پاکستان میں آئینِ پاکستان 1973ء سے اب تک متعدد مرتبہ ترامیم کا شکار رہا ہے۔ ہر ترمیم کا مقصد ریاستی اداروں کے درمیان توازنِ اختیار قائم کرنا اور نظامِ حکومت کو عصری تقاضوں کے مطابق ڈھالنا ہوتا ہے۔ مگر جب کوئی ترمیم متنازع ہو جائے اور سپریم کورٹ اُسے کالعدم قرار دے دے تو نہ صرف قانون بلکہ پورا سیاسی و آئینی ڈھانچہ لرز اٹھتا ہے۔ اگر سپریم کورٹ کے فل بنچ نے چھبیسویں آئینی ترمیم کو کالعدم قرار دیا تو اس کے نتیجے میں کئی سنگین قانونی، سیاسی اور ادارہ جاتی مسائل جنم لے سکتے ہیں جن کے اثرات آنے والے برسوں تک محسوس کیے جائیں گے۔
چھبیسویں آئینی ترمیم کے تحت عدلیہ کے بعض انتظامی معاملات مثلاً ججز کی تقرری، چیف جسٹس کے انتخاب اور کارکردگی کی جانچ کے طریقہ کار میں تبدیلیاں تجویز کی گئی تھیں۔ اگر سپریم کورٹ اسے کالعدم قرار دیتی ہے تو سب سے پہلا سوال عدلیہ کی خودمختاری سے جڑا ہوگا کیونکہ ترمیم ختم ہونے کے بعد وہ تمام اصول جو اس ترمیم کے تحت بنائے گئے تھے ازخود ختم ہو جائیں گے۔ اس سے ایک آئینی خلاء پیدا ہوگا کہ آئندہ ججز کی تقرری یا چیف جسٹس کے انتخاب کا طریقہ کیا ہوگا، آیا پرانے اصول بحال ہوں گے یا نئے طریقہ کار کی ضرورت پیش آئے گی۔ یہ ابہام عدالتی نظام میں انتشار پیدا کرسکتا ہے اور عدلیہ کے اندر خود ایک انتظامی بحران جنم لے سکتا ہے۔
اگر کوئی آئینی ترمیم کئی سال تک نافذ رہی ہو اور بعد میں کالعدم قرار دی جائے تو اس کے تحت کیے گئے فیصلے، تقرریاں اور عدالتی کارروائیاں قانونی پیچیدگیوں میں گھر جاتی ہیں۔ مثلاً اگر کسی جج کی تقرری، برطرفی یا کسی عدالتی فیصلے کی بنیاد چھبیسویں ترمیم پر رکھی گئی ہو تو اب اس کی آئینی حیثیت مشکوک ہو جائے گی۔ ایسے درجنوں مقدمات دوبارہ عدالتوں میں دائر کیے جا سکتے ہیں جس سے عدلیہ پر مقدمات کا بوجھ بڑھ جائے گا اور عدالتی کارکردگی مزید سست ہو سکتی ہے۔
پاکستان میں ماضی سے یہ روایت چلی آ رہی ہے کہ جب بھی سپریم کورٹ کسی آئینی ترمیم کو کالعدم قرار دیتی ہے تو حکومت اور عدلیہ کے درمیان تناؤ بڑھ جاتا ہے۔ یہی صورت حال اس بار بھی پیدا ہو سکتی ہے۔ پارلیمنٹ اس فیصلے کو عدلیہ کی حد سے تجاوز قرار دے سکتی ہے جبکہ عدلیہ اسے آئین کے تحفظ کے طور پر پیش کرے گی۔ یہ کشمکش دونوں اداروں کے درمیان محاذ آرائی کو جنم دے سکتی ہے جیسا کہ ماضی میں اٹھارویں ترمیم اور ججز بحالی کیس کے وقت دیکھا گیا تھا۔ نتیجتاً قانون سازی کا عمل متاثر ہوگا اور حکومتی پالیسیوں پر عدلیہ کی نگران حیثیت مزید تنقید کا نشانہ بن سکتی ہے۔
ترمیم کی منسوخی کے بعد سیاسی جماعتیں اس فیصلے کو اپنے سیاسی مفادات کے لیے استعمال کریں گی۔ حکومت ممکنہ طور پر اسے عدلیہ کی سیاسی مداخلت قرار دے سکتی ہے جبکہ حزبِ اختلاف اسے جمہوریت کی فتح کہے گی۔ اس سے میڈیا اور عوامی سطح پر بیانیاتی جنگ شروع ہوگی جو ادارہ جاتی وقار کو مزید کمزور کر سکتی ہے۔ پاکستان کے موجودہ سیاسی ماحول میں جہاں ہر ادارہ دوسرے پر بداعتمادی کا شکار ہے وہاں ایسا عدالتی فیصلہ مزید کشیدگی کا باعث بنے گا۔
پاکستان میں بیرونی سرمایہ کار اور بین الاقوامی ادارے ہمیشہ آئینی تسلسل کو ایک مثبت اشارہ سمجھتے ہیں۔ اگر سپریم کورٹ ایک بڑی آئینی ترمیم کو کالعدم قرار دیتی ہے تو یہ پیغام جائے گا کہ ملک میں قانون غیر یقینی کا شکار ہے۔ اس سے نہ صرف بیرونی سرمایہ کاری متاثر ہوگی بلکہ داخلی سطح پر بھی کاروباری اداروں اور بیوروکریسی میں اضطراب پیدا ہوگا۔ ایک ایسا ملک جہاں آئین بار بار بدلتا رہے یا عدلیہ ترمیمات کو رد کر دے وہاں طویل المدتی منصوبہ بندی تقریباً ناممکن ہو جاتی ہے۔
چھبیسویں ترمیم کے کچھ پہلو وفاق اور صوبوں کے درمیان مالیاتی اختیارات سے متعلق تھے۔ اگر یہ ترمیم منسوخ ہوئی تو صوبے دوبارہ اپنے مالیاتی حقوق کے بارے میں تحفظات ظاہر کر سکتے ہیں۔ این ایف سی ایوارڈ، صوبائی خودمختاری، اور ترقیاتی فنڈز کی تقسیم جیسے معاملات ایک بار پھر قومی مباحثے کا موضوع بن جائیں گے۔ یہ صورتِ حال وفاقی اکائیوں میں بے چینی بڑھا سکتی ہے جو پہلے ہی مرکز کی بالادستی پر نالاں ہیں۔
اگر سپریم کورٹ کے فل بنچ نے واقعی چھبیسویں آئینی ترمیم کو کالعدم قرار دیا تو یہ محض ایک عدالتی فیصلہ نہیں بلکہ آئینی تاریخ کا نیا موڑ ہوگا۔ یہ فیصلہ بظاہر عدلیہ کی آزادی کو مستحکم کر سکتا ہے مگر ساتھ ہی سیاسی عدم استحکام، قانونی ابہام اور ادارہ جاتی تصادم کے نئے دروازے بھی کھول دے گا۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں آئین اور ادارے پہلے ہی کمزور ہم آہنگی کا شکار ہیں، ایسے فیصلے دور رس اثرات چھوڑتے ہیں۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام ریاستی ادارے باہمی احترام اور مکالمے کے ذریعے اس بحران کو حل کریں تاکہ آئینی تسلسل برقرار رہے اور ریاست ایک نئے انتشار سے محفوظ رہ سکے۔
فیس بک کمینٹ

