اسرائیل نے بالآخر ایران پر وہ جوابی حملہ کردیاہے جس کے بارے میں یکم اکتوبر کے بعد سے انتظار کیا جارہا تھا۔ البتہ یہ کہنے میں مضائقہ نہیں ہونا چاہئے کہ یہ حملہ نپا تلا اور توقعات کے برعکس زیادہ خطرناک نہیں تھا۔ امریکہ اور اسرائیل نے اس حملہ کے بعد یکساں طور سے ایران کو اشتعال میں اضافہ نہ کرنے کا مشورہ دیا ہے۔
ایران کے نیم سرکاری خبر رساں ادارے ’تسنیم‘ نے کہا کہ’ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیل کو مناسب ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا‘۔ تاہم فوری طور سے تہران کی طرف سے کوئی شدید بیانات سامنے نہیں آئے۔ ملک کے روحانی پیشوا آیت اللہ خامنہ ای یا صدر مسعود پزشکیان نے فوری طور سےکوئی تبصرہ نہیں کیا۔ یہ قیاس تو کیا جاسکتا ہے کہ ایرانی لیڈر جلد ہی اس حوالے سے تند و تیز بیانات جاری کریں گے لیکن کیا وہ واقعی ایک ایسے موقع پر مشرق وسطیٰ میں کشیدگی بڑھانا چاہیں گے جس وقت اسرائیل کے تابڑ توڑ حملوں اور امریکی حکومت کی مسلسل حوصلہ افزائی کی وجہ سے اسرائیل نہ صرف غزہ میں حماس کی کمر توڑ چکا ہے بلکہ لبنان میں حزب اللہ اور یمن میں حوثیوں کو بھی شدید نقصان پہنچا چکا ہے۔
اسرائیل نے گزشتہ دنوں غزہ میں حماس کے لیڈر یحییٰ سنوار کو ہلاک کیا تھا۔ اسے اسرائیل کی بہت بڑی کامیابی قرار دیا جارہا ہے۔ یہ واضح نہیں ہے کہ سنوار کے منظر نامہ پر نہ رہنے سے حماس کی عسکری حکمت عملی کو کتنا نقصان پہنچا ہے لیکن اس میں بھی شبہ نہیں ہونا چاہئے کہ ایک مہلک حملے میں یحییٰ سنوار جیسے جری اور مستقل مزاج لیڈر کی ہلاکت سے حماس کے جنگجوؤں کے حوصلے ضرور پست ہوئے ہوں گے۔ غزہ کے چھوٹے سے علاقے میں ایک سال سے زائد مدت میں اسرائیل نے حماس کی عسکری طاقت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ اس کی بیشتر تنصیبات تباہ کی جاچکی ہیں اور ہزاروں جنگجو کام آئے ہیں۔ کسی کو حماس کی اصل طاقت اور جنگ جاری رکھنے کی صلاحیت کا علم نہیں ہے لیکن عام طور سے محسوس کیا جارہا ہے کہ حماس بہر حال کمزور ہوئی ہے ۔ خاص طور سے لبنان میں حزب اللہ پر اسرائیل کے اچانک اور خطرناک حملوں کے بعد حماس کی اعانت میں شدید کمی بھی دیکھنے میں آرہی ہے۔ ان حالات ہی میں یحیی سنوار کی ہلاکت کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن نے نئی صورت حال کو جنگ بندی اور امن قائم کرنے کا ایک نیا موقع قرار دیا تھا۔ اور امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن ایک بار پھر اسرائیل اور مشرق وسطیٰ کے دورے پر آئے تھے تاکہ غزہ اور لبنان میں جنگ بندی کے لئے میدان ہموار کیا جائے۔
اس پس منظر میں اسرائیل کے ایران پر جوابی حملے کو دو طرح سے سمجھا جاسکتا ہے۔ ایک یہ کہ اسرائیل جنگ بندی کی بجائے جنگ میں توسیع کا خواہاں ہے اور اب وہ ایران کو بھی لپیٹ میں لے کر اپنے خلاف سرگرم تمام عسکری قوتوں کو کمزور اور بے بس کرنے کا تہیہ کرچکا ہے۔ تاہم اگر تہران ، خوزستان اور ایلام میں اسرائیلی حملوں کی نوعیت کو دیکھا جائے تو یہ بھی قیاس کیاجاسکتا ہے کہ ’حساب برابر‘ کرنے کے لیے اسرائیل نے ایرانی میزائل حملے کا جواب دے دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی اسرائیلی فوجی قیادت نے واضح کیا ہے کہ یہ حملہ دراصل ایرانی اشتعال انگیزی کا جواب تھا ۔ یعنی اسرائیل اب یہ سلسلہ جاری رکھنا نہیں چاہتا۔ البتہ متنبہ کیا گیا ہے کہ اگر ایران نے ایک بار پھر جوابی کارروائی کی تو اسرائیل کا جواب تباہ کن ہوگا۔ یہ ویسا ہی بیان ہے جو یکم اکتوبر کو اسرائیل پر دو سو بلاسٹک میزائل پھینکنے کے بعد ایرانی رہنما آیت اللہ خامنہ ای نے جاری کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایران نے اس حملہ میں حزب اللہ کے لیڈر حسن نصراللہ اور حماس کے لیڈر اسماعیل ہنیہ کی موت کا بدلہ لیا ہے ۔ البتہ اگر اسرائیل نے بات آگے بڑھائی تو ایران کا جواب تباہ کن ہوگا۔
ایران پر تازہ اسرائیلی حملے کو پورے تناظر میں دیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اسرائیل نے ایرانی میزائل حملے کا جواب دینے کے لیے لگ بھگ ایک ماہ انتظار کیا ہے۔ اس دوران میں اس کی امریکہ کے ساتھ مشاورت کاسلسلہ بھی جاری رہا ہے۔ اس مواصلت کے بارے میں جو میڈیا رپورٹس سامنے آتی رہی ہیں ، ان کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایران کی جوہری تنصیبات کو نشانہ بنانا چاہتے تھے تاکہ وہ گزشتہ ایک دہائی سے جس ایرانی خطرے کے بارے میں متنبہ کرتے رہے ہیں، اس کا سد باب کیا جاسکے۔ اس کے برعکس صدر جو بائیڈن کی امریکی حکومت اسرائیل پر دباؤ ڈالتی رہی ہے کہ ایران کی جوہری یا تیل کی تنصیبات کو نشانہ نہیں بنانا چاہئے بلکہ اسرائیلی جواب معتدل و متوازن ہو۔ وہ ضرور یہ واضح کردے کہ اسرائیل اپنی سلامتی پر ہونے والے حملے کا ضرور جواب دے گا لیکن اس کے ساتھ ہی مشرق وسطیٰ یا دنیا کو ایک نئی جنگ کی طرف دھکیلنے کا سبب نہ بنے۔ ایران کی جوہری تنصیبات کو موجودہ ایرانی حکومت کی ’ریڈ لائن‘ کہا جاسکتا ہے جبکہ تیل تنصیبات پر حملہ کرنے سے پوری دنیا کی معیشت متاثر ہونے کا امکان تھا۔ اسرائیل کے اعلان کے مطابق اس نے ایران کے فوجی اڈوں اور ان میزائل ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے جہاں سے اسرائیل پر میزائل داغے گئے تھے۔ اس کے علاوہ شاید میزائل بنانے کی ایک فیکٹری بھی نشانے پر تھی۔
ایرانی میڈیا کی خبروں کے مطابق اسرائیلی حملہ ناکام رہا ہے۔ سرکاری طور سے ان حملوں میں دو ایرانی فوجیوں کی ہلاکت کی اطلاع تو دی گئی ہے لیکن عام طور سے یہی باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اسرائیل ، ایران کو زیادہ نقصان پہنچانے میں کامیاب نہیں ہؤا۔ اسرائیلی حملوں میں شہری ہلاکتیں نہ ہونے کی وجہ سے بھی یہی تاثر قائم کیا جاسکتا ہے کہ اسرائیل جوابی کارروائی کو متوازن اور محدود رکھنا چاہتا تھا۔ اسرائیل نے حملوں کی تفصیل بتاتے ہوئے یہ تو کہا ہے کہ ان میں فوجی ٹھکانے اور میزائل اڈے نشانے پر تھے لیکن ایران کو زیر کرلینے کے بلند بانگ دعوے نہیں کیے گئے۔ کسی بھی تجزیہ نگار کے لیے ان حملوں میں ہونے والے نقصان کا صحیح اندازہ کرنا اسی طرح مشکل ہوگا جیسے یکم اکتوبر کو اسرائیل پر ایرانی حملے کے بعد بتانا دشوار تھا کہ اسرائیل کو کتنا نقصان برداشت کرنا پڑا ہے۔ تاہم جب طرفین اپنے نقصان کو چھپانے کی کوشش کرتے ہوں تو اس کی پروپگنڈا اہمیت سے قطع نظر یہ اشارہ بھی دیا جاتا ہے کہ یہ ایسا حملہ نہیں تھا جس کا ’نوٹس‘ لیا جائے۔ ایران کے پاس اب یہ موقع ہے کہ کسی بڑی جنگ سے بچنے کے لیے وہ موجودہ اسرائیلی حملے کو بھی ویسے ہی نظر انداز کردے جیسے اس نے اپریل میں اسرائیل پر اپنے پہلے میزائل حملے کے بعد اصفحان کے قرب جوار میں عسکری و فضائی تنصیبات پر اسرائیل کے جوابی حملے کو درگزر کردیا تھا۔ تاہم اب ایران کا کوئی سخت جواب مشرق وسطیٰ میں ایک نئی جنگ کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے کیوں کہ اس بار ایران کو کوئی ایسا وار کرنا پڑے گا جو حقیقی طور پر اسرائیل کو تکلیف پہنچائے اور اس کی عسکری صلاحیت پر براہ راست حملہ ہو۔
اس حوالے سے امریکہ کا مؤقف اسرائیل کے انتباہ کے مقابلے میں زیادہ قابل غور ہے۔ امریکہ نے بھی ایران کو جوابی کارروائی سے باز رہنے کا مشورہ دیا ہے۔ امریکی ترجمانوں کا کہنا ہے کہ وہ ایران پر ہونے والے اس حملے میں ملوث نہیں تھا لیکن اپنے تھاڈ ایئر ڈیفنس سسٹم کو چلانے کے لیے اسرائیل میں تقریبا ً ایک سو امریکی فوجی اہلکار تعینات ہیں۔ اس طرح کسی ممکنہ ایرانی جوابی کارروائی کے خلاف امریکہ براہ راست اسرائیل کے شانہ بشانہ جنگ میں شامل ہو سکتا ہے۔ یہ زیادہ پیچیدہ اور مشکل صورت حال ہوگی۔ ایران اگرچہ جنگ میں امریکی مداخلت کو سفارتی طور سے استعمال کرسکے گا لیکن عملی طور سے ایک تو اسرائیل میں جدید ترین امریکی میزائل شکن نظام کی موجودگی میں ایران کے لیے کوئی مؤثر فضائی حملہ ممکن نہیں ہوگا۔ دوسری طرف اس کا اپنا فرسودہ دفاعی نظام کسی بھی خطرناک اسرائیلی حملے سے دفاع کے قابل نہیں ہے۔
اس کے برعکس تحمل کا مظاہرہ کرکے ایران سفارتی سطح پر کچھ مراعات حاصل کرسکتا ہے۔ غزہ اور لبنان میں جنگ بندی سے اس کے حامی عسکری گروہوں کو از سر نو صف بندی کا موقع مل جائے گا ۔ اس کے علاوہ ایران کسی بڑی تباہی اور جنگ سے بھی محفوظ رہے گا۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سمیت متعدد عرب ممالک نے ایران پر اسرائیلی حملے کی مذمت کی ہے۔ یہ کسی حد تک ایران کی سفارتی کامیابی ہے۔ تاہم اس کے ساتھ ہی ان ممالک نے فریقین کو جنگ بڑھانے سے گریز کا مشورہ دیا ہے اور جنگ بندی کے ذریعے امن کا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔
آنے والے دنوں میں ایک طرف یہ واضح ہوگا کہ ایران پر اسرائیلی حملے سے درحقیقت کتنا نقصان ہؤا ہے تو اس کے ساتھ ایرانی قیادت کے طرز عمل سے دیکھا جاسکے گا کہ کیا اسرائیل کو اب جنگ بندی قبول کرنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے تاکہ غزہ کے لاکھوں محصورین اور جنگ زدہ لوگوں کو امداد کی فراہمی اور بحالی کا کام شروع ہوسکے۔
(بشکریہ:کاروان ناروے)
فیس بک کمینٹ