میرے قارئین کو (بدقسمتی) سے علم نہیں کہ میں صرف کالم نگار، ادیب یا شاعر ہی نہیں بلکہ سائنسدان بھی ہوں۔ مجھے اللہ تعالیٰ نے اختراعی ذہن دیا ہے چنانچہ میں لکھتے وقت بھی گھسے پٹے موضوعات سے گریز کرتا ہوں۔ اسی طرح ایجاد کے لمحوں میں بھی میرے ذہن میں یہی ہوتا ہے کہ ایجاد بالکل انوکھی ہو۔ چنانچہ میں نے ایک ایسی گھڑی ایجاد کی ہے جو ٹائم بتاتی نہیں، ٹائم پوچھتی ہے۔ دراصل ایجاد کا قومی رویہ سے تعلق ہونا ضروری ہے چنانچہ ہماری قوم کے سبھی افراد ایک دوسرے سے ٹائم پوچھتے رہتے ہیں لہٰذا گھڑی بھی ایسی ہونا چاہئے جو اس قوم کے ہر فرد سے ٹائم پوچھے۔ میں غرور نہیں کرتا بس اتنا کہوں گا کہ میری یہ ایجاد پوری دنیا میں اپنی نوعیت کی بالکل منفرد ایجاد ہے۔ میں اسکے سافٹ ویئر میں تبدیلیاں اور اضافے بھی کرتا رہتا ہوں۔ چنانچہ اب یہ گھڑی ٹائم ہی نہیں پوچھتی بلکہ باتیں بھی کرنے لگی ہے۔ گزشتہ روز ایک صاحب تیز تیز قدم اٹھاتے ہانپتے کانپتے جا رہے تھے۔ گھڑی نے انہیں روکا اور پوچھا: بھائی جی! ٹائم کیا ہوا ہے؟ انہوں نے کہا: میرے پاس ٹائم نہیں ہے، میرا وقت ضائع نہ کرو، میں نے ایک دوست کو ٹائم دیا ہوا ہے، میں نے اسکی طرف پہنچنا ہے۔ گھڑی نے پوچھا:دوست عورت ہے یا مرد؟ ان صاحب نے جواب دیا: مرد۔ گھڑی نے کہا: پھر اتنی جلدی کیا ہے، بیٹھیں ایک کپ چائے پر گپ شپ لگاتے ہیں، آپ لوگوں کے پاس ٹریفک میں پھنس جانے کا ایک گھڑا گھڑایا بہانہ موجود ہے۔ وہ صاحب بولے: میں تو اس وقت سے اُسے ٹریفک میں پھنسنے کا بتا رہا ہوں جب ابھی میں بستر میں تھا۔ وہ صاحب ابھی جانے کو تھے کہ ایک مجمع باز وہاں آ گیا اور اس نے صاحبان قدردان کے الفاظ کے ساتھ اپنی تقریر دلپذیر کا آغاز کیا۔ یہ صاحب جو تیزی سے جا رہے تھے، ان کے قدم وہیں رک گئے اور آخر دم تک وہیں رہے۔ اس دوران میری ایجاد کردہ گھڑی ان پر جملے کستی رہی، وہ بار بار اس کی طرف غصیلی نظروں سے دیکھتے رہے مگر اپنے قدم اکھڑنے نہیں دیئے۔ انہیں بار بار فون آ رہا تھا اور وہ ہر بار کہتے یار ٹریفک بالکل جام ہے، میں تو خود سخت پریشان ہوں تاہم یہ ٹریفک ’’کھل‘‘ نہیں رہی۔ جب مجمع باز نے اپنی تقریر کے اختتام پر اپنی مقوی ادویات بیچنا شروع کر دیں تو موصوف نے دو پیکٹ خریدے اور تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے وہاں سے چل دیئے کیونکہ انہیں احساس تھا کہ دوست کو ٹائم دیا ہوا ہے۔
میں یہ گھڑی تو ایجاد کر بیٹھا ہوں مگر سچی بات یہ ہے کہ یہ میرے لیے کچھ مسائل بھی پیدا کر رہی ہے۔ میں جلسے جلوسوں کا بہت شوقین ہوں ان کی نوعیت سیاسی ہو، مذہبی ہو یا معاشرتی، میں ہر جگہ پہنچتا ہوں۔ مگر یہ گھڑی ہر جگہ میرے لئے شرمندگی کا باعث بنتی ہے۔ ابھی گزشتہ دنوں ایک سیاسی جلسے میں اس کی وجہ سے مجھے سخت مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک قومی رہنما دوسرے قومی رہنماؤں کے خوب لتے لے رہے تھے اور جوشِ خطابت میں انکے منہ میں جو آتا تھا، کہتے چلے جاتے تھے، اس دوران گھڑی نے اچانک باآواز بلند قومی لیڈر کا نام لے کر انہیں مخاطب کیا اور پوچھا: بھائی جی! ٹائم کیا ہوا ہے؟ میرے اردگرد کھڑے اس رہنما کے وفادار کارکنوں نے گھور کر میری طرف دیکھا اور سخت طیش کے عالم میں کہا: ہم اپنے رہنما کی شان میں کوئی گستاخی برداشت نہیں کرینگے۔ میں گھبرا گیا اور عرض کی برادرانِ اسلام! میری گھڑی نے تو صرف ٹائم پوچھا ہے۔ اس روز مجھے پتا چلا کہ میرے گھٹنوں کے درد کا حقیقتاً کوئی وجود نہیں کیونکہ جس پھرتی سے میں اس خونخوار مجمع میں سے نکلنے میں کامیاب ہوا ہوں اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔ایک اور موقع پر اس سے بھی زیادہ خطرناک صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ ایک مذہبی جلسہ تھا اور مولانا عالم اسلام میں موجود انتشار پر نہایت عمدہ گفتگو کر رہے تھے۔ انہوں نے اقبال کا یہ شعر بھی پڑھا
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر
تو اچانک میری گھڑی کو غصہ آگیا اور اس نے چلا کر کہا: اگر آپ بھی نظامِ اسلام چاہتے ہیں تو پھر الگ الگ جماعتیں کیوں بنائی ہوئی ہیں، پہلے آپ ایک ہوں اس کے بعد نیل کے ساحل اور خاک کاشغر کی باری بھی آجائے گی۔ میں اس مجمع میں سے نکلنے میں کامیاب ہوگیا مگر اس روز میری قمیص اور پتلون کا کام اخبار کے دو صفحات نے کیا۔تاہم ستر پوشی کے اس ہنگامی انتظام کے بعد میں نے گھڑی کے سافٹ وئیر میں تبدیلی کا سوچا ہے، اب یہ دوسروں کے کاموں میں ٹانگ اڑانے کے بجائے صرف یہ پوچھا کرے گی بھائی جی! ٹائم کیا ہوا ہے۔ اس میں ایک ایسا بٹن بھی نصب کروں گا کہ کسی جلسے جلوس میں کوئی بات کرنا تو کجا یہ ٹائم بھی نہیں پوچھ سکے گی۔ یہ جو صورتحال کا مختصر سا احوال میں نے بیان کیا ہے کیا، اس کے پیش نظر ہمارے ملک میں کسی سائنسی ایجاد کی توقع کی جا سکتی ہے؟ کم از کم میں تو پچھتا رہا ہوں بلکہ سوچ رہا ہوں کہ اس گھڑی کے ہاتھ پیلے کرکے کسی گھڑیال کے ساتھ اسے رخصت کر دوں۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ