اپنی لائبریری میں ایک کتاب کی تلاش میں گیا تو کتابوں کے ہجوم میں ثریا شہاب کے ناول ’’سفر جاری ہے‘‘ پہ نظر پڑ گئی۔ مَیں نے اس کتاب کو کئی سال بعد دیکھا تو محترمہ ثریا شہاب سے بے شمار ملاقاتوں کی یادیں تازہ ہو گئیں۔ 1990ء کے عشرے میں ثریا شہاب ملتان بڑی باقاعدگی سے تشریف لایا کرتی تھیں۔ ملتان میں اُن کے میزبان میرے عزیز دوست عمر علی خان بلوچ مرحوم و مغفور ہوا کرتے تھے۔ ثریا شہاب ان کی تنظیم ’’پاکستان یوتھ لیگ‘‘ کے ساتھ وابستہ تھیں۔ یوتھ لیگ کا پورے پاکستان میں نیٹ ورک تھا۔ اور پاکستان کے کسی بھی شہر میں عمر علی خان بلوچ کوئی بڑا ایونٹ کرواتے تھے تو ثریا شہاب وقت نکال کر پہنچ جایا کرتی تھیں۔ یہ وہ زمانہ تھا جب صرف ٹیلیویژن سکرین پر PTV دکھائی دیتا تھا اور PTV بھی ایسا کہ آپ قرأت سے لے کر قومی ترانہ تک دیکھا جاتا تھا۔ ٹیلیویژن کے ڈرامے، نیلام گھر، بچوں کے پرگرامز اور پھر سب سے مقبول اس کی خبریں ہوا کرتی تھیں۔ ثریا شہاب، خالد حمید، ابصار عبدالعلی، شائستہ زید، اظہر لودھی، ارجمند شاہین، مہ پارہ صفدر، طارق عزیز، کنول حمید جو بعد میں کنول نصیر کے نام سے معروف ہوئیں اور دیگر نیوز کاسٹرز گھروں کے فرد کے طور پر دلوں پر راج کرتے تھے۔ ایسے میں ٹیلیویژن سے تعلق رکھنے والے کسی بھی شخص کا ملتان آنا بہت بڑا واقعہ ہوا کرتا تھا۔ 1995ء کی بات ہے عمر علی خان بلوچ نے ہم سے رابطہ کیا اور کہا کہ ثریا شہاب کا ناول ’’سفر جاری ہے‘‘ آیا ہے اس کی تعارفی تقریب کروا رہا ہوں۔ آپ نے اس میں
مضمون پڑھنا ہے اور نظامت کرتی ہے۔ مَیں نے کہا کتاب کب ملے گی؟ کہنے لگے ایک دو دن میں ثریا شہاب آپ کو براہ راست کتاب بھجوا دیں گی۔ تین دن بعد بذریعہ ڈاک کتاب ہمیں ملی تو ثریا شہاب نے لکھا ہوا تھا ’’شاکر صاحب کے لیے خلوص کے ساتھ ۔ ثریا شہاب 18 مئی 1995ء‘‘۔
کتاب ملتے ہی مَیں اُس دن کا شدت سے انتظار کرنے لگا جس دن اُن کے اس ناول کی رونمائی ہونا تھی۔ اُن کی کتاب کی رونمائی کی تقریب ملتان کی علمی ادبی تقریبات کی ایک بڑی تقریب تھی۔ جس میں قابلِ ذکر شخصیات نے نہ صرف شرکت کی بلکہ ڈاکٹر عرش صدیقی نے اس تقریب کی صدارت بھی کی۔ اسی ٹور میں مَیں نے عمر علی خان بلوچ سے کہہ کر اپنے غریب خانے پہ محفلِ مسالمہ کی نشست رکھی جس میں کم و بیش 40 شعراء کرام نے شرکت کی۔ جب وہ میرے گھر تشریف لائیں تو اُن سے ایک طویل نشست ہوئی اور مَیں نے پوچھا آپ ٹیلیویژن میں کیسے آئیں؟ مسکرا کر کہنے لگیں ٹیلیویژن پر آنے کی کہانی بڑی دلچسپ ہے۔ مَیں کراچی ریڈیو کا ایک پروگرام سٹوڈیو نمبر9 بڑے شوق سے سنا کرتی تھی۔ اور اس پروگرام کے بارے میں ہر ہفتے تبصرہ کر کے ایک تفصیل سے خط بھی لکھا کرتی تھی۔ میرا وہ تبصرہ ناقدانہ ہوا کرتا۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ جو مَیں تبصرہ لکھتی تھی اس کو پروگرام کے میزبان اور پروڈیوسر بڑی توجہ سے پڑھا کرتے تھے۔
ایک دن دورانِ پروگرام سٹوڈیو نمبر9 کے میزبان محمود علی نے میرے خط کے اسلوب کی تعریف کی اور اگلے دن میرے گھر کے پتے پر ریڈیو کی طرف سے ایک خط آیا کہ آپ کا اسلوب اتنا اچھا ہے اگر آپ ریڈیو پروگرام کرنا چاہتی ہیں تو آڈیشن کے لیے تشریف لے آئیں۔ مَیں نے خط کے ذریعے جواب دیا کہ میری کچھ خانگی مجبوریاں ایسی ہیں کہ مَیں گھر سے باہر نہیں نکل سکتی اس لیے معذرت چاہتی ہوں۔ یہ بات 1950-60ء کے عشرے کی ہے۔ بہت سے گھرانوں کے لوگ اپنی لڑکیوں کو ریڈیو پرگراموں میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ ٹیلی ویژن کا ابھی آغاز نہیں ہوا تھا۔ دل تو میرا بھی چاہتا تھا کہ مَیں بھی اپنی چند سہیلیوں کی طرح نام تبدیل کر کے ریڈیو میں پروگرام کروں۔ لیکن گھر والوں کے خوف سے ایسا نہ کر پائی۔ اس دوران ریڈیو کے پروڈیوسر آغا ناصر نے مجھے مجبور کر دیا کہ مَیں آڈیشن کے لیے ریڈیو آؤں۔ مَیں نے اُن سے وعدہ کیا، مقرر تاریخ پر آڈیشن دیا۔ میری آواز ریکارڈنگ کے بعد جب ڈرامہ سیکشن اور دیگر پروڈیوسرز کو سنوائی گئی تو سب کی ایک ہی رائے تھی کہ اس لڑکی کو کسی ڈرامے میں موقع دیا جائے۔ جب مَیں ریڈیو سے رخصت ہوئی تو سب نے مجھے مبارکباد دی لیکن مجھے معلوم تھا کہ گھر والے مجھے کبھی بھی ریڈیو پر ڈرامہ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ اس کے باوجود پروڈیوسر نے جناب سلیم احمد کے نئے ڈرامے کا سکرپٹ میرے حوالے کیا۔ اور کہا اس ڈرامے میں آپ کو جو کردار پسند ہو اس کی تیاری کر کے ہمیں اطلاع کیجیے۔ گھر آ کر جب ڈرامے کا سکرپٹ پڑھا تو مجھے یہ کام مشکل نہ لگا۔ گھر والوں کو قائل کیا تو مَیں نے جب ڈرامے میں بطور صداکار کام کیا تو میری آواز کی دھوم پورے ملک میں مچ گئی۔ یوں ریڈیو کے ذریعے میرا پہلی مرتبہ تعارف ہوا۔ ٹیلیویژن پر بھی مجھے آغا ناصر لائے۔ جب کراچی ریڈیو سے مَیں نے پہلا ڈرامہ کیا تو اس وقت میری عمر 14-15 برس تھی۔ ایک سال بعد مَیں ریڈیو ایران زاہدان کے لیے ایران چلی گئی۔ دس سال تک وہاں کام کیا۔ 1973ء میں پاکستان ٹیلیویژن پر خبرنامہ پڑھا اور ریڈیو پاکستان پر خبریں باقاعدگی سے پڑھنا شروع کیں۔ 1985ء میں بی بی سی لندن کی اُردو سروس سے وابستہ ہوئی۔ پھر کچھ عرصے بعد وائس آف جرمنی کے ساتھ وابستہ ہو گئی۔
ثریا شہاب یہ سب کچھ بتاتے ہوئے اچانک کہنے لگیں لکھنے لکھانے کا شوق مجھے بچپن سے ہی تھا۔ بچوں کے مختلف رسائل میں نظمیں اور کہانیاں لکھ کر مَیں نے اپنے سفر کا آغاز کیا۔ شاعری پھر مجھ سے نہ ہو سکی اور مَیں نثر کی طرف آ گئی۔ لندن میں کچھ عرصہ ایک اخبار کے لیے رپورٹنگ بھی کی۔ اسی اخبار کے لیے کالم لکھے۔ شہرت اتنی ملی کہ پوری دنیا میں جہاں بھی جاؤں پاکستان کے لوگ مجھے پہچان لیتے ہیں۔ جس پر مَیں خدا کا شکر ادا کرتی ہوں۔ چمکیلی آنکھوں والی ثریا شہاب میری اہلیہ کے ساتھ بیٹھی جب چائے پی رہی تھیں تو کہنے لگیں مجھے ملتان میں آنا ہمیشہ اچھا لگتا ہے۔ یہاں کے لوگ اور اولیائے کرام کی درگاہیں میرے لیے کشش کا باعث ہیں جب بھی مجھے فرصت ملتی ہے تو عمر علی خان بلوچ سے کہتی ہوں ملتان کا سفر کرنے کو جی چاہ رہا ہے۔
یہ وہ زمانہ تھا جب موبائل کا تصور نہیں تھا اور میرے گھر میں لوگ اُن کے ساتھ تصاویر بنوا رہے تھے۔ اسی دن رات کے 9بجے مَیں نے ٹیلیویژن آن نہیں کیا کیونکہ خبرنامے والی ثریا شہاب اپنی زندگی کی خبریں ہمیں سامنے بیٹھ کر سنا رہی تھیں۔ اس دن ان کی ساری گفتگو ملکی خبروں سے زیادہ اہم تھیں۔ اور پھر اس کے بعد ثریا شہاب سے بالمشافہ ملاقات نہ ہو سکی۔ لیکن ہم انہیں گاہے گاہے ٹیلیویژن اور ریڈیو پر دیکھتے اور سنتے رہے۔ آج جب مَیں یہ کالم لکھ رہا ہوں تو میرے ہاتھ میں اُن کا ناول ’’سفر جاری ہے‘‘ ہے۔ جس کے آغاز میں انہوں نے لکھا تھا:
’’یہ کہانی ۔۔۔۔۔۔ اس جدوجہد کی کہانی ہے جو اس دیش کے بہت سے جوانوں نے آنکھ کھولتے ہی شروع کی تھی۔ اور اب تک جاری ہے۔ اس عرصے میں حالات بہت کچھ بدل چکے ۔۔۔۔۔۔ مگر بنیادی مسائل اسی طرح ہیں۔ شعور کی منزلوں کی جانب پیشقدمی ہوئی ہے بات تھوڑی سی آگے بڑھی ہے۔ مگر سفر جاری ہے۔ یہ کہانی ۔۔۔۔۔۔ پاکستان میں بسنے والے بہت سے نوجوانوں کی کہانی ہے ۔۔۔۔۔۔ جن کے خوابوں میں ایک خوشحال سرسبز پاکستان بستا ہے۔ راہی تھک کر نہیں بیٹھے سفر جاری ہے ۔۔۔۔۔۔ یہی بات اہم ہے۔‘‘
یہ ناول آج کل ایک مرتبہ پھر میرے مطالعے کی میز پر ہے۔ اور مَیں سوچ رہا ہوں کہ ثریا شہاب کہاں ہیں؟ مَیں نے عمر علی خان بلوچ کی بیٹی سے رابطہ کیا تو وہ بھی ایک دم اُداس ہو کر کہنے لگیں کہ تقریباً دو برس پہلے ہم لاہور اُن سے ملنے گئے تھے۔ وہ اپنی یادداشت کھو بیٹھی تھیں لیکن انہوں نے عمر علی خان بلوچ کو پہچان لیا تھا۔ ثریا شہاب کے بچے یہ سب دیکھ کر حیران ہوئے کہ ہم ہر وقت اُن کی تیمارداری کرتے ہیں لیکن وہ ہمیں پہچان نہیں پاتیں۔ حیران کن بات ہے کہ وہ عمر علی خان کو پہچان گئیں۔ مَیں نے پوچھا کہ آج کل ثریا شہاب کہاں ہیں کہنے لگیں کوئی معلوم نہیں اُن کی صحت کیسی ہے پاکستان میں کس جگہ موجود ہیں؟ مَیں تو خود اُن سے رابطہ کرنا چاہ رہی تھی۔ قارئین کرام پاکستان کی ایک نامور نیوزکاسٹر، صداکار، ناول نگار، افسانہ نگار ثریا شہاب کی زندگی کا سفر کیسا ہے؟ ہم میں سے کسی کو معلوم نہیں۔ مَیں نے وکی پیڈیا سے لے کر فیس بک پر انہیں تلاش کرنا چاہا لیکن کچھ معلوم نہ ہو سکا۔ بطور نیوز کاسٹر سارے زمانے کو پوری دنیا کی خبریں دینے والی ثریا شہاب کی کسی کو بھی خبر نہیں۔ کتنا بڑا المیہ ہے کیا کوئی مجھے بتا سکتا ہے کہ وہ آج کل کس دنیا میں بستی ہیں؟
(بشکریہ:روزنامہ ایکسپریس )