پاکستان کی سیاست ہمیشہ سے آئینی موشگافیوں اور طاقت کے توازن کی کشمکش میں گھری رہی ہے۔ اب ایک نئی بحث ستائیسویں آئینی ترمیم کے گرد گھوم رہی ہے جو بظاہر جمہوریت کے استحکام کے لیے ایک "خوشنما پیکنگ” میں پیش کی جا رہی ہے، مگر اس کے اندر چھپے ممکنہ اثرات عوام کے لیے ایک کڑوی گولی بن سکتے ہیں۔ یہ ترمیم بادی النظر میں نظام کی درستی کا پیغام دیتی ہے مگر درحقیقت اس کے نتیجے میں جمہوری ڈھانچے پر مزید دباؤ بڑھ سکتا ہے اور سیاسی اداروں کی خودمختاری کمزور ہونے کا خدشہ ہے۔
آئینِ پاکستان کی شق 243 اس وقت بحث کا مرکز ہے، جو مسلح افواج کے سربراہان کی تقرری، مدت اور ان کے اختیارات سے متعلق ہے۔ اگرچہ اس شق کا مقصد ملکی دفاعی اداروں کو آئینی دائرے میں رکھنا تھا، مگر اب اس میں مجوزہ ترمیم کے بعد طاقت کے کچھ فیصلے پارلیمان سے ہٹ کر مخصوص حلقوں کے دائرہ اختیار میں آ سکتے ہیں۔ جمہوریت کی روح پارلیمانی برتری میں پوشیدہ ہے، مگر اگر پارلیمان ہی کو فیصلوں سے بے دخل کر دیا جائے تو پھر آئین کی افادیت سوالیہ نشان بن جاتی ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جو اس مجوزہ ترمیم کو متنازع بناتا ہے۔
سیاسی جماعتوں کے کئی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اصل مسئلہ ترمیم نہیں بلکہ نیت کا ہے۔
ان کے مطابق اگر آئینی ترامیم کا مقصد جمہوریت کو مضبوط کرنا ہو تو قوم کو خوش آمدید کہنا چاہیے، مگر اگر ان کے پس منظر میں طاقت کی نئی تقسیم یا مخصوص طبقات کے مفادات کی حفاظت ہو تو پھر یہ عوامی حقوق پر ضرب کے مترادف ہے۔ بعض سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں پارلیمانی نظام کو رفتہ رفتہ صدارتی رنگ دیا جا رہا ہے تاکہ عوام کے ووٹ سے نہیں بلکہ "مرضی کے فیصلے” سے نظام چلایا جا سکے۔ یہی وہ سوچ ہے جو جمہوریت کی بنیادوں کو کھوکھلا کرتی ہے۔
یہ بات بھی اب کوئی ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ سیاسی قیادت کا ایک طبقہ خود کو عوام کا نمائندہ نہیں بلکہ طاقتور حلقوں کی مرضی کا تابع سمجھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر اوقات عوامی فیصلے پسِ پشت ڈال کر طاقت کے اشارے پر اقدامات کیے جاتے ہیں۔ ایسے ماحول میں اگر آئینی ترامیم کی جائیں تو ان کا نتیجہ جمہوریت کے استحکام کے بجائے اس کے اختتام کی جانب بھی جا سکتا ہے۔
عوام کے لیے یہ ترمیم کیوں "کڑوی گولی” ثابت ہو سکتی ہے، اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ اس کے نفاذ کے بعد عوامی نمائندوں کی حیثیت محض رسمی رہ جائے گی۔ ووٹ کی طاقت کمزور ہو گی، اختیارات کے توازن میں بگاڑ پیدا ہو گا، اور فیصلہ سازی کا مرکز عوامی مینڈیٹ کے بجائے غیر منتخب قوتوں کے ہاتھ میں جا سکتا ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں جہاں جمہوریت ابھی اپنے پاؤں پر کھڑی ہونے کی کوشش کر رہی ہے، وہاں ایسی تبدیلیاں پورے نظام کو کمزور کر سکتی ہیں۔
اس مجوزہ ترمیم کے حوالے سے عوامی سطح پر آگاہی بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ پارلیمانی کارروائیاں اکثر بند دروازوں کے پیچھے ہوتی ہیں اور عوام کو صرف وہی بتایا جاتا ہے جو قابلِ قبول سمجھا جائے۔ ایسے میں اگر کوئی فیصلہ جمہوریت کے بنیادی اصولوں کو متاثر کرے تو یہ ایک سنگین آئینی مسئلہ بن سکتا ہے۔ آئین کی روح صرف الفاظ میں نہیں بلکہ ان کے نفاذ میں ہے، اور جب عمل میں انصاف نہ ہو تو قانون محض کاغذی دستاویز بن جاتا ہے۔
پاکستان کی جمہوری تاریخ بارہا اس تلخ حقیقت کی گواہ رہی ہے کہ جب بھی عوامی نمائندگی کو کمزور کیا گیا، ملک میں سیاسی بحرانوں نے جنم لیا۔ یہی وجہ ہے کہ کئی مبصرین اسے "خوشنما پیکنگ میں چھپی کڑوی گولی” قرار دے رہے ہیں — بظاہر اصلاحات مگر درحقیقت طاقت کی نئی تقسیم۔
موجودہ سیاسی ماحول میں ضروری ہے کہ کسی بھی ترمیم پر عوامی مشاورت کی جائے، پارلیمان کو مکمل اعتماد میں لیا جائے، اور آئین کو محض طاقتوروں کی ضرورت کے مطابق نہ بدلا جائے۔ کیونکہ آئین وہ دستاویز ہے جو ریاست اور عوام کے درمیان اعتماد کا معاہدہ ہے، اگر اسے من مانی ترمیمات سے کمزور کیا گیا تو نہ صرف جمہوریت بلکہ قومی وحدت بھی متاثر ہو گی۔
جمہوریت کا بقا اسی وقت ممکن ہے جب عوامی نمائندے عوام کے ووٹ سے بنیں، عوام کے مفاد میں فیصلے کریں اور کسی غیر منتخب قوت کے تابع نہ ہوں۔ بصورت دیگر، ستائیسویں ترمیم جیسے اقدامات تاریخ کے صفحات پر محض ایک اور آئینی تجربہ بن کر رہ جائیں گے — ایک ایسا تجربہ جس کی قیمت ہمیشہ عوام نے اپنے حقِ رائے دہی کی کمزوری اور نظام پر عدم اعتماد کی صورت میں ادا کی ہے۔
فیس بک کمینٹ

