مجھے اگر ٹانگ کا فریکچر نہ ہوتا تو میں آج فاروق عادل کے بارے میں بہت اچھا لکھ سکتا تھا گو میں عموماً ہاتھ ہی سے لکھتا ہوں ٹانگ سے نہ کبھی لکھا اور نہ کبھی کسی دوسرے کے معاملے میں ٹانگ اڑائی۔ٹانگ کا بہانہ اسلئے کر رہا ہوں کہ میرے پاس اس وقت لکھنے کا ماحول نہیں ہے میں اسلام آباد کے ایک کمرے میں تن تنہا بیٹھا ہوں نہ کوئی شور شرابا نہ بچوں کی چیخ پکار اور نہ کوئی ایسا کام یاد آ رہا ہے جو میں نے فوری طور پر کرنا ہو ۔برا ہو اخبار کیلئے لکھنے کی عادت کا جو مجھے نوائے وقت کے دور سے پڑی کہ دس بیس کولیگ میرے برابر میں بیٹھے ہوتے تھے سامنے کا تب حضرات آلتی پالتی مارے بیٹھے نظر آتے تھے میں ایک سلپ لکھتا اور ان کی طرف بڑھا دیتا اور پھر وہ دوسری سلپ کے منتظر نظر آتے اس دوران کوئی ملاقاتی بھی آ جاتا دوچار گپیں اس کے ساتھ مارتا اور ساتھ ساتھ دو چار جملے کالم کے لکھتا بلکہ نمٹاتااور حیرت کی بات یہ تھی کہ اس عالم میں لکھا ہوا کالم قارئین بڑے شوق سے پڑھتے اب کیا ہے اب میں ہوں، خاموشی ہے، تنہائی ہے یا فاروق عادل کی کتاب ’’جوصورت نظر آئی ‘‘میرے سامنے دھری ہے بس یہی ایک نعمت ہے جو مجھے لکھنے میں مدد دے رہی ہے کیونکہ اس کتاب میں اتنا شور شرابا ہے اور اتنے سارے لوگ اس میں فاروق عادل کو اپنی کہانیاں سنا رہے ہیں کہ مجھے ان کے سبب وہ ’’یک سوئی ‘‘ نصیب ہو گئی ہے جو مجھے کالم لکھنے کیلئے درکار ہوتی ہے ۔
پہلی بات یہ ہے کہ فاروق عادل اتنا خاموش طبع آدمی ہے کہ جب کبھی میرا جی چاہتا کہ میں اتنے پر سکون شخص کے بارے میں کچھ لکھوں اور پوچھوں کہ یار میرے ارد گرد ہر شخص بے سکون نظر آتا ہے تمہیں اتنے پرسکون ہوتے حیا نہیں آتی ؟لیکن میری یہ غلط فہمی دور ہو گئی جب میں نے اس کے خاکوں کی کتاب ’’جو صورت نظر آئی ،پڑھنا شروع کی ،حالانکہ اس کا نام جو شکل نظر آئی ہونا چاہئے تھا، تاہم اس کتاب میں مجھے اتنا شور شرابا نظر آیا کہ مجھے سمجھ آ گئی کہ جب اتنے سارے لوگ بول رہے ہوں تو کوئی سکون سے سننے والا بھی تو ہونا چاہئے ۔سوفاروق عادل نے ہمیں ایسے ایسے لوگوں سے ملایا اور ان کی باتیں سنائیں کہ مجھے اس پر رشک آیا اور خود پر شدید غصہ کہ اوٹ پٹانگ بولتا رہتا ہوں اور دوسروں کو سننے کی کبھی زحمت ہی گوارا نہیں کی۔(میں نے جب فاروق عادل کی زبانی اپنی باتیں سنیں جواس نے میرے خاکے میں لکھی ہیں تو میں شدید غلط فہمی کا شکار ہوگیا چنانچہ جملہ خواتین و حضرات کو پیشگی مطلع کرنا چاہتا ہوں کہ وہ فاروق عادل کی باتوں میں نہ آئیں۔نہ میں انسان دوست ہوں، نہ میں ڈکٹیٹروں سے لڑنے مرنے کے لئے تیار رہتا ہوں اور نہ ہی میں عجزو انکسار کا پیکر ہوں، میں ایک بہت غلط آدمی ہوں اور میرے غلط آدمی ہونے کی تصدیق آپ کسی بھی غلط آدمی سے کرا سکتے ہیں !
باقی رہے فاروق عادل کے دوسرے کردار، مجھے ان میں سے ایک بالکل غیر معروف اور دنیاوی زبان میں ایک ناتواںشخص بہت قیمتی نظر آیا جس کا نام حمید شیخ ہے اور وہ کچھ عرصہ ایک بھرپور زندگی گزارنے کے بعد سندھ میں کچھ دنوں گمنامی کی زندگی بسر کرنے کے بعد اب فوت ہو گیا ہے ۔ فاروق میں ایک بہت بڑی خرابی ہے اور وہ یہ کہ اسے کسی میں کوئی خرابی نظر نہیں آتی میں نے تو یہ کتاب اس توقع کے ساتھ پڑھنا شروع کی تھی کہ فاروق عادل معزز لوگوں کے کپڑے اتارے گا ان کے باہر کی خوبیوں میں سے انکے اندر کی خباثتیں نکال کر ہمیں دکھائے گا میں نے بڑے بڑے نامی گرامی لوگوں کے لکھے ہوئے خاکے پڑھے ہیں جنہوں نے اپنے ’’مخکوک‘‘ کو دنیا کا سب سے گھٹیا شخص ثابت کرنے کی کوشش کی ہے مگر فاروق عادل تو انسان کو اندر سے ٹٹولتا ہے اور اسکی خوبصورتیاں ہمارے دلوں میں اتارتا ہے۔ویسے وہ خوش قسمت بھی ہے کہ اسکا اٹھنا بیٹھنا اپنے جیسے لوگوں کے ساتھ ہی رہا ہے وہ ’’اے مین از نون بائی دی کمپنی ہی کیپس(A man is known by the company he keeps)کی عملی صورت ہے ورنہ تو ’’اے ڈوگ از نون بائی دی کمپنی ہی کیپس‘‘ (A dog is known by the company he keeps)بھی سننے میں آتا ہے۔ فاروق عادل کی کتاب میں ایسے بہت سے افراد بھی آپ کو نظر آئینگے جن سے ان کی زیادہ اٹھک بیٹھک نہیں رہی لیکن ایک جہاں دیدہ اور زیرک صحافی اور ادیب کیلئے دیگ کا ایک دانہ ہی کافی ہوتا ہے چنانچہ وہ ایک نکتے سے ان تک رسائی کرتا ہے اور پورا شخص ہمارے سامنے آ جاتا ہے اس کتاب میں آپ کو میاں طفیل محمد، پیر پگاڑا مرحوم، ایئر مارشل اصغر خاں، پروفیسر غفور احمد ،بیگم نصرت بھٹو، غلام مصطفیٰ جتوئی، رجب طیب اردگان ، بے نظیر بھٹو، قاضی حسین احمد،اجمل خٹک، سردار فاروق لغاری،جاوید ہاشمی، آصف علی زرداری، مشاہد اللہ خان، شیخ رشید احمد، بشیر احمد بلور،الطاف حسین، جاوید احمدغامدی ،محمد صلاح الدین، الطاف حسین قریشی، ڈاکٹر وزیر آغا، جنرل حمید گل، حکیم سرو سہارنپوری ،حسین حقانی، ایم ایم عالم اوروہی ایک ’’معمولی آدمی‘‘ حمید شیخ کے خاکے پڑھنے کو ملیں گے۔یہ کتاب ایک ایسا وسیع وعریض باڑا ہےجس میں انسان بھی ہیں گھوڑے بھی ہیں اور کچھ گدھے بھی دکھائی دیتے ہیں۔اگر آپ نے یہ کتاب نہ پڑھی تو آپ خود ہی گھاٹے میں رہیں گے فاروق عادل کا کچھ نہیں بگڑے گا…وہ ایک اعلیٰ درجے کا ادیب اور صحافی ہی نہیں ایک درویش صفت انسان بھی ہے اسے اس سے کوئی غرض نہیں کہ اسے کون دیوتا سمجھتا ہے اور کون نہیں سمجھتا ۔
میں وعدہ کرتا ہوں بلکہ اس سے پہلے اقرار کرتا ہوں کہ میں نے فاروق کی اس کتاب کے ساتھ انصاف نہیں کیا جو میں پھر کبھی کروں گا انصاف نہ کر سکنے کی وجہ انعام الحق جاوید کا وہ کتاب میلہ ہے جس کے جھرمٹ میں چند لمحے مجھے اس کتاب کیلئے ملے ہیں بس آخر میں مجھے فاروق عادل کی دل آویز مسکراہٹ کا ذکر کرنا ہے جسے دیکھ کر مجھے مونا لیزا یاد آ جاتی ہے یہ مسکراہٹ جیسا آپ کا موڈ ہو ویسی ہی نظر آتی ہے ۔آخر میں اس مماثلت کیلئے میں فاروق عادل اور مونا لیزا دونوں سے معذرت خواہ ہوں۔
(بشکریہ: روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ