مجیب الرحمان شامی میرے فیورٹ صحافی اور اہل قلم ہیں۔ وہ شام چوراسی کے’’ گدی نشین‘‘ بھی ہیں۔ میںویسے اس حوالے سے ان سے بہت پیار کرتا ہوں کہ صف اول کے صحافی تجزیہ نگار ہونے کے باوصف وہ بہت اعلیٰ درجے کے انسان بھی ہیں، اپنے اور غیر ان کے پاس کسی کام کیلئے آتے ہیں، اگر وہ کام ان کے اپنے بس میں ہو تو خود کردیتے ہیں ورنہ فون پکڑ کر بیٹھ جاتے ہیںاور دھڑا دھڑ کالیں کھڑکانے لگتے ہیں، ان کی شخصیت میں ایک بات تو ایسی ہے جو بہت کم لوگوں میں نظر آتی ہے اور وہ ان کا سماجی کردار نبھانا ہے، وہ لوگوں کی خوشی غمی میں شریک ہوتے ہیں، لاہور اور لاہور سے باہر بھی کسی جاننے والے کی وفات ہو جائے تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتاکہ وہ اس کے جنازے یا قلوں میں شریک نہ ہوں، اسی طرح شادی بیاہ ہو یا کسی دوست نے محفل سجائی ہو تو شامی صاحب اپنی بھاری بھرکم مصروفیات کے باوجود ان مواقع پروہاں موجود ہوتے ہیں ۔شامی صاحب ایک کام اور کرتے ہیں، اپنے قد و قامت سے بہت فروتر افراد کو وہ عزت دیتے ہیں اور ان کے اعزاز میں ہونے والی تقریب میں اس کیلئے اتنے تعریفی الفاظ ادا کرتے ہیں کہ وہ پھر عمر بھرشامی صاحب کے ادا کئے ہوئے الفاظ کی عزت رکھنے میں لگا رہتا ہے اور ہاں اس زاہد کی دوستی رندوں سے بھی ہے، چنانچہ میں نے احمد فرازاور شامی صاحب کو آپس میں چہلیں کرتے بھی دیکھا ہے۔ شامی صاحب بہت مجلسی شخصیت ہیں، جس محفل میں ہوں اس میں مرکزنگاہ بن جاتے ہیں، تابڑ توڑ حملے کرتے بھی ہیں اور سہتے بھی ہیں، ان کا قہقہہ بہت جاندار ہوتا ہے،اس میںآواز نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی، آمد آمد ہی ہوتی ہےاورہاں ادب سے بھی گہرا شغف رکھتے ہیں، بزرگوں کے ادب کے علاوہ شعر و ادب سے بھی ان کا گہرا ناتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ تحریر اور تقریر کے بھی سکندر ہیں۔ تقریب کی مناسبت سے ان کی آواز کا والیم کم یازیادہ اور کبھی کبھی بہت زیادہ بھی ہو جاتا ہے۔ کبھی کبھار تو ایسے بھی ہوتا ہے کہ والیم کم کرنا ممکن نہیں رہتا، بس اسے کم کرنے میں وہ تب کامیاب ہوتے ہیں جب انکا گلا جواب دے جائے۔
اور جہاں تک ان کے صحافتی مرتبے کاتعلق ہے میرے نزدیک وہ باقیات صالحات میں سے ہیں، ڈھونڈو گے انہیں برسوں برسوں کہ اب یہ نایاب ہوتے جا رہے ہیں، ماضی کے بڑے صحافیوں کی طرح صحافت،خطابت اور سیاست ان کے گھر کی لونڈی ہے۔ شامی صاحب صحافت کے وسیلے سے سیاست میں بھی سرگرم رہے ہیں، چنانچہ اس کی پاداش میں ان کاہفت روزہ بھی بند ہوا، جیل بھی گئے، مگر پیچھے نہیں ہٹے۔ الطاف حسن قریشی، مجیب الرحمان شامی اور حسین نقی، بھٹو صاحب کے زمانے میں قید ہوئے، میں نے اس زمانے میں ایک کالم بھی لکھا تھا جس کا عنوان تھا کسی اور صاحب کو اعتراض؟ حوالہ اس کا یوں تھا کہ ایک خان صاحب نے تھڑے پر اپنی ادویات سجائی ہوئی تھیں اور جب ان کی فضیلت پر لمبی چوڑی تقریر کر چکے تو سامعین کو مخاطب کرکے کہا ’’آپ میں سے کسی صاحب کو اعتراض ہے تو وہ ہاتھ کھڑا کرے، اس پر ایک تماشائی نے ہاتھ کھڑا کیا تو خان صاحب نے کہا ’’تم بکواس نہ کرو، کسی اور بھائی کو کوئی اعتراض؟ اس کا پس منظر یہ تھا کہ بھٹو صاحب نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ وہ تنقید کا برا نہیں مانتے، چنانچہ جسے کوئی اعتراض ہے وہ کھل کر اس کا اظہار کرے۔ سو ان تینوں نے اس اعلان کو سچ جانا اور بھٹو صاحب نے عملی طور پر وہ کیا جو خان صاحب نے منہ زبانی کہا تھا۔
مجھے ابھی اور بہت کچھ کہنا تھا مگر ایک تقریب کے منتظمین میرا انتظار کر رہے ہیں اور یوں یہ تحریر ادھوری رہ گئی ہے۔ آخر میں صرف یہ کہ انہوں نے بدنام زمانہ جج ثاقب نثار کی بھری عدالت میں ایسی کی تیسی پھیر دی تھی، اور ’’جابر سلطان‘‘ کے سامنے کلمۂ حق کہنے والے صحافی ہی آبروئے صحافت ہوتے ہیں۔
(بشکریہ:روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ