ٹیکس نظام میں بہتری لانے اور اسے مربوط بنانے کے لئے وزیراعظم پریس کانفرنس کر چکے تو لا محالہ ان پر سوالات کی بوچھاڑ شروع ہو گئی، بعض اخبار نویس تو بریفنگ کے دوران ہی سوال پوچھنے کی کوشش کرتے رہے، شاید ان کا مقصد وزیراعظم کو پٹری سے اتارنا تھا اور انتہائی ضروری باتیں کرنے سے روکنا تھا مگر وزیر اعظم نے تحمل کامظاہرہ کیا اور اپنی بات تسلسل کے ساتھ جاری رکھی بعد میں سوال شروع ہوئے اور پھر سوالات کی طویل نشست کے بعد انہوںنے محسوس کیا کہ اب سوال ختم ہو گئے ہیں اور یار لوگ صرف یہ پوچھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ زلیخا عورت تھی یا مرد تو انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ آپ کے پاس سوالات نہیں رہے، اس لئے خدا حافظ اس لحاظ سے یہ محفل انتہائی یادگارا ور زندہ دلی کا شاہکار تھی۔ وزیراعظم نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ٹیکس کے نظام میں بہتری، ٹیکس کی شرح میں کمی اور ٹیکس کے دائرہ کار میں توسیع تمام سیاسی جماعتوں کے منشور میں شامل ہے۔ ٹیکس نا دہندگان کے خلاف کارروائی سے متعلق ایک سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ اس مرتبہ تادیبی کارروائی روایتی طریقے سے نہیں بلکہ ٹیکنالوجی کے ذریعے ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکس نادہندگان کے خلاف اقدامات سے متعلق فیصلہ پارلیمان کرے گی، ایمنسٹی سکیم صرف غیر ظاہر شدہ اثاثوں سے متعلق ہے، حکومت کو ریونیو کی ضرورت ہوتی ہے، اس وقت ان ڈائریکٹ ٹیکسیشن سے ریونیو حاصل کیا جاتا ہے، جتنی براہ راست ٹیکسیشن کم ہو گی بالواسطہ ٹیکسیشن اتنی ہی زیادہ ہو جائے گی، اس لئے ضروری ہے کہ اس نظام کو منصفانہ اور پائیدار بنایا جائے، ہم نے کوشش کی ہے کہ ٹیکس کے نظام میں جتنے سقم ہیں وہ ختم کئے جائیں۔ ٹیکس ایمنسٹی سکیم کے حوالے سے آرڈیننس سے متعلق سوال پر وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ عمومی طور پر اس طرح کی سکیم کو شروع کرنے کےلئے یہی طریقہ کار اختیار کیا جاتا ہے، جسے بعد میں پارلیمان میں پیش کیا جاتا ہے، سکیم سے متعلق آرڈیننس بھی پارلیمان میں جائے گا، تاہم یہ بات سب پر واضح ہو جانی چاہیے کہ تمام شہریوں کو ٹیکس ریٹرن فائل کرنا ہو گا اور اب کوئی بھی ٹیکس چوری نہیں کر سکے گا۔ حالیہ نجی دورہ امریکہ سے متعلق سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ یہ ان کا نجی دورہ تھا، پاکستان کا موقف اجاگر کرنے کے لئے ایک موقع ملا جس سے میں استفادہ کیا جبکہ کچھ عرصہ قبل امریکی نائب صدر نے بھی مجھ سے کہا تھا کہ جب آپ امریکہ آئیں تو مجھ سے ملاقات کریں، حالیہ دورے کے دوران امریکی نائب صدر سے میری ملاقات ہوئی، اس موقع پر امریکہ میں پاکستان کے دفاعی اتاشی بھی ہمراہ تھے میں گزشتہ چالیس سال سے امریکہ کا سفر کرتا چلا آ رہا ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ تمام لوگوں کو سیکورٹی کے عمل سے گزرنا چاہیے میں نے خود بل کلنٹن کو سیکورٹی کے عمل سے گزرتے ہوئے دیکھا ہے میں خود بھی اسی عمل سے گزرا اور میرے خیال میں اس سے عزت پر کوئی حرف نہیں آتا بلکہ میں سمجھتا ہوں اس سے آپ کی عزت میں اضافہ ہوتا ہے، آپ جس ملک میں بھی جاتے ہیں ان کے قوانین کا احترام کرنا چاہیے۔ ایک سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ نواز شریف ان کے قائد ہیں، اس حوالے سے کافی لوگوں کو تکلیف ہے میں نے ان کو چار مرتبہ ووٹ دیا ہے تاہم جب سے میں نے وزیراعظم کا منصب سنبھالا ہے سابق وزیراعظم نوازشریف نے نہ کبھی مجھے فون کیا ہے اور نہ کوئی ہدایات دی ہیں، مجھے جو اختیارات حاصل ہیں میں وہ استعمال بھی کروں گا۔ اس لئے جن لوگوں نے ذہن میں خوامخواہ کوئی بات بٹھا رکھی ہے ان کو یہ چیز ذہن سے نکال دینی چاہیے۔ وزیراعظم نے کہا کہ وہ حکومت کی اقتصادی پالیسیوں اور ثمرات پر ڈاکٹر مفتاح اسماعیل کے ہمراہ عنقریب اسی طرح کی پریس کانفرنس کریں گے لیکن ملک کی جو صورتحال ہے وہ سب کے سامنے ہے، پاکستان پائیدار ترقی کے سفر پر گامزن ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے تحت مختلف منصوبوں پر کام ہو رہا ہے، بنیادی ڈھانچے کے منصوبے بن رہے ہیں، جس سے روزگار کے مواقع فراہم ہو رہے ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ جب بھی ملک میں انتشار ہوتا ہے، دھرنے ہوتے ہیں تو پاکستان پیچھے کی جانب چلا جاتا ہے، عدالتوں میں کیسز، ڈان لیکس اور پاناما کا ایشو جب سامنے آیا تو ملک میں عدم استحکام کی صورتحال پیدا ہوئی اور ملک کی معیشت متاثر ہوئی۔ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی سے متعلق سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ روپے کی قدر اصل شرح پر لانا ضروری ہے کیونکہ کوئی بھی ملک مصنوعی طور پر کرنسی کی قدر کو برقرار نہیں رکھ سکتا، اس سے برآمدات کم ہو جاتی ہیں جس کے معیشت پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ چیف جسٹس آف پاکستان سے ملاقات کے حوالے سے سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ اہم ملکی معاملات پر بات چیت کے لئے انہوں نے چیف جسٹس سے وقت مانگا تھا، ہماری ملاقات ہوئی ہم نے ملکی معاملات پر بات چیت کی اس ملاقات میں کوئی ذاتی بات نہیں ہوئی۔ سینٹ انتخابات اور چیئرمین سینٹ سے متعلق بیان کے سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ انہوں نے بہت سیدھی بات کی ہے کہ جو لوگ ووٹ خرید کر سینٹ میں آئے ہیں ،کیا اس سے ایوان اور جمہوریت کے وقار میں اضافہ ہوا ؟ جو لوگ منتخب ہوئے ہیں وہ یہ بیان حلفی دیں کہ انہوں نے ووٹ نہیں خریدے اور پیسے کا استعمال نہیں کیا؟ میں نے سینٹ اور چیئرمین سینٹ کے انتخابات میں خرید و فروخت کا معاملہ عوام کی عدالت میں پیش کیا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم نے کہا کہ چیئرمین سینٹ مجھے طلب کرنے کا اختیار نہیں رکھتے، جو لوگ ووٹوں کی خرید و فروخت کا دفاع کر رہے ہیں، ان کو وضاحت کرنی چاہیے، عمران خان بتائے کہ ان کے 14 ایم پی اے بکے ہیں یا نہیں، اگر میرے بیان سے کسی کا استحقاق مجروح ہوا ہے تو مجھے اس کی کوئی پرواہ نہیں ہے میں نے 30 سال سیاست میں گزارے ہیں۔ لوڈ شیڈنگ سے متعلق سوال پر وزیراعظم نے کہا کہ ملک میں کوئی لوڈ شیڈنگ نہیں ہو رہی تاہم جہاں پر تکنیکی مسئلہ ہو یا جن فیڈرز پر لاسز زیادہ ہوں وہاں لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے، اس وقت 60 فیصد فیڈرز پر کوئی لوڈ شیڈنگ نہیں ہو رہی، 40 فیصد فیڈرز پر 2 سے 8 گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے، ملک میں بجلی کی فراہمی جاری ہے، فرنس آئل پر انحصار بتدریج کم کر رہے ہیں جب جب نئے پلانٹس بنیں گے، فرنس آئل پر انحصار ختم ہو جائے گا، گزشتہ چار ماہ میں فرنس آئل کی درآمد نہیں ہو ئی ہے۔
(بشکریہ:روزنامہ نوائے وقت)
فیس بک کمینٹ