۔ ان کی لوٹ مار اور قتل و غارت کا اندازہ کرنے کے لیے اس دور میں زبان زد عام پنجابی کہاوت "کھادا، پیتا، لاہیے دا ۔۔ باقی احمد شاہیے دا ” ہی کافی ہے کہ آسان ترجمہ جس کا یہ بنتا ہے کہ جو کھا، پی لیا وہ تمھارا ہے، باقی تو احمد شاہ لوٹ کر لے جائے گا۔ مگر ہم اپنے میزائلوں کے نام ان حملہ آوروں کے ناموں پر رکھنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ ہمارے اپنے برِصغیر کےجنگِ آزادی کے ہیروز تک سےہم لوگ پوری طرح واقف نہیں۔
ایسے میں کوئی موقع پرست جرنیل اسلام کا نام استعمال کر کے ہمارے سروں پر گیارہ برس تک مسلط رہ بھی گیا تو اس میں عجب کیا۔ اگر اس کے دور کے ثمرات آج تک بھگتنے کے باوجود ہماری عوام کا ایک بڑا طبقہ اس کے لیے عقیدت کے جذبات رکھتا ہے، اور اس کو اسلام کا نام لیوا اور مردِ مومن سمجھتا ہے تو اس میں اچھنبے کی کیا بات ہے۔ اور اگر آئندہ بھی کوئی اسی طرح اسلام کا نام لے کر ہمیں اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتا رہے تواس میں حیرانی کیسی۔ اندھی جذباتیت اور اندھی تقلید ہمارے قومی مزاج کا حصہ ہے، اور ہم نے اس پر کبھی شرمندگی محسوس نہیں کی۔
فیس بک کمینٹ