تین جنوری1978ءکے اخبارات میں ایک خبرغیر نمایاں انداز میں شائع ہوئی۔خبر یہ تھی کہ کالونی ٹیکسٹائل ملز ملتان میں پولیس فائرنگ سے 5 مزدور جاں بحق اور متعدد زخمی ہو گئے۔یہ ضیاءالحق کے مار شل لا کا ابتدائی دور تھا۔اخبارات پر سنسر شپ عائد تھااور ایسے میں عوام کو حقائق سے آگاہ کرنا ناممکن تھا۔اگلے روز بعض اخبارات نے شہدا کی تعداد 10 بیان کی اور پھر سرکاری ذرائع کی جانب سے تصدیق کی گئی کہ فائرنگ میں 15 مزدور لقمہ اجل بنے ہیں۔غیر ملکی ذرائع ابلاغ نے مرنے والوں کی تعداد کہیں زیادہ بتائی۔اس المناک واقعے میں کتنے مزدور شہید ہوئے یہ معمہ آج 39سال بعد بھی حل نہیں ہو سکا۔عینی شاہدین بتاتے ہیں کہ کالونی ٹیکسٹائل ملز کا احاطہ نعشوں اور زخمیوں سے بھرا ہوا تھا جنہیں 2اور 3جنوری کی درمیانی شب ملز انتظامیہ نے سرکاری اہلکاروں کی مدد سے ٹھکانے لگا دیا۔پاکستان کی تاریخ میں ہونے والا یہ مزدوروں کا سب سے بڑا قتل عام ہے۔ملتان میں ہر سال 2جنوری کو ان مزدوروں کی یاد منائی جاتی ہے ابتدا میں بہت جوش و خروش کے ساتھ مزدور یہ دن مناتے تھے پھر رفتہ رفتہ یہ تعداد چند لوگوں تک محدود ہو گئی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سب کچھ ماضی کی گرد میں معدوم ہوتا جا رہا ہے۔خونِ خاک نشیناں رزقِ خاک ہو گیا ہے۔
اس قتل عام کے بعد اس وقت کی حکومت کی جانب سے دکھاوے کے اقدامات شروع ہوئے۔پولیس اور انتظامیہ کے چند افسروں کو معطل کیا گیا۔مقدمے درج ہوئے کچھ گرفتاریاں بھی ہوئیں لیکن پھر کچھ عرصہ بعد سب کو رہا کر دیا گیا۔18 جنوری کو محترمہ نصرت بھٹو نظر بندی توڑ کرشہداکے اہلِ خانہ سے تعزیت کے لئے ملتان آئیں۔ انہوں نے ملتان تک کا سفر برقعے میں کیا تھا۔ وہ شہدا کے گھروں میں گئیں اور مزدوروں کے اجتماع سے بھی خطاب کیا۔ محترمہ نے وعدہ کیا کہ ان کی حکومت برسرِ اقتدار آنے کے بعد ان بے گناہ افراد کے خون کا حساب لے گی۔محترمہ نصرت بھٹو کے دورہ ملتان کے اگلے روزضیا الحق نے اس سانحے کی تحقیقات تیز کرنے کا حکم دیا اور محترمہ نصرت بھٹوکودوبارہ نظربند کرنے کے احکامات جاری کر دئے گئے۔
جن کی لاشیں رات کی تاریکی میں غائب کر دی گئیں ان کے ورثامدتوں ان کی راہ تکتے رہے۔کتنے لوگ جان سے گئے؟ یہ معمہ کبھی حل نہ ہو سکا۔شہدا کی تعداد کے بارے میں متضاد اطلاعات گردش کرتی رہیں۔پھرکچھ روز بعد روز نامہ امروز نے انور امروہوی صاحب کی بنائی ہوئی ایک تصویر شائع کی۔یہ کالونی ملز کے سائیکل سٹینڈ پر موجود ان 80 سے زیادہ سائیکلوں کی تصویر تھی جنہیں دو جنوری کے بعد کوئی لینے نہیں آیا تھا۔یہ تصویر ایک مکمل خبرتھی۔یہ تصویر ظاہر کرتی تھی کہ جسے اظہار کا ہنر آتا ہو اس کے لئے پابندیاں کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ انور امروہو ی کی تصویر سے ایک بات تو طے ہوئی کہ اس فائرنگ میں80سے زیادہ ایسے مزدور شہید ہوئے جو سائیکل پر گھر سے آتے تھے۔پیدل آنے والے کتنے لقمہ ءاجل بنے ان کے حوالے سے کوئی تصویرتو انور امروہوی بھی تلاش نہیں کر سکتے تھے۔
( بشکریہ : روزنامہ سب نیوز اسلام آبا د )
فیس بک کمینٹ