اِن سے ملیے، نام ہے ع غ ، تخلص بھی یہی ہے لیکن عجیب بات ہے کہ آپ شاعر نہیں ہیں، تخلص اِس لیے رکھ چھوڑا ہے تاکہ لوگ آپ کو شاعر سمجھ کر ’غم غلط کرنے‘ کی رعایت دے دیا کریں۔اِن کا اصل تعارف یہ ہے کہ آپ لبرل ازم کے پرچارک ہیں،ملکی اور غیر ملکی سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں، اکثر مجالس اور تقریبات میں آپ کو اظہار خیال کیلئے مدعو کیا جاتا ہے، اگر ایسی مجالس دن کے وقت ہوں تو احتیاطاً ساتھ اپنی (پانی کی) بوتل رکھ لیتے ہیں تاہم رات کو انہیں یہ تردد نہیں کرنا پڑتاکہ شہر میں اِن کے قدردانوں کی کمی نہیں۔ دل کی بجائے دماغ سے سوچتے ہیں اور قوم کو بھی یہی مشورہ دیتے ہیں کہ وہ ہر معاملے میں جذباتی نہ ہوا کرے،یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر معاملات میں اُن کی رائے درست ہوتی ہے ،وہ عقل وخرد کی بنیاد پر تجزیہ کرتے ہیں اور اکثر ایسی پوزیشن لے لیتے ہیں جو مقبول عام بیانیے سے مطابقت نہیں رکھتی اور یوں کبھی کبھار انہیں اچھی خاصی مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ مگر سچی بات ہے کہ مسٹر ع غ اِس مخالفت کی پروا نہیں کرتے اور اپنی رائے پر ڈٹے رہتے ہیں اِلّا یہ کہ کوئی انہیں دلیل سے قائل کر لے۔ اِس معاملے میں اِن کی تعریف نہ کرنا زیادتی ہوگی البتہ جہاں مذہب کی بات آ جائے وہاں نہ جانے کیوں اِن کا تعصب جاگ اٹھتا ہے۔ دنیا میں کہیں بھی مسلمانوں کو مار پڑ رہی ہو، ع غ صاحب لٹھ لے کر مسلمانوں کے ہی پیچھے پڑ جائیں گے کہ ہو نہ ہو انہوں نے ہی کچھ کیا ہو گا۔ اِس بارے میں اُن کی کیفیت اُس باپ جیسی ہو جاتی ہے جسے ہر جھگڑے میں اپنی اولاد ہی قصور وار لگتی ہے۔ مذہب سے انہیں خدا واسطے کا بیر ہے ، تاہم بوجوہ یہ اِس بات کا کھلم کھلا اظہار نہیں کر سکتے۔ جب سے فلسطین میں جنگ شروع ہوئی ہے مسٹر ع غ کیلئے دہری مشکل آن پڑی ہے، چونکہ پوری امت مسلمہ فلسطین کے ساتھ (لولی لنگڑی ہی سہی) کھڑی ہے اِس لیے آپ آئے دن اِس کھوج میں رہتے ہیں کہ کسی طرح اِس جنگ میں اسرائیل کی کارروائیوں کو جائز قرار دے دیں۔ ویسے اگر کوئی شخص رات بارہ بجے کے بعد مسٹر ع غ کے سامنےامت مسلمہ کی اصطلاح استعمال کرے تو جھوم جھوم کر اُس کا مذاق اڑاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اِس نام کی کمپنی کب کی بند ہوچکی ،اب بیچنے کیلئے کوئی نیا منجن لاؤ۔
اب ط ظ سے بھی مل لیجیے،کاروباری آدمی ہیں، اچھے نیک اور صالح انسان ہیں، پانچ وقت کےنہ سہی مگر نمازی ہیں، جمعے کی نماز تو ضرور پڑھتے ہیں جس کے بعد اُمت مسلمہ کی ترقی اور خوشحالی کیلئے دعائیں مانگتے ہیں۔ چونکہ جذباتی آدمی ہیں اِس لیے بحث و مباحثے کے دوران اکثر غصے میں آجاتے ہیں خاص طور پر اُس وقت جب اِن کے پاس دلیل ختم ہو جائے۔ ایسے میں بات چاہے دنیا کےکسی بھی موضوع پر ہو رہی ہو ط ظ صاحب مغربی ممالک میں کیڑے نکالنے لگ جاتے ہیں۔ اپنے مخالف کو چِت کرنے کیلئےیہ اُن کا آخری ہتھیار ہوتا ہے، انہوں نے مختلف مغربی ممالک کے خلاف چند اعداد و شمار رٹے ہوئے ہیں جنہیں وہ ہر بات میں بطور ’دلیل‘ استعمال کرتے ہیں۔ اگر آپ اُن سے پوچھیں کہ ملک میں مذہبی تنگ نظری کیوں ہے تو وہ اِس بات کا جواب دینے کی بجائے توپوں کو رُخ کسی ایسے یورپی ملک کی طرف کرلیں گے جہاں ریپ کیسز زیادہ ہوتے ہیں، اور پھر اپنے مد مقابل کوایسی نظروں سے دیکھیں گے جیسے کہہ رہے ہوں کہ کیوں کیسی رہی بچُّو! مذہبی رجحان رکھنےکے باوجود ط ظ صاحب کو ماڈرن نظر آنے کا شوق ہے، اسی لیے آپ نے داڑھی تو رکھی ہے مگر فیشنی، اسی طرح آپ کو پینٹ کوٹ پہننا بھی اچھا لگتاہے اور کبھی کبھارتیراکی کیلئے جائیں تو ’سوئمنگ کاسٹیوم‘ کے نام پر ایسا زیر جامہ چڑھا کر جاتے ہیں کہ جس سے بمشکل ہی کلب میں داخلے کی اجازت ملتی ہے ۔لیکن دل کے اچھے ہیں، کھُل کر صدقہ خیرات کرتے ہیں، طبیعت چونکہ نیکی کی طرف مائل ہے اِس لیے کسی (بیوہ) کو دکھی نہیں دیکھ سکتے ، دوسری شادی بھی ایک نوجوان بیوہ سے ہی کر رکھی ہے۔ نیکی کر دریا میں ڈال کے قائل ہیں اِس لیے دوسری شادی کا رازآج تک کسی پر افشا نہیں کیا۔
میری نیاز مندی اِن دونوں صاحبان سے ہے لیکن مصیبت یہ ہے کہ دونوں اکثر ناراض رہتے ہیں، اگر میں ع غ کے سامنے فلسطین کا مقدمہ پیش کروں تو موصوف پنجے جھاڑ کر پیچھے پڑ جاتے ہیں اور یہ دلیل تراش لاتے ہیں کہ دنیا میں ہر جگہ مسلمان نا خوش اور غیر مطمئن ہیں اور اِس کی وجہ وہ خود ہیں۔ اب میں لاکھ انہیں سمجھاؤں کہ قبلہ فلسطینیوں میں مسلمان ہی نہیں مسیحی بھی شامل ہیں اور اُن کی مزاحمت مذہب کی بنیاد پر نہیں لیکن اُس موقع پر مسٹر ع غ کا دماغ بند ہوجاتا ہے اور وہ بالکل کسی تنگ نظر جنونی شخص کی طرح برتاؤ کرنے لگتے ہیں۔ دوسری طرف ط ظ کا حال بھی مختلف نہیں ، اگر میں اُن سے کبھی یہ بحث کروں کہ ملک میں مذہبی عدم برداشت بڑھتی جا رہی ہے لہٰذا ضروری ہے کہ ملک کو سیکولر ریاست بنایا جائے کیونکہ انڈیا میں مسلمان اقلیتیں اپنے تحفظ کیلئے سیکولر ازم میں ہی پناہ لیتی ہیں تو جوا ب میں وہ پھنکار کر کہتے ہیں کہ پھر تم انڈیا ہجرت کر جاؤ۔ ظاہر ہے کہ اِس مرحلے پر ط ظ سے گفتگو کرنا بھی ممکن نہیں رہتا۔
کبھی کبھی مجھے یوں لگتا ہے کہ ہم میں سے ہر شخص یا تو ع غ ہے یا پھر ط ظ ، اپنے اپنے تعصبات کا شکار اور اپنے اپنے نظریات پر جامد۔ سچ کوئی بھی نہیں سننا چاہتا۔ اب اِس جملے کو ہی دیکھ لیں، اپنے تئیں میں سچ کا پرچارک ہوں اور ع غ اور ط ظ کو غلط سمجھتا ہوں، حالانکہ عین ممکن ہے کہ میں غلط ہوں اور اِن دونوں میں سے کوئی درست لیکن پوسٹ ماڈرن ازم کے اِس دور میں صحیح اور غلط کا فیصلہ کیسے ہو؟ مجھ سے تو یہ فیصلہ نہیں ہوتا، سو اب آپ ہی دستار اتار کر فیصلہ کردیں کہ ’لوگ کہتے ہیں کہ سر ہوتے ہیں دستاروں میں!‘
(بشکریہ:روزنامہ جنگ)
فیس بک کمینٹ