شام کے دارالحکومت دمشق پر قبضہ کرنے والے عسکری گروہ ہیئت تحریر الشام کو امریکہ و دیگر ممالک نے ’دہشت گرد گروہ ‘ قرار دیا ہؤا تھا ۔ تاہم ملک پر ربع صدی تک حکومت کرنے والے بشارالاسد کی حکومت کے خلاف اس گروہ کی کامیابی کے بعد مغربی ممالک اسے مثبت اور خوشگوار تبدیلی قرار دے رہے ہیں۔ حالانکہ بشار الاسد کی سیکولر حکومت کا خاتمہ امریکہ اور اس کے حلیف ممالک کے لیے تشویش کا سبب ہونا چاہئے ۔
اس تبدیلی قلب کی واحد اور اکلوتی وجہ بشار الاسد کے ایران اور روس کے ساتھ تعلقات کی نوعیت تھی۔ بشار الاسد کے زوال سے مشرق وسطیٰ میں ایرانی اثر و رسوخ میں شدید کمی واقع ہوگی اور روس بھی معاملات پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت سے محروم ہوجائے گا۔ اگرچہ روسی وزیر خارجہ نے شام میں اپنے بحری بیڑے اور فوجی ٹھکانوں کے بارے میں کسی تشویش کا اظہار نہیں کیا اور بظاہر کامیاب ہونے والے عسکری روسی مفادات کو براہ راست چیلنج کرنے کا ارادہ بھی نہیں رکھتے۔ لیکن وقت کے ساتھ شاید روس کو شام کے راستے مشرق وسطیٰ میں ویسا رسوخ حاصل نہ رہے جو اسےبشار الاسد اور ان کے والد حافظ الاسد کے ادوار میں حاصل رہ چکا ہے۔
شام میں بشارالاسد کے زوال کو کئی حوالوں سے دیکھا جاسکتا ہے لیکن سب سے اہم پہلو یہی ہے کہ کیسے بڑی طاقتیں اپنے مفادات اور اثر و رسوخ کے لیے عسکری گروہوں کو استعمال کرتی ہیں۔ کسی حکومت یا لیڈر کے ساتھ تعلقات کا تعین بھی انہی مفادات کی روشنی میں کیا جاتا ہے۔ شام میں گزشتہ 13 سال سے جاری خانہ جنگی اور پھر تمام بڑی طاقتوں کی مداخلت سے ملک کے مظلوم عوام کو جن حالات کا سامنا کرنا پڑا ہے، وہ ایک طویل اور افسوسناک انسانی المیہ ہے۔ لاکھوں شامی شہری ترکی ، لبنان و یگر ممالک میں پناہ گزین کیمپوں میں کسمپسری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ جو لوگ دوسرے ممالک میں نہیں جاسکے، انہیں ملک کے اندر ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے اور در بدر کی خاک چھانکنے پر مجبور ہونا پڑا۔
بشار الاسد کے ملک چھوڑنے کی خبر نشر ہونے کے بعد شامی عوام نے دمشق میں خوشی کا اظہار کیا اور جشن منایا۔ البتہ یہ کہنا مشکل ہے کہ شامی عوام کے مشکل دنوں کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ یہ بات تو طے ہے کہ ملک میں ایک ہی خاندان کی پچاس سالہ آمریت ختم ہونے سے شامی عوام کے لیے ا مید کی کرن ضرور روشن ہوئی ہے ۔ انہیں یقیناً امید ہوگی کہ اب شام میں امن قائم ہوگا اور تمام شہری مل جل کر اپنے ملک کی تعمیر نو میں مشغول ہوسکیں گے۔ البتہ ایک تو ابھی تک مستقبل کے حکومتی ڈھانچے کے بارے میں کوئی واضح تصویر سامنے نہیں آسکی۔ اس کے علاوہ شام میں امریکہ و روس سمیت متعدد ہمسایہ ممالک کے زیر اثر سرگرم گروہوں کی وابستگیوں کے بارے میں حتمی طور سے کچھ کہنا مشکل ہے۔ دمشق پر قبضہ کرنے والا عسکری گروہ اگر کوئی باقاعدہ نظام حکومت استوار کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے اور انتخابات کے ذریعے کوئی ایسی حکومت قائم ہوتی ہے جو تمام نسلی و مذہبی گروہوں کو انصاف اور شراکت داری کا احساس دلا سکے تو بتدریج ملک کے حالات بہتر ہوسکتے ہیں۔ لیکن یہ مقصد حاصل ہونے میں ابھی بہت وقت صرف ہوگا۔ اس دوران امریکہ و روس کے علاوہ ترکی و اسرائیل نئے حکومتی ڈھانچے پر اثر انداز ہونے کی اپنی سی کوشش کریں گے۔ اسرائیل نے تو فوری طور سے شام کے سرحدی علاقے میں بفر بنانے کے لیے اسرائیلی فوج کو شام میں داخل ہونے کا حکم بھی دے دیا ہے۔ اسی سے دیکھا جاسکتا ہے کہ ممالک کی جغرافیائی حدود کا احترام اسی وقت تک ممکن ہوتا ہے جب تک کوئی ملک خود ان کی حفاظت کی ذمہ داری اٹھا سکے اور بڑی طاقتیں اپنے معمولی علاقائی مفادات کے لیے مداخلت کے طریقوں سے باز رہیں۔
دمشق فتح کرنے والے عسکری گروہ ہیئت تحریر الشام کے سربراہ ابو محمد الجولانی نے اعلان کیا ہے کہ ریاستی ادارے بدستور کام کرتے رہیں گے اور سابقہ وزیر اعظم محمد جلالی فوری طور سے ان کی نگرانی کا فریضہ انجام دیں گے۔ محمد جلالی نے انتخابات کرانے اور ملک میں عوامی خواہشات کے مطابق حکومت کے قیام کی خواہش بھی ظاہر کی ہے لیکن اس کا حتمی فیصلہ قابض جنگجو گروہ ہی کرے گا۔ موجودہ حالات میں شام کو ہر طرف سے خطرات لاحق ہیں اور بڑے و ہمسایہ ممالک کے علاوہ مقامی طور پر ابھرنے والے گروہ بھی نئے نظام حکومت میں اپنا اثر و رسوخ حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ اس لیے بشار الاسد کے جانے کے بعد بھی جمہوری اور مضبوط حکومت قائم کرنے کا خواب شاید جلد شرمندہ تعبیر نہ ہوسکے۔ دیکھنا ہو گا کہ بشار الاسد کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کرنےوالا گروہ کیسے قومی یک جہتی کے لیے میدان ہموار کرتا ہے اور کوئی ایسا نظام استوار کیا جاتا ہے جس میں شامی عوام کو ہی اپنے ملک کی تقدیر کا فیصلہ کرنے کا حقدار سمجھا جائے اور کسی بیرونی مداخلت سے شام میں بحران سے بھرپور ایک نیا مشکل دور نہ شروع ہوجائے۔
روسی وزارت خارجہ کی اطلاعات کے مطابق سابق صدر بشار الاسد نے اقتدار چھوڑنے سے پہلے متحارب جنگی گروہوں سے رابطہ کیا تھا اور پرامن انتقال اقتدار پر راضی ہونے کے بعد ملک چھوڑ دیاتھا۔ دمشق پر اچانک قبضے اور عسکری گروہ کی طرف سے ٹیلی ویژن بیان میں اعلان جاری ہونے سے بھی ان روسی اطلاعات کی تصدیق ہوتی ہے۔ بشار الاسد نے اپنا قتدار ڈوبتے دیکھ کر ملک کو مزید خوں ریزی کی طرف دھکیلنے اور مزاحمت کرنے کی بجائے شکست قبول کرکے اقتدار چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ البتہ اسے حالات کی بدقسمتی کہا جائے گا کہ وہ اس کے باوجود اپنے ملک میں مقیم نہیں رہ سکے۔ بعد میں اس طیارے کے بارے میں متضاد و غیر مصدقہ اطلاعات بھی سامنے آتی رہی تھیں کہ ان کے طیارے کو حادثہ پیش آگیا ہے اور شاید وہ ہلاک ہوگئے ہیں۔ تاہم روسی خبررساں اداروں نے رات گئے خبر دی تھی کہ بشار الاسد اپنے اہل خاندان کے ہمراہ ماسکو پہنچ گئے ہیں جہاں انہیں پناہ دے دی گئی ہے۔
شام میں بشار الاسد کے زوال کے بعد ملک میں نئی اور قابل قبول حکومت کے قیام تک مشرق وسطیٰ کی صورت حال غیر واضح اور بے یقینی کا شکار رہے گی ۔ عام طور سے سمجھا جارہا ہے کہ اس تبدیلی سے روس اور ایران کو شدید دھچکہ لگا ہے ۔ یہ دونوں ممالک بشار الاسد کا اقتدار بچانے کے لیے کردار ادا کرتے رہے تھے۔ تاہم روس یوکرین جنگ میں مصروف ہونے کی وجہ سے ماضی کی طرح شامی حکومت کو عسکری امداد فراہم نہیں کرسکا۔ چند روز پہلے جب ہیئت تحریر الشام نے پیش قدمی شروع کی تھی اور ایک کے بعد دوسرے شہر پر قبضہ ہونے لگا تھا تو روسی فضائی نے ضرور کچھ بمباری کرکے اس پیش قدمی کو روکنے کی کوشش کی تھی لیکن اس کے بعد ابو محمد الجولانی کے عسکری جتھے کسی بڑی مزاحمت کے بغیر دمشق کی طرف پیش قدمی کرنے لگے تھے۔ آج صبح بشار الاسد کے ملک چھوڑنے کی اطلاعات اور دمشق پر کسی مزاحمت کے بغیر عسکری گروہ کے قبضے سے واضح ہورہا ہے کہ پس پردہ اس دن کی تیاری کرلی گئی تھی اور یہ انتقال اقتدار بشار الاسد کے علاوہ ماسکو اور تہران کی رضامندی سے ممکن ہؤا ہے۔ ملک کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے تو صورت حال غیر واضح ہے لیکن موجودہ صورت حال میں خوں ریزی سے بچنے کی کوشش کرنے والے ممالک یا لیڈروں کی تحسین ہونی چاہئے۔
شام کے حالات کوگزشتہ سال اکتوبر میں حماس کی طرف سے اسرائیل پر حملے اور اس کے جواب میں غزہ و لبنان میں اسرائیلی جنگی کارروائیوں سے علیحدہ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔ لبنان کے حزب اللہ گروہ کے خلاف اسرائیلی کارروائیوں نے اس گروہ کی عسکری طاقت کو ناقابل یقین نقصان پہنچایا تھا۔ یہ گروہ بڑی حد تک شام میں بشار الاسد کی حکومت کو عسکری سہولت بہم پہنچاتا تھا لیکن اسرائیلی حملوں کے بعد اس گروہ کی مرکزی قیادت بھی ہلاک کردی گئی اور حزب اللہ کی عسکری صلاحیت بھی کم ہوگئی۔ اس طرح بشار الاسد کی مشکلات میں اضافہ ہؤا۔ اس خلا کوہیئت تحریر الشام نے پورا کیا جو دمشق میں ایک اسلامی حکومت قائم کرنے کا اعلان کرتا ہے۔ اس کے سربراہ ابو محمد الجولانی ماضی میں القاعدہ اور داعش کے ساتھ وابستہ رہے ہیں تاہم گزشتہ ایک دہائی سے انہوں نے شام پر توجہ مبذول رکھی۔ ایک طرف انہوں نے داعش کے زوال کے بعد اس کے جنگجوؤں کو اپنے ساتھ ملایا تو دوسری طرف اپنی جد و جہد شام میں تبدیلی تک محدود رکھنے اور تمام نسلی و مذہبی گروہوں کی حفاظت کا عزم ظاہر کرکے خود کو قابل قبول متبادل کے طور پر پیش کیا۔ ان کی موجودہ کامیابی سے یہ بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ وہ بشار الاسد کے خلاف عسکری جد و جہد میں علاقے کی اہم طاقتوں سے مالی و عسکری امداد لینے میں بھی کامیاب رہے۔ ان میں خاص طور سے ترکی کا کردار اہم دکھائی دیتا ہے۔ تاہم یہ کہنا مشکل ہے کہ ترکی دمشق میں کوئی ایسی حکومت قائم کرانے میں کامیاب رہے گا جو بہر صورت اس کی پراکسی کے طور پر کام کرے ۔
جنگجوؤں کے عسکری پس منظر اور مسلسل حالت جنگ میں رہنے کی عادت کی وجہ سے بھی شبہ پیدا ہوتا ہے کہ شاید یہ عناصر کوئی قابل قبول اور مضبوط حکومت قائم نہ کرسکیں۔ اس وقت دنیا کی سب طاقتیں اور علاقائی ممالک کسی نہ کسی طور سے شام کے معاملات میں ملوث ہیں۔ صورت حال واضح ہونے میں ابھی کچھ وقت درکار ہوگا۔ اگر جنگجو گروہ متحد اور یکسو رہے اور نظام کو مستحکم رکھتے ہوئے کوئی متوازن اور معتدل نظام حکومت قائم کرنے پر اتفاق ہوگیا تو شام کے علاوہ مشرق وسطیٰ میں بھی امن کی جزوی امید کی جاسکتی ہے۔ تصادم و چپقلش کی صورت میں شام میں خانہ جنگی اور عسکری جد و جہد کا نیا دور شروع ہوسکتا ہے اور شامی عوام کی فوری خوشی وقتی بھی ثابت ہوسکتی ہے۔
(بشکریہ:کاروان ناروے)
فیس بک کمینٹ