فیس بک بھی کمال کی چیز ہے آپ کو اس میں ہر اچھی اور ہر بری چیز وافر مقدار میں مل سکتی ہے۔ مجھے چونکہ طنز و مزاح سے زیادہ شغف ہے۔ چنانچہ میں اس میں سے یہی نایاب ہیرے تلاش کرتا ہوں۔ نایاب اس لئے کہ طنز و مزاح بچوں کا کھیل نہیں ہے بلکہ قدرے ترمیم کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ
طنز وہ صنف نہیں ہے جسے بچے لکھیں
جین پھٹ جاتی ہے صدمات کو سہتے سہتے
مگر زندگی میں سے اگر طنز و مزاح کو نکال دیا جائے تو باقی ٹی وی چینلز کے سیاسی تجزیے اور اخبارات کے ”مثبت“ اداریے رہ جاتے ہیں، جن پر آپ ہنسنا چاہیں تو بے شک ہنستے رہیں۔ چنانچہ مزاح نگاروں کی تعداد ایک ہاتھ کی انگلیوں سے زیادہ نہیں۔ انگلیاں تو خیر اور بھی بہت ساری ہیں جو ہم ایک دوسرے پر اٹھاتے رہتے ہیں اور اس کے علاوہ صرف ایک انگلی سے فتنہ و فساد کا کام بھی لیا جاتا ہے مگر طنز و مزاح ان سب فتنوں کا قلع قمع کرنے میں بہت موثر کردار ادا کرتا ہے۔ آپ کڑوی سے کڑوی بات بہت میٹھے انداز میں کر سکتے ہیں۔
آج طنز و مزاح سے میرے ذوق و شوق کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایک دوست نے مجھے ایک تحریر ارسال کی ہے جو کسی نامعلوم رائٹر کی ہے، یہ مختلف جملوں پر مشتمل ہے۔ اگر یہ جملے انگریزی یا کسی اور زبان سے ترجمہ نہیں تو مصنف سے میری دست بستہ گزارش ہے کہ وہ باقاعدگی سے اس صنف میں طبع آزمائی کریں۔ میں اس تحریر سے متاثر ہوا کہ میں نے بھی کچھ اس قسم کی طبع آزمائی کی کوشش کی لیکن بغیر کسی انکسار کے عرض کر رہا ہوں کہ میرا ایک جملہ بھی ان جملوں کے برابر نہیں۔ جو میں اس کالم میں درج کروں گا۔ آپ کو کمزور جملے بآسانی نظر آجائیں گے اور جب نظر آئیں تو سمجھ لیں یہ جملے میرے ہیں تو نقل اور اصل دونوں ملاحظہ فرمائیں۔
بابا جی فرماتےہیں، سیاست پر صرف اس صورت میں گفتگو کریں اگر آپ سیاست کے بارے میں کچھ نہیں جانتے!بابا جی فرماتے ہیں، اگر آپ امریکہ میں سیٹل ہونا چاہتے ہیں تو نازک مذہبی معاملات کھل کھلا کر لکھنا شروع کر دیں۔ بابا جی فرماتے ہیں، آپ راتوں رات مع خاندان امریکہ پہنچ جائیں گے۔ اگر آپ کسی شاعر سے پائیدار اور بہت قریبی تعلقات چاہتے ہیں تو اسے صرف ایک جملہ کہیں:تم دنیا کے گھٹیا ترین انسان ہو، مگر شاعر بہت اعلیٰ ہو!
بابا جی فرماتے ہیں، اب پاکستان میں اردوئے معلّیٰ نہیں ”اردوئے محلہ“ چلے گی۔ بابا جی فرماتے ہیں، شقی القلب سے دوستی ممکن ہے ”شکی القلب“ انسان سے نہیں!بابا جی فرماتے ہیں، اگر آپ خربوزوں کے موسم میں دکاندار کے ”شہد سے مِٹھے“ خربوزے کے بلند بانگ دعوﺅں سے بچنا چاہتے ہیں تو دکاندار کے کان میں آہستہ سے کہیں ”مجھے ایک ٹونے ٹوٹکے کیلئے بالکل پھیکے خربوزے درکار ہیں!“ جواب میں دکاندار اتنی ہی آہستگی سے کہے گا ”باﺅ جی آنکھیں بند کر کے لے جاﺅ، ایک بھی میٹھا نکلے تو واپس کر جائیں!“بابا جی فرماتے ہیں، میں نے ایک خوبصورت طوائف سے پوچھا:تو فلموں میں کام کیوں نہیں کرتی؟ اس نے جواب دیا ”مجھے فلموں میں کام کرنے کی کیا ضرورت ہے، اللہ یہیں عزت کی روٹی دے رہا ہے“۔
بابا جی فرماتے ہیں، ضمیر انسان کو گناہ سے نہیں روکتا، صرف گناہ کا مزا کرکرا کرتا ہے۔ بابا جی فرماتے ہیں، بازار میں سے گزرتے ہوئے کسی عورت کی طرف آنکھ اٹھا کر نہ دیکھو، بس جس سے ٹکرانا ہو اس سے جا ٹکراﺅ!بابا جی فرماتے ہیں، کبھی کسی گھٹیا شخص سے دوستی نہ کرو، اس صورت میں تم اس کی نظروں سے گر جاﺅ گے۔ وہ سوچے گا جو شخص میرا دوست ہے وہ میرا دوست کیسے ہو سکتا ہے۔ یہ تھرڈ کلاس جملے میرے گھسیٹے ہوئے ہیں، اب آپ وہ جملے پڑھیں جن جملوں نے مجھے انسپائر کیا ہے۔بابا جی فرماتے ہیں، پیر صاحب سے میزبان نے پوچھا آپ کے لئے حلوہ لاﺅں یا سویاں؟ قرباں جاﺅں پیر صاحب کے جواب پہ، کہنے لگے:بیٹا! آپ کے گھر میں ایک ہی برتن ہے کیا؟
بابا جی فرماتے ہیں، پاکستانی وہ قوم ہیں جن کے سامنے کھانے سے پہلے سلاد رکھو تو جب تک کھانا آتا سلاد ختم ہوتا ہے۔بابا جی فرماتے ہیں، لڑکی ہونے کا ایک بڑا نقصان یہ ہے کہ کسی لڑکے سے لڑائی کرتے ہوئے وہ یہ بھی نہیں کہہ سکتی کہ تو مجھے مل ذرا اکیلے میں۔
بابا جی فرماتے ہیں، میرے دانت میں کیڑا تھا، ڈاکٹر نے کہا کچھ دن صرف چائے اور رس کھاﺅ، ایک ہفتہ چائے رس کھایا۔ پھر ایک دن صرف چائے پی، کیڑا باہر نکلا اور بولا ”رس م±ک گئے نے؟“
بابا جی فرماتے ہیں، وہ لوگ بھی شادی کے چکر میں ہوتے ہیں۔ جنہیں چلتے ہوئے بھی چکر آ جاتے ہیں۔
ایک پروفیسر جلدی میں کہیں جا رہے تھے کہ بیگم نے کہا ارے پان تو کھاتے جائیں۔ پروفیسر صاحب پلٹ کر آئے پان منہ میں رکھا اور دوبارہ چلے گئے۔ بیگم نے پھر آواز دی ”ارے… وہ جوتے“ پروفیسر صاحب نے جلدی سے کہا ”بیگم مجھے دیر ہو رہی ہے آکر کھالوں گا“بابا جی فرماتے ہیں، وہ کہتی تھی تم مانگو تو جان بھی حاضر، آج 100کا لوڈ مانگا تو کہتی ہے ساری دکانیں بند ہیں؟
بابا جی فرماتے ہیں، ڈاکٹرز کہتے ہیں رات کو پیاز کھانا ٹھیک نہیں، اب بھلا پیاز کو پیٹ میں کیا پتا کہ باہر دن ہے یا رات۔بابا جی فرماتے ہیں، شادیوں کا مہینہ چل رہا ہے، بہت سے عاشق ماموں بننے والے ہیں۔
بابا جی فرماتے ہیں،
عشق کے سمندر میں غوطہ جو لگایا
پانی تھا ٹھنڈا میں باہر نکل آیا
بابا جی فرماتے ہیں، لڑکا:آپ اتنی موٹی کیوں ہو؟ لڑکی:ہمارا فریزر خراب ہے۔ لڑکا:تو؟ لڑکی:تو سب کچھ کھانا پڑتا ہے۔بابا جی فرماتے ہیں کہ لڑکیوں کو صرف اپنے والے کے علاوہ سب ٹھرکی لگتے ہیں، اپنے والا بے شک جہاز ہو۔بابا جی فرماتے ہیں، اگر کسی کو مجھ سے خفیہ محبت ہے تو وہ ڈوب کے مر جائے۔ بھلا ایسی باتیں بھی کوئی چھپاتا ہے کیا۔
بابا جی فرماتے ہیں کہ نیوزاینکر بول رہی تھی آئیں ناظرین آپ کو کراچی لے چلتے ہیں۔ یار! تب سے کپڑے بدل کر بیٹھا ہوں، مجال ہے کوئی گڈی لینے آئی ہو
بابا جی فرماتے ہیں، ویسے انسان بھی کیا واٹر پروف شے ہے، جتنا مرضی نہا لو پانی اندر نہیں جاتا۔
بابا جی فرماتے ہیں، اگر زندگی چار دن کی ہے تو….. شادی کس دن کرنی چاہئے …
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)