میں ایک دفعہ پھر اس بات کا قائل ہو گیا ہوں بلکہ میرا یقین ،یقین کامل میں بدل گیا ہے کہ کبھی کسی کم ظرف کو اس کی اوقات سے زیادہ وقعت نہیں دینا چاہئے۔ آپ کو یاد ہو گا میں نے ایک ہفتہ قبل مچھروں پر کالم لکھا تھا کہ بظاہر یہ جو حقیر سا کیڑا ہے، دنیا کی سپر پاور امریکہ سے زیادہ صاحب کردار ہے۔ یہ کیڑا آپ پر بے خبری میں حملہ نہیں کرتا بلکہ آپ کے کان کے قریب بلکہ بعض اوقات کان کے تقریباً اندر پہنچ کر گھوں گھوں کر کے آپ کو الر ٹ کرتا ہے اورپھر کاٹتا ہے جبکہ امریکہ آپ کو دوست ظاہر کرتا ہے اور پھر اندر سے آپ کی جڑیں کاٹنے میں لگ جاتا ہے ۔ مجھے یہ سب کچھ لکھتے ہوئے اندازہ نہیں تھا کہ میں نے اس کیڑے کے ’’درجات‘‘ اس کی اوقات سے کہیں زیادہ بلند ترکر دئیے ہیں وہ دن اور آج کا دن، یہ مجھے رات کے کسی پہر بھی سونے نہیں دیتے، ہر پانچ منٹ کے بعد امریکہ کے مقابلے میں اپنی بلندئی کردار ثابت کرنے کے لئے میرے کان میں گھوں گھوں کا الارم بجنےلگتا ہےاور یہ سلسلہ رکنے ہی میں نہیں آتا۔
گزشتہ رات جب اسی مخلوق کے بھائی بندوں نے مجھ پر سونا حرام کردیا تو میں نے بالآخر ان میں سےایک کو پکڑلیا اور کہا میں تو تمہیں ایک خاندانی قسم کی مخلوق سمجھتا تھا جو کسی کے حسن سلوک کو یاد رکھتے ہیں مگر تم تو بے حد گھٹیا نکلے، میں نے تمہاری مدح میں کالم لکھا جس کے بعد تم اپنی اوقات سے باہر ہو گئے اور مجھ پر باقاعدہ یلغار شروع کر دی، یہ سن کر مچھر آگ بگولہ ہو گیا اور اس نے میری ہتھیلی پر ڈنگ مارنا شروع کر دئیے،مگر مضبوط ہتھیلی پر اس کے ڈنک کا کیا اثر ہونا تھا، بس ہلکی سی خارش ہوئی اور اس سے میری نیند میں بھی خلل نہیں پڑ سکتا تھا کیونکہ میں اس وقت سویا ہوا نہیں تھاجاگ رہا تھا۔ عام انسان تو کیا کوئی قوم ہی اگر جاگتی ہو تو اس کا دشمن اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ بہرحال اس کے ڈنک مارنے پر میں نے اسے ایک بار پھر مخاطب کیا۔ اور کہا تم نے میری بات کا جواب دینے کی بجائے الٹا اپنے محسن کو ڈنک مار کر میری بات کی تصدیق کر دی ہے کہ تم اس تعریف و توصیف کے مستحق نہیں تھے جو میں نے اپنے کالم میں کی تھی۔ اس پر مجھے اس کی غصے سے بھری ہوئی آواز سنائی دی۔ وہ کہہ رہا تھا کون سی تعریف و توصیف؟تم نے اس کالم میں دس دفعہ ہمیں ’’حقیر سا کیڑا‘‘کہا، اس کے بعد تمہارے توصیفی کلمات کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟ میں نے جواب دیا کہ تمہیں میرا ایک لفظ تو یاد رہ گیا، باقی سارا کالم بھول گئے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ تم کس قدر گھٹیا ہو۔ بولا تمہارا باقی سارا کالم تمہارے کالم کی مجبوری تھی کہ تم ہمارے حوالے سے اپنی قوم کو امریکہ کے کرتوتوں سے آگاہ کرنا چاہتے تھے۔ ہمیں علم ہے کہ تم نے ہمارا نام محض علامت کے طور پر استعمال کیا تھا، ہم کوئی ان پڑھ نہیں ہیں کہ تمہاری بات نہ سمجھیں، اس کی یہ بات سنی تو میں نے اپنے ذہن پر زور ڈالاکہ کہیں یہ اورینٹل کالج میں میرا کلاس فیلو تو نہیں تھا جوعلامت وغیرہ کی اصطلاحوں سے بھی واقف ہے مگر میں نے اس سے پوچھنا مناسب نہیں سمجھا کہ کہیں یہ واقعی میرا کلاس فیلو نہ نکل آئے،چنانچہ میں نے یہ خیال ذہن سے جھٹکااور صبر سے کام لیتے ہوئے کہا کہ اگر علامت ہی کی بات تھی تو میں کسی خاندانی کیڑے مثلاً چیونٹی کی مثال بھی دے سکتا تھا جس نے خدائی کے دعوے دار نمرود کے ناک میں گھس کر اسے ہلاک کر دیا تھا۔ اگرچہ تمہاری کم ظرفی سے ناواقف لوگ یہ کریڈٹ بھی تمہی کو دیتے ہیں۔ مگر میں اس بحث میں پڑے بغیر تم سے پوچھتا ہوں کہ کالم سے پہلے تمہارا ایک آدھا بھائی بند میرے کان میں بے سرا گیت گا کر ، میرے ہاتھ کے ایک اشارے سے بھاگ جاتا تھا مگر اس دن سے تو تم لوگ جوق درجوق مجھ پر حملہ آور ہو رہے ہو اور کورس میں گھوں گھوں کرتے ہو، تمہیں شرم نہیں آتی؟اس پر مچھر ہنسا اور بولا’’ لگتا ہے آپ ذوق موسیقی سے بالکل بے بہرہ ہیں،انڈیا میں تو ہماری بڑی آؤ بھگت ہوتی ہے ہمیں خان صاحب خاں صاحب کہا جاتا ہے اور آپ ہمیں بے سرا قرار دے رہے ہیں ‘‘ میں نے بمشکل اپنی ہنسی روکی کہ کہیں میرے ہنسنے سے اس کی بے تکلفی میں مزید اضافہ نہ ہو جائے۔ مجھے یہ بھی اندازہ ہو گیا تھا کہ یہ مچھر عام مچھر نہیں بلکہ مچھروں کا کامیڈین ہے بلکہ مجھے لگا کہ میں نے اسے کامیڈی شو میں دیکھا ہوا ہے۔چنانچہ اس کی مزید جگتیں بھگتنے سے پہلے میں نے اسے وارننگ دیتے ہوئے کہا کہ اگر اپنی زندگی عزیز ہے تو وعدہ کرو کہ آج کے بعد تم میری راتوں کی نیند خراب نہیں کرو گے۔اس پر ایک بار پھر اس کی ہنسی سنائی دی ، بولا’’تم کیا کر لو گے؟‘‘میں نے کہا کچھ بھی نہیں ، بس اپنی مٹھی کو ذرا سا ٹائٹ کروں گااور وہیں تمہارا دم نکل جائے گا۔
مجھے لگا میری بات سن کر وہ خوفزدہ ہو گیا ہے۔ کہنے لگا مجھے یقین ہے کہ تم ایسا نہیں کروگے، ہم تو بقول تمہارے ایک حقیر سے کیڑے ہیں، جبکہ تم انسان تو خود کو اشرف المخلوقات کہلاتے ہو اور یوں تم ہماری سطح پر آنا پسند نہیں کروگے۔ مجھے اس کے فقرے کی چبھن محسوس ہوئی چنانچہ میں نے خود کو اشرف المخلوقات ثابت کرنے کے لئے کہا یہ تو تم ٹھیک کہتے ہو، ایک حقیر کیڑے اور اشرف المخلوقات کے کردار میں کچھ تو فرق ہونا چاہئے‘‘ لو میں تمہیں آزاد کرتا ہوں مگر اپنے بھائی بندوں کو بتا دو کہ وہ آئندہ میری نیند خراب نہ کریں ۔ یہ کہہ کر میں نے مٹھی کھول دی، اس نے تشکر کی نظروں سے مجھےدیکھا اور فضا میں ایک چکر کاٹ کر میرے کان کے قریب پہنچ کر گھوں گھوں کا راگ چھیڑ دیا مگر میرے ہاتھ لہرانے سے پہلے ہی ایک قہقہہ لگا کر وہاں سے فرار ہو گیا۔
مجھے ایک بار پھر یقین ہو گیا یہ مچھروں کا کامیڈین ہے، میں نے اس کا ناک نقشہ یاد کر لیا ہے، اس کے بارے میں برادر عزیز آفتاب اقبال سے مزید معلومات حاصل کروں گا۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ