یہ 1977ء کی بات ہے جب میں پہلی بار انڈیا گیا اور حضرت مجدد الف ثانیؒ کے عرس میں شریک ہوا۔ سرہند شریف میں حضرت مجدد الف ثانیؒ کے عرس کی تقریبات اختتام پذیر ہوئیں تو اگلے روز قریباً سو پاکستانی زائرین پر مشتمل وفد سرہند سے قریباً 20کلومیٹر پر واقع ایک قصبہ براس کی طرف روانہ ہوا جہاں ایک روایت کے مطابق بعض انبیائے کرام مدفون ہیں۔ زائرین کیلئے دو بسیں مخصوص کی گئی تھیں مگر اس کے باوجود زائرین ایک دوسرے کو دھکیلتے ہوئے بس میں سوار ہو رہے تھے۔ مسافروں میں زائرین پر متعین بھارتی انٹیلی جنس کی فوج ظفر موج کے کچھ ’’معزز ارکان‘‘ بھی شامل تھے۔ مجھے ان میں سے خصوصاً وہ ’’صوفی صاحب‘‘ بہت دلچسپ لگے تھے جنہوں نے لمبی داڑھی اور زلفیں رکھی ہوئی تھیں، سر پر گول ٹوپی تھی اور جو گزشتہ دو دنوں سے خصوصی طور پر مجھ سے ’’اظہارِ محبت‘‘ فرما رہے تھے۔ انہوں نے اپنا تعارف سہارنپور کے ایک بڑے تاجر کے طور پر کروایا اور ’’مور اوور‘‘ کے طور پر یہ بتایا کہ وہ شاعر بھی ہیں، چنانچہ انہوں نے گزشتہ رات ترنم سے اپنی کچھ بے وزن غزلیں بھی سنائیں۔ ان صوفی صاحب کی حقیقت مجھ پر اس وقت آشکار ہوئی جب دو روز قبل رات کو میری طبیعت خراب ہو گئی اور میں ابکائی کیلئے اپنے حجرے سے باہر نکلا۔ میں نے دیکھا کہ وہ مزار کے باہر عارضی طور پر قائم شدہ ایک تنور کے کنارے پر بیٹھے اونگھ رہے تھے۔ میرے حلق سے نکلنے والی آوازیں سن کر ان کی آنکھ کھل گئی اور وہ فوراً جیب سے سگریٹ نکال کر سلگانے لگے۔ ابکائی سے فارغ ہو کر میں نے ان سے کہا ’’حضرت آپ اتنی سردی میں باہر بیٹھے کیا کر رہے ہیں؟‘‘ فرمایا ’’بس نیند نہیں آرہی تھی، یونہی ادھر چلا آیا‘‘ اور یہ کہتے ہوئے ان کی آنکھیں ایک بار پھر بند ہو گئیں۔ اس کے بعد رات کے دو بجے میں نے انہیں اسی طرح تھڑے پر بیٹھے اونگھتے دیکھا اور پھر صبح چار بجے بھی وہ ’’نیند نہ آنے کی وجہ سے‘‘ تھڑے پر مراقبے کے عالم میں تشریف فرما تھے اور اس وقت وہ پاکستانی زائرین کیلئے مخصوص بسوں میں سے ایک بس میں سوار ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ میں نے ’’کھنگورا‘‘ مار کر انہیں اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کی لیکن یہ آواز ان تک نہ پہنچی شاید اس لئے کہ فروری کے مہینے میں چار پانچ روز تک حجرےکے فرش پر سونے کی وجہ سے میرے کھنگورے میں وہ دم خم نہیں رہا تھا۔ میری نشست پاکستانی وفد کے قائد جسٹس (ر) صدیق چوہدری کے ساتھ تھی۔ کھردری لکڑی سے تیار شدہ جسٹس صاحب کا عصا اس وقت بھی ان کے ہمراہ تھا۔ بس اپنی منزل کی طرف روانہ ہوئی تو جسٹس صاحب نے اپنے خالص دیہاتی لہجے میں گفتگو کا آغاز کیا۔ میرے لئے ان کی یہ گفتگو حقیقتوں کا عرفان تھی۔ جسٹس صاحب قیامِ پاکستان کے بعد مغویہ عورتوں کیلئے قائم شدہ کمیشن کے رکن تھے اور اس عرصے میں انہوں نے جان ہتھیلی پر رکھ کر اپنے فرائض انجام دیئے تھے۔ وہ بتا رہے تھے ’’اس وقت تم سڑک کے دونوں جانب جو ہرے بھرے کھیت دیکھ رہے ہو 1947ء میں یہاں مسلمان مردوں، عورتوں اور بچوں کے سروں کی سرخ فصلیں کاٹی گئی تھیں۔ تم نے عورت کے کئی روپ دیکھے ہوں گے مگر اس کی بیچارگی اور مظلومیت کا رخ شاید اس طرح نہ دیکھا ہو جس طرح میں نے دیکھا ہے۔ جب مجھے پتا چلتا کہ کسی گاؤں میں مسلمان عورتیں درندوں کے قبضے میں ہیں تو میں پولیس کے چند سپاہیوں کے ساتھ خون کے پیاسے افراد کے درمیان سے گزر کر ان تک پہنچتا مگر کئی بار یوں ہوا کہ مغویہ ہمیں دیکھ کر ہمارے ساتھ چلنے کے بجائے اس وحشی کے پہلو میں جا کھڑی ہوتی جس نے اس کے والدین کو قتل کر دیا تھا اور اسے اٹھا کر اپنے گھر ڈال لیا تھا لیکن جب ہم اسے یقین دلاتے کہ اب وہ مکمل طور پر محفوظ ہے اور اسے اس غنڈے سے ڈرنے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں تو وہ ہمارے ساتھ چلنے پر رضامند ہوتی اور پھر مغویہ عورتوں کے کیمپ میں پہنچ کر وہ اپنے بچے کھچے کسی عزیز کے گلے لگ کر ہچکیاں لے لے کر روتی‘‘۔ جسٹس صاحب نے بتایا ’’میری آنکھوں نے وہ خوں آشام مناظر دیکھے ہیں کہ ایک وقت میں انسانیت سے میرا اعتماد اٹھ گیا تھا۔ اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران میری ملاقات ان بچیوں سے بھی ہوئی جو پورے پورے گاؤں کی ملکیت تھیں۔ میں نے کیمپوں میں دھنسی ہوئی آنکھیں اور پھولے ہوئے پیٹ دیکھے ہیں۔ یہ اس وقت ہم جس علاقے سے گزر رہے ہیں۔ یہاں مسلمان عورتوں کے برہنہ جلوس گزرتے رہے ہیں‘‘۔
’’مگر میں تمہیں ایک واقعہ ضرور سناؤں گا‘‘۔ جسٹس صاحب نے کہا ’’مجھے اطلاع ملی کہ ایک سید زادی کو ایک بھنگی نے اپنے گھر میں ڈالا ہوا ہے۔ میں پولیس کے سپاہیوں کے ساتھ اس گاؤں میں پہنچا اور دروازہ توڑ کر گھر داخل ہوا تو میں نے دیکھا صحن میں ایک بچی کھانا پکا رہی تھی اور ایک طرف جائے نماز بچھی تھی! اتنے میں ایک دوسرے کمرے سے ایک ادھیڑ عمر کا کالا بھجنگ شخص نکلا اور ہمارے سامنے آکر کھڑا ہوا۔ یہ وہی بھنگی تھا جس کے متعلق اطلاع ملی تھی کہ اس نے ایک سید زادی کو اغوا کر رکھا ہے۔ اسے دیکھ کر میری آنکھوں میں خون اتر آیا۔ میں نے آگے بڑھ کر ایک زور دار مکا اس کے منہ پر رسید کیا جس سے وہ لڑکھڑا کر گر پڑا۔ اس کے منہ سے خون جاری ہو گیا۔ وہ تھوڑی دیر بعد اٹھا اور اپنی قمیص کے دامن سے اپنا منہ پونچھتے ہوئے اس نے کھانا پکاتی ہوئی لڑکی کی طرف اشارہ کرکے نحیف سی آواز میں پوچھا ’’تم اسے لینے آئے ہو؟‘‘ اور پھر جواب کا انتظار کیے بغیر وہ اپنے کمرے میں چلا گیا اور تھوڑی دیر بعد جب وہ واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں ایک پوٹلی تھی۔ وہ سیدھا لڑکی کی طرف گیا اور کہا ’’بیٹی! میرے پاس تمہیں الوداع کہنے کیلئے کچھ بھی نہیں ہے۔ اس پوٹلی میں بس ایک دوپٹہ ہے‘‘ اور پھر دوپٹہ اس کے سر پر دیتے ہوئے اس کی آنکھیں چھلک پڑیں اور پھر وہ دونوں ہاتھوں سے چہرہ ڈھانپ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا‘‘۔ (جاری ہے)
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ