نگراننگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ متحدہ عرب امارات کے 4 روزہ دورہ کے بعد اب کویت روانہ ہورہے ہیں۔ ایک ایسی حکومت کا سربراہ دنیا بھر کے دورے کرنے اور ملک کی طویل المدت معاشی منصوبہ بندی میں سرگرم ہے جو ملکی آئین کے مطابق محض مختصر عبوری مدت کے لیے اقتدار سنبھالے ہوئے ہے۔ اور اس کی اصل ذمہ داری ملک میں شفاف اور کسی تعصب کے بغیر دیانتدارانہ انتخابات کاانعقاد ہے۔
نگران حکومت کے سربراہ کی یہ سرگرمی اور یکے بعد دیگرے دنیا کے مختلف ممالک کے دورے درحقیقت فوج کے سربراہ جنرل عاصم منیر کی معاونت، مشاورت و سرپرستی کی وجہ سے ممکن ہورہے ہیں۔ متحدہ عرب امارات کے دورہ میں جنرل عاصم منیر وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کے ہمراہ تھے۔ انہوں نے وزیر اعظم کے ساتھ متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن ذیاد النیہان سے ملاقات کی اور بعد میں دونوں لیڈروں کے ہمراہ اس تقریب میں بھی شریک ہوئے جس میں پاکستان اور یو اے ای نے مالی تعاون اور سرمایہ کاری کے لئے متعدد یادداشتوں پر دستخط کیے۔ کویت کا دورہ بھی عرب ممالک سے سرمایہ کاری لانے کے لیے ہی کیا جارہاہے۔
ملکی معیشت کی بہتری کا کام خواہ کیسا ہی مقدس اور ضروری کیوں نہ ہو لیکن نگران حکومت کایہ مینڈیٹ نہیں ہے کہ وہ ملکی معیشت کی صورت گری کے لیے بھاگ دوڑ کرے اور ریاست کی طرف سے دوست ممالک کے ساتھ ایسے معاشی منصوبوں پر اتفاق کرلے جن کے بارے میں نہ تو سیاسی مباحثہ دیکھنے میں آیا ہے اور نہ پارلیمنٹ سے اس کی منظوری لی گئی ہے ۔ کسی انتہائی ایمرجنسی کی صورت میں یہ ممکن تھا کہ نگران حکومت تمام سیاسی پارٹیوں کو اعتماد میں لیتی اور ملک میں معاشی مسائل حل کرنے کے لیے اتفاق رائے کی عمومی صورت پیدا کی جاتی۔ نگران حکومت نے اس کی ضرورت بھی محسوس نہیں کرتی۔ اسی طرح آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو بھی یہ آئینی مینڈیٹ حاصل نہیں ہے کہ وہ ملک کے طویل المدت معاشی منصوبوں میں کسی نگران حکومت کا دست و بازو بنیں۔ ملکی سیاسی معاملات یا مالی پالیسیوں کی تشکیل میں فوج یا اس کے سربراہ کا کوئی آئینی کردار متعین نہیں ہے۔
اس کے باوجود آرمی چیف ایسے منصوبوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں اور اسے ملکی معیشت کی بحالی کے اقدامات کا نام دیتے ہوئے یہ عزم بھی کیا جاتا ہے کہ معاشی بحالی کے کام پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔ جنرل عاصم منیر، شہباز شریف حکومت کے آخری مہینوں میں قائم کی گئی سرمایہ کاری کونسل کے رکن کے طور پر شامل کیے گئے تھے۔ اس لیے قیاس کیا جاسکتا ہے کہ جب وہ معاشی منصوبوں میں سرگرمی سے کردار ادا کرتے ہیں تو وہ اسی کونسل کے رکن کے طور پر متحرک ہوتے ہیں۔ تاہم اس کونسل کی موجودگی کے باوجود اس حقیقت سے گریز نہیں کیا جاسکتا کہ ایک تو ایسی کسی کونسل کو ایسے ماحول میں دوررس فیصلے نہیں کرنے چاہئیں جن کے بارے میں ملکی رائے عامہ تقسیم ہو اور نت نئے قیاسات سامنے آرہے ہوں۔ پاک فوج کے سربراہ کو یہ حقیقت بھی پیش نظر رکھنی چاہئے کہ ملکی آئین کسی آرمی چیف کا معاشی معاملات میں کوئی کردار متعین نہیں کرتا۔ اگر ایک نامکمل اسمبلی کی بنیاد پر ایک متنازعہ حکومت نے سرمایہ کاری میں سہولت کاری کے لیے کوئی اعلیٰ اختیاراتی کونسل قائم بھی کی تھی تو آرمی چیف کو اس کے رکن کے طور پر متحرک کردار ادا کرتے ہوئے یہ ضرور باور کرنا چاہئے کہ شہباز حکومت ملک کی آئینی و قانونی حکومت ہونے کے باوجود متنازعہ تھی اور ملکی عوام کی بڑی اکثریت اسے قبول نہیں کرتی۔ اسی طرح جب کسی اسمبلی سے نصف کے لگ بھگ ارکان مستعفی ہوچکے ہوں تو اسے خواہ جتنا بھی جائز اور آئینی کہا جائے، اس کی اخلاقی و جمہوری حیثیت مشکوک رہے گی۔
یہ دلیل دی جاسکتی ہے کہ پاکستان اس وقت شدید مالی بحران کا شکار ہے اور اسے حل کرنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ اگر اس ایک دلیل پر غور کرتے ہوئے، اسے درست مان لیا جائے تو دیکھا جاسکتا ہے کہ موجودہ حکومت اور فوجی اسٹبلشمنٹ نے موجودہ بے یقینی ختم کرنے کے لیے تو کوئی کام نہیں کیا لیکن معاشی منصوبہ بندی میں سرگرمی کا مظاہرہ کیاجارہا ہے۔ حالانکہ ملک کو درپیش بے شمار چیلنجز سے نمٹنے کے لیے سب سے مناسب اور آئینی طریقہ تو یہی ہوسکتا تھا کہ نگران حکومت قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد فوری انتخابات کا اہتمام کرتی اور تمام ریاستی وسائل اسی مقصد کے لئے بروئے کار لائے جاتے۔ اور فوجی قیادت بھی یہ کام مکمل کرنے کے لیے حکومت اور الیکشن کمیشن کو بھرپور تعاون فراہم کرتی تاکہ کسی کو بھی فوج پر انگلی اٹھانے کی ضرورت محسوس نہ ہوتی۔ بحران کا شکار کسی بھی ملک کو آئین و قانون کے مطابق حکومت قائم کرنا چاہئے تاکہ کسی تاخیر کے بغیر عوام کی منتخب حکومت مسائل حل کرنے کا اقدام کرسکے۔
دیکھا جاسکتا ہے کہ نگران حکومت کو اس حوالے سے کوئی جلدی نہیں رہی۔ نگران وزیر اعظم یہ اعلان کرنے میں کوئی حجاب محسوس نہیں کرتے کہ انتخابات منعقد کروانا ان کی ذمہ داری نہیں ہے۔ یہ الیکشن کمیشن کا کام ہے۔ وہ جب انتخاب کروائے گا، حکومت بھرپور تعاون کرے گی۔ تاہم 90 دن کے اندر انتخابات منعقد کروانے کی درخواستوں پر غور کرتے ہوئے سپریم کورٹ شدید برہمی کا اظہار کرچکی ہے۔ اس معاملہ میں پٹیشنز پر غور کے دوران نشاندہی کی گئی کہ 90 دن کے اندر انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہ کرکے صدر عارف علوی اور الیکشن کمیشن یکساں طور سے آئین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے تھے۔ سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ کے حکم پر چیف الیکشن کمشنر فوری طور پر صدر سے ملے اور 8 فروری کو انتخابات منعقد کروانے کا اعلان کیا گیا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس موقع پر کہا تھا کہ اس تاریخ میں کسی تعطل کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ تین رکنی بنچ کے رکن جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے نوٹ میں تحریر کیا تھا کہ قومی اسمبلی تحلیل ہونے کے 90 دن گزرنے کے بعد انتخابات میں ہر دن کی تاخیر آئین کی خلاف ورزی کے مترادف ہے۔
یہ عدالتی ریمارکس الیکشن کمیشن و نگران حکومت کے لیے سنگین انتباہ تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ عدالت نے حالات سے مجبور ہوکر انتخابات میں تعطل منظورکیا ہے لیکن وہ اس اصول پر اصرار کرتی ہے کہ اسمبلی ٹوٹنے کے 90 دن کے اندر انتخابات منعقد کروانا آئینی تقاضہ ہے جس پر کوئی دلیل نہیں دی جاسکتی۔ اس عدالتی حکم کے باوجود ملک کے نگران وزیر اعظم انتخابات کے بارے میں بے یقینی کی فضا ختم کرنے کے لیے تو متحرک دکھائی نہیں دیتے لیکن اقتدار کی مختصر مدت میں وہ متعدد غیر ملکی دورے کرچکے ہیں۔ حتی کہ وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کرنے کے لیے نیویارک بھی گئے۔ حالانکہ اس اجلاس کی حیثیت علامتی ہوتی ہے اور متعدد ملکوں یا حکومتوں کے سربراہان اس اجلاس میں شرکت کے لیے نائیبین کو بھیج دیتے ہیں۔ تاہم انوار الحق کاکڑ نے شاید یہ سوچ کر دورہ کرنا ضروری سمجھا کہ شاید زندگی میں پھر کبھی انہیں ’وزیر اعظم کا پروٹوکول‘ لینے کا موقع نہ ملے۔
اس دوران میں ایک طرف ملک میں سیاسی تقسیم، بے چینی اور بداعتمادی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے تو دوسری طرف متعدد تجزیہ نگار اور صحافی اب یہ اندر کی ’خبر‘ نکال کر عام کررہے ہیں کہ فروری کی مقررہ تاریخ کو شاید انتخابات منعقد نہ ہوسکیں۔ اور اس کے لئے 2024 کے اواخر تک انتظار کیا جائے۔ نگران حکومت اور الیکشن کمیشن نے اس قسم کی خبروں کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔ اس کا ایک ہی مطلب ہوسکتا ہے کہ مقتدر حلقوں کی تائید سے یہ افواہیں عام کی جارہی ہیں تاکہ سیاسی جماعتوں کے علاوہ عوام کی طرف سے آنے والے رد عمل کا اندازہ کیا جاسکے۔ عدلیہ چونکہ اس حوالے سے واضح اور دو ٹوک مؤقف اختیار کرچکی ہے، اس لیے انتخابات کی تاخیر کے حوالے سے ججوں کی سوچ کا اندازہ کرنا بھی مقصود ہوسکتا ہے۔ موجودہ مشکل حالات میں ایسی خبریں عام کرنا درحقیقت ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔ تاہم دیکھنا ہوگا کہ اگر واقعی نظام کی کسی سطح پر انتخابات فروری سے آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا گیا ہے تو عدلیہ کے سامنے کیا دلیل پیش کی جائے گی اور معزز جج حضرات اسے ماننے کے لیے کن دلائل کو قبول کریں گے۔
تاہم اس بحث سے قطع نظر غور طلب نکتہ یہ ہے کہ نگران وزیر اعظم اور آرمی چیف ملکی معیشت کے لئے بھاری بھر کم منصوبے شروع کرنے اور ان کے لیے زر کثیر حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ملکی معیشت کے لیے اس طرز عمل کو اہم اور ناگزیر سمجھا گیا ہو لیکن ملکی فوجی اسٹبلشمنٹ کو ہرگز فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ اس سے پہلے بھی متعدد مواقع پر ایسے ہی ’وسیع تر قومی مفاد‘ کے عذر پر انتخابات میں جوڑ توڑ اور حکومت سازی میں عوامی خواہشات کے برعکس نتائج سامنے لائے جاتے رہے ہیں ۔ اور ہر بار ایسی کوششیں ملک کے لیے مشکلات و مسائل کا سبب بنی ہیں۔ اس کی تازہ ترین مثال تحریک انصاف کو2018 میں اقتدار تک پہنچانے کا منصوبہ شامل تھا تاکہ شریف و بھٹو خاندان یا مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی سے نجات حاصل کرکے ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کیا جاسکے۔ یہ مقصد پورا نہیں ہوسکا اور 9 مئی کے روز اس منصوبے کے سب کردار ایک دوسرے سے براہ راست دست و گریباں ہوگئے۔
ان حالات میں نئی فوجی قیادت کے لیے ادارے کے وقار اور ملکی بہتری و بہبود کے لیے ماضی سے سبق سیکھنے اور اپنے کام سے کام رکھنے کی حکمت عملی اختیار کرنا ضروری تھا۔ تھیوری کی حد تک تویہی اعلان سامنے ہے لیکن انتخابات سے مسلسل فرار کی صورت حال اور تحریک انصاف کو عاجز کرنے یا عمران خان کو بہر صورت قید رکھنے کے رویہ سے جو تاثر قوی کیا جارہا ہے اس میں مستقبل قریب کی پاکستانی سیاست میں عمران خان یا تحریک انصاف کی کوئی جگہ دکھائی نہیں دیتی۔ لیکن یہ فیصلہ کرنا اداروں کا کام نہیں ہے ۔ انوار الحق کاکڑ اور جنرل عاصم منیر ملکی معیشت کی بحالی کے لیے جو دوڑ دھوپ کررہے ہیں، اسے بھی ملکی نظام میں براہ راست ایسی مداخلت کے طور پر دیکھا جائے گا جس میں عوام کی تائید شامل نہیں ہے۔بہتر ہوگا کہ نگران حکومت اور پاک فوج کو کسی ایسی منصوبہ بندی میں مشغول نہ ہو جو ان کے مینڈیٹ سے متجازو ہے اور ملکی عوام کو شفاف انتخابات میں اپنے لیڈر چننے کا موقع دیا جائے۔ ممکن ہے کہ اقتدار کی کسی سطح پر محسوس کیا جارہا ہو کہ عوام کہیں عمران خان ہی کو منتخب کرکے ایک نیا بحران نہ پیدا کردیں۔ لیکن کسی ممکنہ ’بحران‘ کو ٹالنے کے لئے غیر آئینی ہتھکنڈے ، اس سے بھی بڑی مشکل پیدا کرسکتے ہیں۔ امید کرنی چاہئے کہ فوجی قیادت اس حقیقت کا ادراک کرسکے گی۔
( بشکریہ : کاروان ۔۔ ناروے )
فیس بک کمینٹ