سانحہ 9 مئی کو ایک سال بیت گیا۔ ملک کی تین صوبائی اسمبلیوں نے ایک سال پہلے اس روز منعقد ہونے والے واقعات کی مذمت میں قرار دادیں منظور کی ہیں۔ اس سے پہلے پاک فوج کے ترجمان نے دو ٹوک الفاظ میں تحریک انصاف سے معافی مانگنے کا مطالبہ کیا تھا۔ پارٹی نے اگرچہ اس مطالبے کو مسترد کیا ہے لیکن یہ خبریں بھی سامنے آئی ہیں کہ عمران خان نے سابق صدر عارف علوی کو اسٹبلشمنٹ سے مواصلت کے راستے ہموارکرنے کی ذمہ داری سونپی ہے۔
تحریک انصاف نے اس دن رونما ہونے والے واقعات کے حوالے سے پرزور سوشل میڈیامہم جوئی بھی کی ہے اور اس کے لیڈر بھی مسلسل اس احتجاج کے دوران میں ہونے والی غیر قانونی حرکتوں کی کوئی ذمہ داری قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایک طرف صدر مملکت، وزیر اعظم اور آرمی چیف اس دن رونما ہونے والے واقعات کو ریاست سے بغاوت اور فوج کو لڑانے کی کوشش قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق یہ ایسے جرائم ہیں جنہیں معاف نہیں کیا جاسکتا۔ دوسری طرف تحریک انصاف نے اصرار کیا ہے کہ معافی اسے نہیں بلکہ فوج کو مانگنی چاہئے۔
آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے اس دن ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’9 مئی 2023 کو پیش آنے والے واقعات کے اصل ذمہ داران کے خلاف ناقابل تردید شواہد موجود ہیں اور ان منصوبہ سازوں سے کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔ وہ عناصر جو اس مجرمانہ عمل کے پس پردہ اصل مقصد کو نہیں سمجھ سکے اور منصوبہ سازوں کے سیاسی عزائم کے لیے چارے کے طور پر استعمال ہوئے، سپریم کورٹ آف پاکستان کی ہدایت پر انہیں پہلے ہی شک کا فائدہ دیا جا چکا ہے۔ تاہم اس عمل کے اصل ذمہ داران جو اب خود کو متاثرین کے طور پر پیش کرتے ہیں، اپنے اعمال کے لیے جوابدہ ہوں گے۔ خاص طور پر جب منظم تشدد اور تخریب کاری میں ان کے ملوث ہونے کے ناقابل تردید شواہد موجود ہیں‘۔
ایک طرف پاک فوج اور مرکزی حکومت اور تین صوبائی حکومتوں کا مشترکہ مؤقف ہے تو دوسری طرف تحریک انصاف ابھی تک یہ سمجھنے پر آمادہ نہیں ہے کہ اسے سانحہ9 مئی کے حوالے سے اپنی غلطی کا ادراک کرکے ملکی سیاست میں مثبت کردار ادا کرنے کے لیے تیار ہونا چاہئے۔ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں تحریک انصاف کی قابل ذکر نمائیندگی کے علاوہ خیبر پختون خوا میں پارٹی کی حکومت موجود ہے۔ اس لیے کوئی ذی شعور پی ٹی آئی کی سیاسی اہمیت سے انکار نہیں کرسکتا۔ دھاندلی کے الزامات اور اور انہیں مسترد کرنے کے طرز عمل کو نظرانداز بھی کردیا جائے تو بھی 8 فروری کو منعقد ہونے والے انتخابات میں عوام کی ایک بڑی اکثریت نے تحریک انصاف کی حمایت میں ووٹ دیے تھے۔ پارٹی اس انتخابی کامیابی کو بجا طور سے اپنی کامیابی سے تعبیر کرتی ہے لیکن ساتھ ہی یہ سچائی ماننے سے انکار کرتی ہے کہ عوام نے تحریک انصاف کو ملک میں سیاسی انتشار پیدا کرنے کے لیے ووٹ نہیں دیا تھا بلکہ یہ ذمہ داری سونپی ہے کہ وہ ملک کو درپیش مسائل حل کرنے میں ہاتھ بٹائے۔
کسی جمہوری نظام میں کوئی پارٹی اپنی اس ذمہ داری سے انکار نہیں کرسکتی۔ اگر سیاسی لیڈر اور پارٹیاں انتخابات میں حسب مرضی کامیابی حاصل نہ کرنے کے بعد ملکی سیاست میں بحران کی کیفیت پیدا کرنے میں مصروف رہیں گی تو اس کا ایک ہی مقصد اخذ کیا جاسکتا ہے کہ متعلقہ پارٹی اپنے ہی ووٹروں کے اعتماد پر پورا اترنے میں ناکام ہورہی ہے۔ اس تناظر میں تحریک انصاف کے قائدین کی یہ دلیل قبول نہیں کی جاسکتی کہ عوام نے چونکہ اسے ملک پر حکمرانی کے لیے ووٹ دیے ہیں جسے دھاندلی سے تبدیل کردیا گیا ہے اس لیے جب تک اس کا ’چوری شدہ مینڈیٹ‘ واپس نہیں کیا جائے گا، وہ کسی سیاسی مفاہمت کا آغاز نہیں کرسکتی۔ انتخابات میں ووٹر اپنی صوابدید کے مطابق ایسے لوگوں یا پارٹی کو ووٹ دیتا ہے جو اس کے خیال میں ملکی مشکلات کا بہتر حل سامنے لاسکتی ہے۔ کوئی ووٹر ’سیاسی جنگ‘ جاری رکھنے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ البتہ کسی بھی سیاسی پارٹی کے کارکن ضرور کوئی انتخابی مقصد حاصل نہ ہونے پر جزبز ہوسکتے ہیں۔ لیکن اس ناراضی یا مایوسی کو عوام کی خواہش قرار دینا ناجائز اور افسوسناک رویہ ہے۔ یوں بھی قیادت کا دعویٰ کرنے والے لوگوں پر فرض ہے عوامی تائید قوم و ملک کی رہنمائی کے لیے استعمال کی جائے۔ اپنے حامیوں کو درست اور غلط میں تمیز کا شعور نہ دینے والے لیڈر یا پارٹیاں کسی بھی معاشرے میں جمہوریت کو کمزور کرنے کا سبب بنتی ہیں۔
ان حالات میں تحریک انصاف کی طرف سے تصادم کی کیفیت پیدا کرنے پر سنجیدہ سوال اٹھائے جاسکتے ہیں۔ کہنے کا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ تحریک انصاف یا کسی سیاسی گروہ کو اگر کسی حلقے میں بے قاعدگی کا شبہ ہے اور اس کے پاس متعلقہ اداروں میں اس حلقے کے نتائج تبدیل کروانے کے لیے شواہد بھی ہیں ، تو وہ اس قانونی طریقے کو استعمال نہ کریں۔ البتہ تحریک انصاف سمیت تمام سیاسی پارٹیوں کو یہ بھی ماننا چاہئے کہ انتخابات ایک بڑا وقوعہ ہوتا ہے۔ انتخابی مہم کے دوران میں ووٹروں کو متاثر کرنے کے لیے ہر طرح کا لب و لہجہ اختیار کیا جاتا ہے۔ جذباتی نعرے لگائے جاتے ہیں ۔ حتی کہ الزام تراشی کو حقیقت بناکر پیش کرکے ووٹروں کی توجہ حاصل کی جاتی ہے۔ لیکن انتخابات کے بعد مروجہ قانونی طریقے سے غلطیوں کے سدھار کی بجائے دھاندلی کے نام پر ہنگامہ آرائی اور انتشارکی صورت حال، جیتنے یا ہارنے والی کسی بھی پارٹی کے لیے سود مند نہیں ہوسکتی کیوں کہ اس سے ملک کا نقصان ہوتا ہے۔ اور جمہوری طریقے میں انتخابات یا عوام سے رائے لینے کا طریقہ اختیار کرنے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ مسائل حل کرنے کی طرف بڑھا جائے اور انتخابی مہم جوئی کے دوران پیدا کیا گیا ہیجان ختم کیا جائے۔ جو سیاسی عناصر انتخابات کے بعد اس طرف پیش قدمی سے گریز کرتے ہیں، وہ درحقیقت جمہوری کردار سے روگردانی کے مرتکب ہورہے ہوتے ہیں۔
عمران خان اور تحریک انصاف ’چوری شدہ مینڈیٹ‘ کا نعرہ لگا کر درحقیقت ملکی نظام کو مسترد کررہی ہے۔ اسی لیے نہ وہ اسمبلیوں میں بھرپور کردار ادا کرنے پر توجہ مبذول کر پارہی ہے اور نہ ہی سیاسی مفاہمت کے لیے راستہ ہموار کیا جارہا ہے۔ جمہوری حوالے سے عمران خان کے اس دعوے کو قبول نہیں کیاجاسکتا کہ ’چوروں‘ سے بات نہیں ہوسکتی۔ یا یہ کہ یہ حکومت تو ’کٹھ پتلی‘ ہے جس کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے۔ یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کسی کے قصور وار یا بے قصور ہونے کافیصلہ سیاسی لیڈروں کے بیانات سے نہیں بلکہ ملکی عدالتوں میں ہوتا ہے۔ دوسرے ان ’چوروں‘ کو بھی عوام نے اسی طرح ووٹ دے کر منتخب کیا ہے جیسے تحریک انصاف کے لوگ عوام کی حمایت سے اسمبلیوں میں پہنچےہیں۔ جمہوریت میں ایک دوسرے کو قبول کرنا اور احترام کرنا بنیادی اصول کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسے تسلیم کیے بغیر کوئی جمہوری نظام فعال نہیں ہوسکتا۔ اس لیے تحریک انصاف نے سیاسی مخالفین کو چور اور قوم دشمن قرار دے کر سیاسی جنگ جوئی کا جو ماحول پیدا کیا ہے، سے تبدیل کرنا ضروری ہے۔
سیاست جنگ نہیں ہوتی اور سیاسی معاملات میں فتح و شکست جیسی اصطلاحات استعمال نہیں ہونی چاہئیں لیکن بدقسمتی سے پاکستانی سیاست میں الزام تراشی اور گالی گلوچ کا ماحول پیدا کیا گیا ہے، سیاسی رویے خون آشام ہوچکے ہیں جن میں مواصلت و مصالحت ناپید ہے۔ اسی لیے مسائل کے حل کے لیے کسی باہمی تفہیم تک پہنچنے کی بجائے شرائط منوانے کا طریقہ دیکھنے میں آتا ہے۔ حالانکہ جمہوریت میں شرائط عائد کرنے کی بجائے اپنا مؤقف بیان کیا جاتا ہے اور دوسرے کی دلیل سنی جاتی ہے اور کسی ایسے نکتے پر اتفاق کرلیا جاتا ہے جسے عام طور سے درمیانی راستہ کہا جاتا ہے۔
البتہ اگر عمران خان سیاسی عناصر کو مسترد کرتے ہوئے ’اصل طاقت ور حلقوں‘ کے ساتھ معاملات طے کرنے کا رویہ اختیار کررہے ہیں۔اس سے ملک میں سیاسی شعور یا جمہوری روایت کو فروغ نہیں ملے گا۔ نہ ہی سیاست میں اسٹبلشمنٹ یا فوج کا اثر و رسوخ کم ہوسکے گا ۔ یہ مقصد دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ مل کر ہی حاصل کیا جاسکتا ہے، اسی لیے تحریک انصا ف کو مسلسل سیاسی مشکلات کا سامنا ہے۔
عمران خان نے سانحہ 9 مئی کو ایک اہم مسئلہ سمجھ کر حل کرنے کی بجائے اسے سیاسی نعرے کی حیثیت دی اور دعویٰ کیاکہ الزام لگانے والوں نے ہی درحقیقت تحریک انصاف کو پھانسنے کے لیے یہ چال چلی تھی۔ فوج اس مؤقف کو مسترد کرچکی ہے۔ لیکن اگر عمران خان کی بات درست مان بھی لی جائے تو بھی انہیں اس بات کا جواب تو دینا ہوگا کہ تحریک انصاف ایک بڑی اور مقبول پارٹی ہونے کے باوجود اس جال میں کیسے پھنس گئی ۔ اور ہر اس جگہ پر اس کے کارکن کیوں موجود تھے جہاں عسکری تنصیبات یا شہدا کی یادگاروں پر حملے کیے گئے تھے۔ عمران خان کی دلیل یوں بھی کمزور ہوجاتی ہے کہ تحریک انصا ف فوج ہو یا عدالت ، ان سے اپنی مرضی کے فیصلے لینا چاہتی ہے۔ اگر یہ خواہش پوری نہ ہو تو اس کا سوشل نیٹ ورک متعلقہ اداروں کے علاوہ ان کے سربراہان کے خلاف نفرت انگیز مہم جوئی میں مصروف ہوجاتا ہے اور اس مقصد کے لیے جھوٹ کا ہرطریقہ روا رکھا جاتا ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے خلاف تحریک انصاف کا پروپیگنڈا اس بات کے ثبوت میں دیکھا یا سنا جاسکتا ہے۔
فوج نے تحریک انصاف کو سانحہ 9 مئی پر معافی مانگنے کا مشورہ دیا ہے۔ اس کے جواب میں خیبر پختون خوا کے وزیر اعلیٰ امین گنڈا پور نے کہا ہے کہ ’ بااختیار طاقتیں عام معافی کا اعلان کرکے آگے بڑھیں اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کریں‘۔ اگر تحریک انصاف نے کوئی قصور کیا ہی نہیں تو گنڈا پور کس ’جرم یا جرائم‘ سرزد ہونے پر عام معافی کی خواہش کا اظہار کررہے ہیں؟ اور اگر کوئی غلطی کی گئی ہے تو اس پر معافی مانگنے میں کیا حرج ہے۔ معافی مانگنے کے بعد ہی معافی قبول کرنے کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے۔
عمران خان اب بھی یہ ‘جنگ‘ جیت سکتے ہیں لیکن انہیں سیاسی طریقے اختیار کرنا ہوں گے اور مقبول نعرے ترک کرکے ہوشمندی سے کام لینا پڑے گا۔ غلطی مان لینے سے کوئی انسان چھوٹا نہیں ہوجا تا اور نہ ہی کسی سیاست دان کا قد کم ہوتا ہے۔ انہیں سانحہ9 مئی کی مذمت کرکے اور اس روز توڑ پھوڑ اور مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث عناصر سے لاتعلقی کا اعلان کرنا چاہئے۔ اس طرح وہ پاک فوج کے ساتھ اظہار یک جہتی کرکے یہ ثابت کرسکیں گے کہ وہ اداروں میں تقسیم نہیں چاہتے۔ اور طاقت کے زور پر کامیابی کی بجائے سیاسی و جمہوری طریقوں پر یقین رکھتے ہیں۔ یہی عمران خان اور اس ملک کے شہریوں کی کامیابی ہوگی۔
(بشکریہ: جیونیوز)
فیس بک کمینٹ