آئینی ترمیم کے بعد سیاست مسلسل الجھی ہوئی ہے۔ تاہم حکومت کو اب تصادم اور تضادات میں اضافہ کی بجائے مصالحت و مفاہمت کے راستے کا انتخاب کرنا چاہئے۔ 26 وین آئینی ترمیم کے ذریعے کسی حد تک عدلیہ سے لاحق اندیشوں کا سد باب کرلیا گیا ہے ۔اس کے بعد حکومت سے ایسے سنجیدہ اقدامات کی توقع کرنا درست ہوگا جو اداروں کے علاوہ سیاسی پارٹیوں میں ٹکراؤ کی صورت حال سے باہر نکالنے کا باعث بنیں۔
چیف جسٹس کے تقرر کے لیے قائم ہونے والی پارلیمانی کمیٹی رات گئے تک نئے چیف جسٹس کا انتخاب نہیں کرسکی تھی۔ اگرچہ عام طور سے یہی قیاس کیا جارہا ہے کہ حکومت کسی صورت جسٹس منصور علی شاہ یا جسٹس منیب اختر کو اس عہدے پر فائز نہیں کرنا چاہے گی۔ اس کے باوجود امید کرنی چاہئے گردش کرنے والی افواہیں اور قیاس آرائیاں درست نہ ہوں اور عدلیہ کے ’احتساب‘ کے نقطہ نظر سے کی جانے والی چھبیسویں آئینی ترمیم حکومت کے اپنے غیر جمہوری ارادوں کا اشتہار نہ بن جائے۔ موجودہ پارلیمانی کمیٹی فیصلہ کرتے ہوئے مستقبل کے لیے ایک مثبت روایت کا آغاز کرسکتی ہے۔ اس لیے اگر سینارٹی اور میرٹ کو دیکھتے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ کو چیف جسٹس بنایا جائے گا تو اس سے حکومت اپنی نیک نیتی ثابت کرسکے گی اور ملک میں چیف جسٹس کی تقرری کے لیے ایک مثبت اور اچھی روایت کا آغاز ہوگا۔ یعنی قانونی اختیار کے باوجود پارلیمانی کمیٹی غیر ضروری طور پر کسی جج کو سینارٹی کی بنا پر چیف جسٹس بنانے کی راہ میں رکاوٹ نہ بنے۔
اس حوالے سے پیپلز پارٹی سے اہم کردار ادا کرنے کی امید کی جاسکتی ہے ۔ بلاول بھٹو زرداری چند ہفتے پہلے یہ یقین دلانے کے لیے کہ کوئی خاص جج نئی آئینی ترمیم کا ٹارگٹ نہیں ہے یہ اعلان کرچکے ہیں کہ مجھے اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ ملک کے آئیندہ چیف جسٹس کا نام منصور علی شاہ ہوگا۔ اس بیان کے باوجود اگر پیپلز پارٹی اپنے مسلم لیگی ساتھیوں کو عقل کے ناخن لینے پر قائل کرنے کی بجائے، کسی دوسرے جج کو اس عہدہ پر فائز کرنے کے فیصلہ میں شامل ہوتی ہے تو وہ بھی ملک میں ایک بری روایت قائم کرنے میں حصہ دار ہوگی۔ کسی قانون سازی یا آئینی ترمیم کا ہرگز یہ مقصد نہیں ہونا چاہئے کہ اس کے ذریعے محض برسر اقتدار گروہ کے ’مفادات‘ کا تحفظ کیا جائے بلکہ اس کا مقصد جمہوری اصولوں اور بنیادی حقوق کی پاسبانی ہونا چاہئے۔ یہ واضح ہونا چاہئے کہ اس وقت جو سیاسی پارٹیاں شریک اقتدار ہیں، وہ ہمیشہ اس پوزیشن میں نہیں رہیں گی۔ اگر ملک میں جمہوری نظام نے کام کرنا ہے تو آنے والے وقت میں اس وقت اپوزیشن کرنے والی پارٹیاں بھی اقتدار میں آسکتی ہیں۔ لہذا اب اگر بری روایت قائم کی گئی تو آنے والے سالوں میں کوئی دوسری سیاسی پارٹی اسی بری روایت کا سہارا لے کر موجودہ سیاسی پارٹیوں کے لئے مسائل پیدا کرے گی۔
جسٹس منصور علی شاہ کے خلاف حکومت کا مقدمہ محض مخصوص نشستوں کے بارے میں ان کی رائے سے ہے۔ کسی بھی حکومت کو کسی جج کی قانونی رائے یا فیصلوں کی بنیاد پر اس کے جائز حق سے محروم رکھنے یا سینارٹی کی بنیاد پر جائز عہدہ دینے سے انکار نہیں کرنا چاہئے۔ حکومت کو یہ ثابت کرنا ہے کہ 26 ویں ترمیم کے تحت سینارٹی کے مطابق چیف جسٹس مقرر کرنے کے اصول کو ترک کرنے اور پارلیمانی کمیٹی کو آئیندہ چیف جسٹس کا انتخاب کرنے کا حق دینے کا مقصد ججوں کو دباؤ میں لانے کی کوشش کرنا نہیں ہے۔ بلکہ اس سے عدالتی نظام کو مستحکم بنیادوں پر استوار کرتے ہوئے کسی ایسے جج کو چیف جسٹس کے عہدے پر فائز ہونے سے روکنا ہے جو اپنی کارکردگی، قانونی تفہیم یا سیاسی تعصب کی وجہ سے یہ عہدہ سنبھالنے کا اہل نہ ہو۔ کمیٹی اس استحقاق کو جائز طریقے سے استعمال کرکے اور حقیقی میرٹ کی بنیاد پر فیصلہ کرکے ہی یہ ثابت کرسکتی ہے کہ عدلیہ کی اصلاح کے لیے ترمیم لانے کا مقصد کسی ایک حکومت کی سیاسی خواہشات کی تکمیل نہیں تھا بلکہ ا س سے حقیقی معنوں میں اصلاح احوال کی ضرورت تھی۔ سپریم کورٹ کے سیاسی کردار کو محدود کرنے کا اہتمام آئینی بنچ کے قیام کے ذریعے کرلیا گیا ہے۔ اب پارلیمانی کمیٹی اور حکومت کو یہ ثابت کرنا ہے کہ اسے سپریم کورٹ کے ججوں کی خود مختاری سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ کو ان کا جائز حق دے کر ہی یہ مقصد حاصل ہوگا۔
اگر پارلیمانی کمیٹی تین سینئر ججوں میں سے سب سے جونئیر جج کو چیف جسٹس بنانے کا فیصلہ کرتی ہے تو اس سے ملک کی اعلیٰ عدلیہ اور حکومت کے درمیان غیر ضروری چپقلش پیدا ہوگی اور ملک میں سیاسی تصادم بھی جاری رہے گا۔ اس کے علاوہ مختلف وکلا تنظیموں کی طرف سے بھی احتجاج دیکھنے میں آئے گا۔ گو کہ ایسے کسی احتجاج کی عدلیہ بحالی تحریک جیسی شکل اختیار کرنے کے امکانات موجود نہیں ہیں لیکن عدلیہ اصلاح ایجنڈے کے حوالے سے کیے جانے والے بلند بانگ دعوؤں کا پول ضرور کھل جائے گا اور حکومت اپنی پوزیشن واضح نہیں کرسکے گی۔
جسٹس منصور علی شاہ کے خلاف حکومتی شبہات کے لیے تحریک انصاف نے ضرور راہ ہموار کی ہے۔ پارٹی کے لیڈروں نے جسٹس منصور علی شاہ کو ’اپنا جج‘ ثابت کرنے کے لیے بیانات دے کر عدلیہ پر غیر ضروری طور سے اثر انداز ہونے اور اعلیٰ عدلیہ کے ججوں میں تقسیم کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی ہے۔ حکومت کو اس اشتعال انگیزی کا شکار ہونے سے بچنا چاہئے ورنہ یہی سمجھا جائے گا کہ پارلیمنٹ میں ناکامی کے بعد تحریک انصاف سیاسی قبولیت کے بیانیہ میں ایک بار پھر حکومت اور اس میں شامل پارٹیوں کو شکست دینے میں کامیاب رہی ہے۔ یہ صورت حال حکومت کے لیے تکلیف دہ اور ملک کے لیے مشکلات کا باعث بنے گی۔ اس وقت سیاسی اختلافات کو ذاتی لڑائی بنانے سے گریز کرکے عوام کو یہ باور کرانے کی ضرورت ہے کہ آئینی ترمیم ہو یا کوئی انتظامی فیصلہ ، حکومت عوام کی سہولت اور ملک کے وسیع تر مفاد میں کام کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ یاد رکھنا چاہئے کہ کوئی چھوٹی سی ٹھوکر حکومت کو بدنیت ثابت کرنے میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ حکمران پارٹیوں کو ایک مضبوط اور مقبول اپوزیشن کا سامنا ہے۔ پارلیمانی جمہوریت کے اصول کے تحت حکومت کو اس عوامی تائید کا احترام کرنا چاہئے۔
حکومت نے ایک آئینی ترمیم کے لیے بہت سا قیمتی وقت صرف کیا ہے۔ اب اس سے آگے بڑھنے اور 26 ویں ترمیم کے بعد رونما ہونے والے حالات کا جائزہ لے کر معاملات طے کرنے کی ضرورت ہے۔ ان میں سے سب اہم عمران خان کی حراست کے علاوہ تحریک انصاف کے ساتھ تعلق کی نوعیت ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ عمران خان خود سیاسی فریقین کے ساتھ مل کر چلنے پر آمادہ نہیں ہیں لیکن اس حقیقت کو فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ عمران خان کو ناجائز طور سے قید کیا گیا ہے۔ ان کے خلاف کسی مقدمہ کا کوئی حتمی فیصلہ موجود نہیں ہے اور اب تک ان کے خلاف جو قانونی کارروائی دیکھنے میں آئی ہے ، اس میں ٹھوس شواہد موجود نہیں تھے۔ یا تو حکومت واضح اور درست ثبوتوں کے ساتھ شفاف عدالتی کارروائی میں ان کے خلاف کوئی قصور ثابت کرنے کا اہتمام کرے یا انہیں رہا کیا جائے ۔ محض یہ عذر کہ وہ رہا ہوکر حکومت کے لیے سیاسی خطرہ بن جائیں گے، کسی سیاسی لیڈر کو گرفتار رکھنے کے لیے کافی نہیں ہے۔
اسی طرح سانحہ9 مئی کی بنیاد پر تحریک انصاف کے سینکڑوں کارکنوں اور لیڈروں کو قید کیا گیا ہے۔ ان میں سے ایک سو کے لگ بھگ تو فوجی عدالتوں میں مقدمات کا سامنا کررہے ہیں۔ ابھی تک یہ دعوے کیے جاتے ہیں کہ اس معاملہ میں اعلیٰ قیادت اور دیگر لوگ ملوث رہے ہیں یا انہیں عدالتوں سے ’سیاسی بنیادوں‘ پر رعایت حاصل ہوئی ہے۔ البتہ قانونی معاملات میں ایسی عذر تراشیاں مفید نہیں ہوسکتیں۔ یہ استغاثہ کا کام ہے کہ وہ کسی جرم کا ارتکاب کرنے والوں کے خلاف ثبوت فراہم کرے۔ اگر استغاثہ اپنا فرض پورا نہیں کرسکتا تو ملزمان اور عدالتوں کو اس کا ذمہ دار قرار دینا درست نہیں۔
ملکی سیاسی ماحول میں کشیدگی ختم کرنے کے لیے عمران خان کے خلاف الزامات اور مقدمات میں شفافیت و عجلت کے علاوہ سانحہ 9 مئی کے حوالے سے معاملات طے ہونا ضروری ہے۔ اگر بوجوہ اس حوالے سے سیاسی مفاہمت کا امکان نہیں ہے تو حکومت کا فرض ہے کہ تقریباً ڈیڑھ سال پہلے ہونے والے ان مظاہروں کے بارے میں تمام معلومات حقیقی تناظر میں سامنے لائے اور پاکستانی عوام پر واضح کرے کہ کیوں اس روز ہونے والی توڑ پھوڑ ملکی سلامتی اور قومی مفاد کے خلاف تھی۔ اور کیوں اس میں ملوث لوگوں کے ساتھ رعایت نہیں کی جاسکتی۔ شفافیت اور مناسب وقت میں قصور واروں کو سزائیں دلانے کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہ تو موجود ہے اور نہ ہی قابل قبول ہوگا۔ اس لیے حکومت کو عسکری قیادت کے ساتھ مل کر اس معاملہ پر حتمی اور مناسب فیصلہ کرنا چاہئے۔
پاکستان گوناں گوں معاشی، سفارتی اور اسٹریٹیجک مسائل کی وجہ سے مسلسل تصادم اور تنازعات کا شکار نہیں رہ سکتا۔ اس حوالے سے معاملات خراب کرنے والے عناصر کا تعلق خواہ حکومت سے ہو یا اپوزیشن سے، انہیں وسیع تر قومی مفاد کا محافظ نہیں کہا جاسکے گا۔
(بشکریہ:ٖکاروان ناروے)
فیس بک کمینٹ