دشت کے اسرار سے پردہ اٹھا صحرانورد
آبلے پائوں کے ہم کو بھی دکھا صحرانورد
ریگ ، طوفانوں ، سرابوں ، گرم ریتوں کی قسم
کچھ بھی اپنے دوستوں سے مت چھپا صحرانورد
گھنٹیاں اونٹوں کی ، نغمے ساربانوں کے سنے
کچھ نہ کچھ تو یاد ہو گا ، آ سُنا صحرانورد
جن کو صحرا کھا گیا ان قافلوں کی باقیات
دیکھ کر تجھ پر جو گزری وہ بتا صحرانورد
کیا سنے مرتے پرندوں ، سوکھتے پودوں کے بین
آ گلے مِل خود بھی رو مجھ کو رُلا صحرانورد
روہی ، تھل ، دامان میں اک پیاس کی تو سانجھ ہے
اور بھی کچھ درد رشتے ہیں بتا صحرانورد
ایک عشقِ خاص لاحق ہے ترے عباس کو
دشت پیمائی اسے بھی اب کرا صحرانورد
فیس بک کمینٹ