اردو زبان میں پہلا سفرنامہ’’ تاریخ یوسفی المعروف بہ عجائبات فرنگ از یوسف خان کمبل پوش‘‘ ہے۔ 1838میں یوسف خان ولد رحمت خان غوری، شاگرد حیدر علی آتش نے ولایت کا سفر اختیار کیا۔ یہ سفر نامہ ادب و فن کے اعلیٰ اور جدید معیارات پر پورا اترتاہے۔ اس کا اسلوب، تحیّر و تجسس اور چونکا دینے والی معلومات نے اسے آج بھی زندہ تحریر بنارکھا ہے۔ کمبل پوش کی سچائی، صاف گوئی، کھلاپن اور غیر متعصب انداز اس سفرنامے کی اہمیت کو بڑھا دیتا ہے۔
کمبل پوش کے سفرنامہ ’’عجائبات فرنگ‘‘ کو سامنے رکھتے ہوئے سفرنامہ ٔ پاکستان لکھا گیا ہے۔ کمبل پوش پاکستان آئے تو یہاں سینیٹ کا الیکشن شروع تھا۔ کمبل پوش نے کروڑوں کے لین دین کی بات سنی تو حیران پریشان ہوگیا۔ کہنے لگا پہلے لوگ اغوا ہوتے تھے تو ان کی رہائی کے لئے سینکڑوں روپے بطور تاوان مانگے جاتے تھے۔ اب آزاد لوگ، غلامی کے لئے کروڑوں روپے کیوں مانگ رہے ہیں؟ بتایا کہ یہ غلام نہیں بن رہے بلکہ ووٹ کی خرید و فروخت ہو رہی ہے تو کمبل پوش نے پرجوش اور شوخ انداز میں کہا ضمیر بیچنا غلامی نہیں تو اور کیاہے۔ پہلے لوگ آزادی کےلئے پیسے دیتے تھے آج کل کے پاکستان کے لوگ غلامی کرنے کے لئے پیسے مانگتے ہیں۔کمبل پوش تین سو سالہ تجربہ کے بعد انسانی شکلوں کے پیچھے چھپی خصلتوں کو پہچاننے میں ماہر ہو چکا ہے۔ سینیٹ الیکشن میں ایک شخص کو آتے دیکھ کر کہنے لگا، لوٹا چلا آرہاہے۔ اسے بتایاگیا کہ یہ تواچھا خاصا معزز آدمی ہے۔ کمبل پوش نے کہا نہیں یہ لوٹا ہے۔ ایک واسکٹ پہنے فرد کو کمبل پوش نے بھیڑیا کہہ ڈالا۔ کہنے لگا یہ تو عہدے کے حصول کے لئے خون بھی کرسکتا ہے۔ ایک اور نامور کو کہا یہ چوہا ہے بِلّے سے ڈر کر ووٹ ڈال رہا ہے۔دوشیر چہرہ لوگوں کو کمبل پوش نے بکری کہہ کر مذاق اڑایا۔
کمبل پوش نپولین بوناپارٹ کا بڑا مداح تھا اور اس جزیرے کے پاس سے گزرا تھا جہاں انگریزوں کی قید میں اس کا انتقال ہو گیا تھا۔ کمبل پوش پوچھنے لگا کہ بونا پارٹزم کی جدید اصطلاح کا مطلب کیا ہے؟ اسے بتایا کہ بوناپارٹزم دراصل ایک ایسا نظام ہے جس میں اشرافیہ کی مسلح کلاس پورے نظام کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے۔ کمبل پوش سینیٹ الیکشن کے نتائج سن کر بہت حیران ہوا۔ کہنے لگا کہ اسے لندن کا پارلیمنٹ ہائوس دیکھے 300سال ہونے کو ہیں۔ وہاں کی جمہوریت میں تواس وقت بھی ایسا نہیں ہوتا تھا۔ کمبل پوش کو کسی نے کان میں کہہ دیا کہ یہ سارا کام اَن دیکھے ہاتھوں یعنی خفیہ طاقتوں کا ہے۔ کمبل پوش یہ اصطلاح سمجھنے سے مکمل طور پر قاصر تھا۔ اس وقت سے باربار کہہ رہا ہے کہ خفیہ ہاتھ کیسے کام دکھا سکتے ہیں بلکہ اس کا اصرار تھا کہ خفیہ ہاتھ یاچڑیل یا بھوت کا تصور، سب جھوٹ ہیں ۔ پھراس نے وضاحت کی کہ 300سال پہلے بھی لوگ ہر پراسرار چیز کو دیویا بھوت سے موسوم کردیتے تھے جبکہ ان کی حقیقت اس وقت بھی نہیں تھی۔ کئی لوگوں نے اسے خفیہ ہاتھ کا مطلب سمجھانے کی کوشش کی تو اس نے کہا کہ یا تو کہو کہ یہاں بونا پارٹزم کامیاب ہے یاکہوکہ جمہوریت کامیاب ہے۔ یہ دونوں کیسے اکٹھے چل سکتے ہیں؟ یوسف کمبل پوش کا مشاہدہ بڑاگہرا تھا وہ تین سو سال پہلے بھی پردے کا مخالف تھا۔ وہ معاشرے میں برابری اور انسانی عزوشرف کا قائل تھا۔ کمبل پوش پاکستان آیا تو حیران تھا کہ یہاںابھی تک اداروں کی جنگ جاری ہے جبکہ ولایت اورفرانس میں 300سال پہلے یہ مسئلہ حل ہو چکا۔ کمبل پوش کا خیال ہے کہ سارا قصورعوام کا ہے۔ ولایتی لوگ اپنے حقوق کا تحفظ کرنا جانتے ہیں جبکہ پاکستان کےعوام لسی اور چائےپی کراپنے مستقبل سے بے فکر ہوجاتے ہیں۔ یوسف کمبل پوش بارباردریافت کرتارہا کہ یہاں کے لوگ اکیسویں صدی میںبھیڑ بکریوں جیسی زندگی گزار رہے ہیں۔ آخر یہ اٹھتے کیوں نہیں؟ مزاحمت کیوں نہیں کرتے؟ کمبل پوش نے بتایا کہ وہ 1837میں ایک مرہٹہ دوشیزہ سے ملا تھا جو گھوڑے پرسوارتھی اور ہاتھ میں اس کے برہنہ تلوار تھی۔ اس نے کمبل پوش سے پوچھا کہ یہ انگریز کب یہاں سے جائیں گے؟ اور اگر یہ یہاں سے نہ گئےتوہم ان سے لڑیں گے۔ کمبل پوش نے کہا کہ 1857کی جنگ آزادی سے 20سال پہلے ہی اس نے یہ اندازہ لگا لیا تھا کہ انگریزوں کی غلامی کےخلاف آزادی کی جنگ لڑی جائے گی۔
یوسف خان کمبل پوش نے جب ’’عجائبات فرنگ‘‘ لکھی تو اس وقت بھی اس کی شوخی، چنچل پن اور بے باکی نظر آتی تھی۔ 300سال گزرنے کےباوجود یوسف خان کمبل پوش ویسے کا ویسا ہی ہے۔ حسن پرست اور حسن کا اس قدر مداح کہ جہاں حسن دیکھا اس کی خوبیاں بیان کرنا شروع کردیں۔ بہت اصرار کےساتھ لاہور کے بازارِ حسن جانے کی ضد کی۔ اسے سمجھایا کہ اب وہاں تو بازار ہے اور نہ بازار ِ حسن۔ مگر کمبل پوش وہاں جا پہنچے۔ وہاں حسیناؤں کےکوٹھے بند پا کر کہا اس ملک میں لازماً برائی ہر گلی محلے میں پھیل چکی ہےوگرنہ یہیں تک محدودرہتی تو اچھا تھا۔
یوسف کمبل پوش نے ایک جدید بازار میں خواتین کو شاپنگ کرتے دیکھا تو باغ و بہار ہوگیا۔ کہنے لگا جتنی ترقی یہاں’’پری زادوں‘‘ کے فیشن میں ہوئی ہے اتنی تو دنیا میں کہیں نہیں ہوئی۔ یہ سراسر فضول خرچی ہے ۔ اسے بتایا گیا کہ یہاں تفریح اچھے کپڑے پہننے اور اچھے کھانے کھانے تک محدود ہے۔ لوگ اسی پر خوش ہو جاتے ہیں۔ کمبل پوش کہنے لگا ایران میں تو بیوی کو تعطیلات کے لئے نہ لے جائیں تو وہ طلاق لے لیتی ہے۔ ولایت میں بچوں کو ہالی ڈے پر تفریح کے لئے نہ لے جائیں تو وہ ناراض ہوجاتے ہیں۔ یہاں ایسا کیوں نہیں ہے؟
یوسف کمبل پوش 300سال بعد دنیا میں آیا تو دیکھا کہ سب کچھ بدل چکا ہے۔ بس اسے ایک ہی گلہ ہے کہ یہاں کا نظام نہیں بدلا۔ دنیا میں ہر جگہ جمہوریت آچکی۔ یہاں 300سال پہلے بادشاہ، آقااورسپہ سالار تھے۔ اب بھی یہاں کبھی جمہوری بادشاہ اور کبھی فوجی بادشاہ آتے ہیں۔ عوامی بادشاہ کب آئیں گے؟ یوسف کمبل پوش آج یہاں سے رخصت ہونے لگاتو کان میں کہا دوستو! کچھ بھی کرلو پھر واپس جمہوریت لانا ہوگی۔ کتنے تجربے پہلے کرلئے اب دوبارہ کرلیں مگرآخر پھرسے جمہوریت کے دامن میں پناہ لیناہوگی۔ آخری فقرہ یہ کہا ’’تاریخ سے سبق کیوں نہیں سیکھتے، 115ملک جمہوریت سے بہتر ہوئے آپ کیوں بہتر نہیں ہوں گے؟ بار بار جمہوریت کو پٹڑی سے نہ ہٹاؤ وگرنہ سب تباہی کی طرف جاؤگے….‘‘
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ