وہ کسی بے جان بت کی مانند ساکت و جامد تھی. نرم و نازک گال پرپڑنے والے زوردار طمانچے نے اسے اپنے زندہ ہونے کا احساس دلایا. . اس نے ڈبڈباتی آنکھوں سے ملک صاحب کے غیض و غضب سے سرخ ہوتے چہرے کی جانب دیکھا.
‘کس چیز کی کمی تھی تجھے کتیا. کون سی ایسی ضرورت تھی تیری جو میں نے پوری نہیں کی. شرم نہ آئی تجھے یہ سب کرتے ہوئے’
اسے ملک صاحب کی آواز کہیں دور سے آتی ہوئی محسوس ہوئی.
شرم. ہاں واقعی مجھے شرم آنا چاہیے تھی. اس نے تاسف سے سوچا. اس نے اپنے من کو ٹٹولنے کی کوشش کی. اسے حیرت ہوئی کہ کوشش کے باوجود ندامت کی کوئی رمق دور دور تک موجود نہ تھی.
جوانی کے جذبات بھی منہ زور گھوڑے کی مانند ہوتے ہیں اور اس گھوڑے کو لگام ڈالنا ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہوتی. کسی کو چاہنے اور چاہے جانے کا جذبہ جوانی میں قدم دھرتے ہی کسی چور دروازے سے من کے آنگن میں آ براجمان ہوتا ہے. وہ اور خالد بھی کالج میں قریب آتے چلے گئے. دلچسپی پسندیدگی کی حدوں کو بھی پار کرنے لگی. ان دنوں.اسے ایسا لگتا تھا جیسے وہ کسی طلسمی دنیا میں جی رہی ہے. رات رات بھر موبائل فون کان سے لگائے نہ جانے کیا کیا باتیں کرتے جاتے. چھپ چھپ کر ملنے کا بھی اپنا ہی لطف تھا. قربت اتنی بڑھتی چلی گئی کہ فاصلہ بوجھ لگنے لگا. جوانی کسی پابندی اور رکاوٹ کو کہاں خاطر میں لاتی ہے. اس نے اپنا آپ خالد کو سونپ دیا.اس تعلق نے اسے سرور اور مستی کی ایک نئی دنیا سے آشنا کروایا. وہ جیسے ہواؤں میں اڑتی پھرتی تھی. مگر ایک دن تو یہ طلسم ٹوٹنا ہی تھا. وہ بھی ہوا میں اڑتی اچانک زمین پر آن گری. گھر والے اس کا رشتہ طے کر رہے تھے. ملک صاحب اس کے دورپار کے رشتہ دار ہی تھے. وہ اس پنجرے کی قیدی بننے سے پہلے بڑا پھڑپھڑائی تھی. وہ جانتی تھی کہ مرضی سے شادی اس کے خاندان میں کتنا بڑا جرم سمجھی جاتی تھی. زمینداروں کا یہ عزت دار خاندان اپنی پگڑی پر ایسا کوئی داغ کیسے برداشت کر سکتا تھا. اس نے یہاں سے کہیں دور بھاگ جانا چاہا. مگر عین موقع پر خالد ہمت ہار بیٹھا. آخر وہ دن بھی آن ہی پہنچا جب وہ عروسی لباس میں ملبوس ایک اجنبی شخص کے حوالے کر دی گئی. اس نے بھی اسے قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کر لیا.
ملک صاحب بہت اچھے خاوند ثابت ہوئے. ان میں روائتی زمینداروں والی کوئی بات ہی نہ تھی. روپے پیسے کی تو یہاں بھی کوئی کمی نہ تھی. اس کی ہر ضرورت فوراً پوری ہو جاتی.ملک صاحب اس کا ہرطرح سے خیال رکھنے کی کوشش کرتے. وقت کا پہیہ گھومتا رہا. اور خدا نے انہیں ایک بیٹے سے نواز دیا. کس قدر خوش تھی وہ بیٹے کی پیدائیش پر. اور ملک صاحب بھی پھولے نہ سماتے تھے. انہیں جائداد کا وارث مل گیا تھا. رابعہ کی قدر ان کی نظروں میں اور بڑھ گئی تھی. کس قدر خوش اور مطمئن زندگی تھی. مگر نہ جانے کیوں اس سب کے باوجود اسے اپنے اندر ایک خلا سا محسوس ہوتا تھا. کہیں جیسے کوئی کمی سی تھی. سب کے ساتھ رہتے ہوئے بھی جیسے خود کو تنہا محسوس کرتی تھی.
اورپھر ایک پرانی سہیلی کے گھر اس کی عابد سے ملاقات ہوئی. متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے عابد میں کچھ ایسا تھا کہ وہ اس کی جانب کھنچتی چلی گئی. عابد کی نظروں میں ایک خاموش سی دعوت تھی. اس کی باتیں اور ذومعنی فقرے اس کے رابعہ کے دل کے کسی گوشے میں چھپا کر رکھے جذبات میں ہلچل پیدا کر رہے تھے. کبھی انسان کی زندگی میں بیتے ہوئے کچھ کیف آفریں لمحے ہمیشہ کے لیے اس کے لاشعورکا حصہ بن جاتے ہیں. جیسے کوئی نشے کا عادی انسان اپنے نشے کے بغیر بےکل رہتا ہے. کوئی قیمتی سے قیمتی چیز بھی اس کی یہ کمی پوری نہیں کر پاتی. اورپھر عابد نے اس کی یہ کمی پوری کر دی. وہ پھر خود کو اسی طلسماتی سی دنیا میں محسوس کرنے لگی. دیر تک موبائل پر چوری چھپے باتیں اور چھپ چھپ کر ملاقاتیں. اپنا راز افشاء ہو جانے کا خوف. کیسی لذت تھی اس سب میں. ملک صاحب نے اسے سب کچھ دیا تھا مگراس لذت کی کمی اسے ادھورے پن کا احساس دلاتی رہتی تھی. اسے شائد عابد سے محبت بھی نہ تھی. وہ تو اس کا نشہ پورا کرنے کا ایک ذریعہ تھا. اس لیے اس نے اس بات کی بھی کوئی پرواہ نہ کی کہ عابد دراصل اس کی دولت کی لالچ میں اسے استعمال کررہا ہے. وہ دونوں ہی دراصل ایک دوسرے کی ضرورت کو پورا کر رہے تھے. وہ عابد کی ہر مالی ضرورت پورا کرتی اور عابد اس کی تشنہ خواہشات کی تکمیل کا ذریعہ بنا ہوا تھا. جب ملک صاحب اس کے قریب آتے تو وہ آنکھیں موند کر عابد کے ساتھ گزارے قربت کے لمحات میں کھو جاتی. اپنے بدن پر رینگتے ملک صاحب کے ہاتھ اسے عابد کے ہاتھ محسوس ہوتے اور اس کے انگ انگ میں طلب جاگ اٹھتی. ملک صاحب اس سب سے بے خبر جسمانی تعلق میں در آنے والی گرمجوشی پر شاداں تھے. اور آخر ایک دن ملک صاحب نے رابعہ کو عابد سے موبائل فون پر بات کرتے سن لیا. وہ ایک دھچکا لگا. مگر انہوں نے یہ بات رابعہ پر ظاہر نہ ہونے دی اور خاموشی سے سارے معاملے کی تحقیق کرتے رہے.
طلاق کا لفظ سن کر رابعہ ایک دم خیالوں کی دنیا سے باہر آگئی.
"میں تجھے طلاق دیتا ہوں گھٹیا عورت. اور اپنے بچے کو بھی تیرے غلیظ سائے سے دور رکھوں گا. ابھی ڈرائیور تجھے تیرے گھر چھوڑ آئے گا. دفعہ ہو جا میرے گھر سے”
ملک صاحب کی آنکھوں سے شعلے نکل رہے تھے. اچھا تو یہ سب یوں ہی ختم ہونا تھا. گاڑی سی سیٹ پر بیٹھ کر اس نے ایک ٹھنڈی سانس بھرتے ہوئے سوچا. گاڑی اپنی منزل کی جانب روانہ ہو گئی تھی. اس نے آنکھیں موند کر سر کی پشت گاڑی کی سیٹ پر ٹکا لی.
فیس بک کمینٹ