یہ بندہ کے گھر کا عقبی صحن ہے اور درخت کے پہلو میں کھڑا مینار اس حقیقت پر گواہ کہ یہ
"بندہءٍ کمینہ ہمسایہءٍ خدا ہے”
ہم سائے نے گزشتہ شب سے کجھ ایسا اہتمام کررکھا ہے کہ جس کے ردٍعمل میں بندہ کی "کمینگی” بار بار ابھرتی ہے مگر پھر دبک جاتی ہے کہ برسرٍعام ایمان کے اولیں درجے پر فائز ہاتھوں کا شکار نہ ہو جائے.
کل شام سے "خدا” نے قدِ آدم حجم کے دو سپیکر کرائے پر اٹھوا کر اپنے گھر کے صدر دروازے کے دائیں بائیں ایستادہ کروا رکھے ہیں اور ان کا پورا والیم کھول کر اپنے محبوب کی آمد کی خوشی میں نغمے چلا رہا ہے. صرف شاعری کافرق ہے وگرنہ ان نغموں میں وہ تمام ہیجان آور ساز بج رہے ہیں جو ابرارالحق کے بھنگڑا گیتوں میں بجا کرتے ہیں. بندہ کمینہ کا گھر چوں کہ خانہء خدا سے ملحق ہے سو سب سے بڑھ کر متاثر اور مکینوں کا آپس میں بات کرنا دشوار.
کبھی یہ نغمے تھمتے ہیں تو خدا کے گھر کے ناخدا، ایسے طوفانی نعرے لگوانے لگتے ہیں کہ جس سے در و دیوار پر لرزہ طاری ہوجاتا ہے. ان دنوں خانہ خدا کے جو ناخدا بنے ہیں، ان میں سے اکثر ناکتخدا ہیں جن کے پاس اس شبنم کا روپ تو ہے نہیں جس سے جگرِ لالہ میں ٹھنڈک اترے، ہاں بے مہار جواں جذبات کا وہ طوفان ضرور ہے جس سے دریاؤں کے دل دہل جایا کرتے ہیں.
شکر ہے میرے گھر میں کوئی بیمار یا بزرگ نہیں مگر میری بیٹیوں کے امتحانات چل رہے ہیں. ہم سائے کے ہاں خوشی کی شادیانوں نے ان کا پڑھنا دشوار کر رکھا ہے.
مومن کی چہار صفات (قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت) میں سے پہلی اور تیسری جوبن پر ہیں سو میری "کمینگی” اندر ہی اندر کھول کر رہ جاتی ہے اور یہ حوصلہ نہیں کر پاتی کہ اپنے زورآور ہم سائے سے جا کر یہ نغمے بند کرنے کی تو کجا والیم ہی اک ذرا سا کم کرنے کی درخواست کر سکے. یا پھر ون فائیو پر ہی فون کر دے. میری "کمینگی” کم زورہے اور ایمان کے آخری درجہ پر فائز. اس کے باوصف کتنا بڑا اعزاز ہے کہ
"اک بندہءٍ کمینہ ہمسایہءٍ خدا ہے”
فیس بک کمینٹ