عید میلاد النبی ﷺ کے بارے میں ہم نے کتابوں میں بھی پڑھا اور شعور میں آنے سے پہلے ہی ہم اس تہوار کی اہمیت سے آگاہ ہوچکے تھے۔ہمیں نہیں یاد کہ ہم نے پہلی بار یہ نام کب سنا اور پہلی بار یہ جشن کب دیکھا ؟ یہ صرف ہمارا ہی نہیں ہر اس شخص کا تجربہ ہے جو اس خطے میں یا دنیا کے کسی بھی مسلمان ملک میں بستا ہے۔ایک الجھن بہرحال ایک طویل عرصہ تک موجودرہی ۔ الجھن یہ تھی کہ جب ہماری نانی اماں اور دادی اماں بارہ وفات کا ذکر کرتی تھیں اور بارہ وفات کے مہینے کا حوالہ دیتی تھیں تو ہمیں سمجھ نہیں آتا تھا کہ یہ کس مہینے کا تذکرہ ہے اور اس نام کا مہینہ کس کیلنڈر میں موجودہے۔ربیع الاول کا یہ نام آج بھی بہت سے علاقوں میں بارہ وفات کے نام سے رائج ہے ۔نام کوئی بھی ہو ،اس مہینے کو کسی بھی نام سے پکارا جائے اس کا تقدس سب کے ذہنوں میں موجودہوتا ہے۔ وہ جو اسے ربیع الاول کامہینہ کہتے ہیں ان کے دل میں بھی عقیدت اور احترام موجزن ہوتا ہے اور جو 12وفات کے نام سے یاد کرتے ہیں وہ بھی اس کی عظمت سے بخوبی آگاہ ہیں ۔ لیکن یہ آج ہمارا موضوع بھی نہیں۔ہمیں تو اپنی یادوں سے عید میلادالنبیﷺ کے ان خوبصورت مناظر کو تلاش کرنا ہے جو اب ویسے نہیں رہے۔ یقیناً بہت سی نئی خوبصورتیاں پیدا ہوئی ہیں لیکن بہت سی ایسی باتیں اور بہت سے ایسے منظر ہماری یادداشت میں موجود ہیں جو آج کے مناظر سے کہیں زیادہ خوبصورت ہیں۔ آج کی نسل کو ان مناظر میں شریک کرنا بہت ضروری ہے۔ یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ مقدس مہینوں اور مقدس تہواروں کو اس شان سے منایا جانا چاہیے کہ کہیں بھی ان کا تقدس مجروح نہ ہو۔ اگرچہ ہمارا بچپن صدربازار کے علاقے میں گزرا لیکن ہم نے عیدمیلادالنبی ﷺ کاجشن تو پورے ملتان میں دیکھا ہے ۔اب تو برقی قمقموں کی بہتات ہے لیکن ہم نے اپنے بچپن میں گھروں کی دیواروں پر باقاعدہ چراغاں ہوتے دیکھا۔برقی قمقموں کے ذریعے بازاروں اور مکانات کو آراستہ کیاجانا بھی اگرچہ چراغاں ہی کہلاتا ہے لیکن لفظ ”چراغاں“میں جو چراغ موجود ہے وہ اب ماضی کاحصہ بن چکا ہے۔ ہم وہ خوش نصیب ہیں کہ ہم نے چراغوں والا چراغاں بھی دیکھا تھا ۔آج کی نسل کو یہ سمجھانا بھی بہت مشکل ہے کہ چراغ کیا ہوتا تھا اور اس میں کس طرح تیل ڈال کر کپاس کی بتی جلائی جاتی تھی اور پھر اس کا ایک سرا جلتا تھا تو روشنی ہوتی تھی۔ خوبصورتی ہوتی تھی اور تیز ہوا کے سامنے چراغ جلائے رکھنے کی لگن دل میں پیدا ہوتی تھی۔شاید یہی وہ تجربہ ہے کہ جس نے آج کے دھند بھرے موسموں میں بھی ہمیں چراغ روشن رکھنے کا ہنر عطا کیا ۔ پھر بعد کے دنوں میں موم بتیاں بھی چراغوں کی صف میںشامل ہو گئیں ۔چراغ میں تو صرف اسے بجھنے سے بچانے کی سعی کی جاتی تھی ۔ موم بتی کے ساتھ ایک اورکُشتی بھی لڑنا پڑتی تھی۔موم بتی کو دیوار پر گرم گرم موم ٹپکا کر رکھا جاتا تھا اور اس کوشش میں موم کا جلتا ہوا قطرہ ہماری انگلیوں پر بھی گرتا اور ہمیں بتاتا تھا کہ رات کو روشن رکھنا کوئی آسان کام نہیں کہ اس میں انگلیاں ہی نہیں بسا اوقات پورے وجود کو جلانا پڑتا ہے اور پھر اس کی راکھ کو بھی منیر نیازی کی زبان میں ہوا میں اُڑانا پڑتا ہے ۔ ہوا اگر تیز ہوتی تو موم بتی صرف بجھتی ہی نہیں بعض اوقات دیوار سے اکھڑ کر دوسری چھت پر بھی جا گرتی تھی۔گیارہ اور بارہ ربیع الاول کی راتیں اسی ”مشق سخن“میں گزرتی تھیں۔موم بتیاں اورچراغ ہم سے سخن کرتے تھے۔جس کی دیوار پر جتنے زیادہ چراغ روشن ہوتے وہ پھولے نہیں سماتا تھا۔سو ایک مقابلہ ہوتا تھا۔زیادہ سے زیادہ چراغ روشن کرنے کا۔ زیادہ سے زیادہ موم بتیاں جلا نے کا۔اور اس کے ساتھ ساتھ مقابلہ یہ بھی ہوتا تھا کہ ہوا کے دوش پر کس کے چراغ کتنی دیر روشن رہتے ہیں؟ کون ان چراغوں کا کتنی دیر پہرہ دے سکتا ہے؟کون اپنے چراغوں پر کتنی ماچسیں قربان کرتا ہے؟ ”جس دیئے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا“۔۔یہ مصرع تو ہم نے بہت بعد میں سنا لیکن اس کا ادراک ہمیں عیدمیلادالنبیﷺ کے چراغاں کے دوران بہت پہلے ہوگیا تھا۔بازاروں میں جو آرائشی دروازے بنائے جاتے تھے اور وہ آج کے دروازوں جیسے نہیں ہوتے تھے۔ان میں ٹین ڈبوں یا پلاسٹک کا استعمال نہیں ہوتا تھا۔بانسوں کے گردپتے باندھے جاتے تھے اورپھر ان بانسوں کو زمین میں نصب کر دیا جاتا تھا۔یوں بہت مہارت کے ساتھ ان بانسوں کی مدد سے ایک سرسبز و شاداب دروازہ بن جاتا تھا کہ جس میں سے گزرتے تو پتوں کی خوشبو آتی تھی ، کمپنی باغ کے پتوں والی خوشبو ۔پورے بازار میں مختلف مقامات پر یہ دروازے نصب کردیئے جاتے تھے۔ان دروازوں پر قمقموں والے بورڈ لگے ہوتے تھے جو اللہ محمد کے ناموں سے جگمگاتے تھے۔کچھ بورڈ روشن ہوتے تو پھول کِھلتا تھا۔اورایک بورڈ ایسا بھی تھا کہ جس پر قمقموں والا مور اپنے پر پھیلاتاتھا ا وردروازے سے گزرنے والوں کو ایک بورڈ میں روشن ہوتا ہوا لڑکا سلیوٹ کرتا تھا اور ہم سب یہی سمجھتے تھے کہ مور ہمیں دیکھ کر پنکھ پھیلاتا ہے اور وہ کیپ والا لڑکا بھی ہمیں ہی والہانہ انداز میں سلام کرتا ہے۔جھنڈیوں کی ایک چھت بنادی جاتی تھی جس میں کہیں کہیں قمقمے بھی آویزاں ہوتے تھے۔کاغذوں کے آرائشی پھول اورجھالریں اس زمانے میں عام تھیں اور سجاوٹ میں ان کا استعمال زیادہ ہوتا تھا ۔ بہت خوبصورتی کے ساتھ کاٹے گئے کاغذوں کو گتے پر چسپاں کردیا جاتا تھا اور گتے کے دونوں سروں کو جب جوڑتے تھے تو پھول یا فٹ بال بن جاتا تھا۔یہ آرائش بازار میں جا بجا دکھائی دیتی تھی ۔اس دور میں بے ہنگم ٹریفک نہیں ہوتی تھی۔کچھ سائیکل ،موٹرسائیکل اور موٹرکاریں دکھائی دیتی تھیں۔بازاروں کو اس ”ٹریفک“ کے لیے بھی بند کر دیا جاتا تھا۔صدربازار میں جہاں چھیلوکا ہوٹل ہے وہاں ایک سٹیج ہوتا تھا اوراس کے سامنے دریاں بچھی ہوتی تھیں۔رات نو یادس بجے کے بعد اس سٹیج پر کبھی سیرت کا جلسہ ہوتا تو کبھی قوالی کی محفل سجتی تھی اوراس محفل میں اگر غلام فرید صابری یا عزیز میاں قوال تشریف لاتے تو تاحد نظر لوگوں کا ہجوم ہوتا تھا۔ہمیں یاد پڑتا ہے کہ عزیز میاں کی قوالی ”اللہ ہی جانے کون بشر ہے“ہم نے پہلی بار اسی محفل میں سنی تھی ۔ہم اس محفل میں تو موجود نہیں تھے کہ بچوں کو نو دس بجے کے بعد گھروں سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہوتی تھی لیکن قوالی کے لئے جو لاﺅڈ سپیکر نصب کئے گئے تھے ان کی قطار ہمارے گھر تک آتی تھی۔ سو ہم گھر بیٹھ کر قوالیوں سے بھی لطف اندوز ہوتے تھے اور جب یہی قوالی ایک بار ہم نے ریڈیو یا کسی ٹیپ ریکارڈر پر سنی تو اپنے دوست کو فخر کے ساتھ بتایا تھا کہ یہ وہ قوالی ہے جو عزیز میاں نے ہمارے محلے میں گائی تھی۔حسین آگاہی،دولت گیٹ، گھنٹہ گھر کے منظر کچھ اور تھے۔وہاں یہ سب آرائش اور جلسے بھی ہوتے تھے اور عید میلادالنبی ﷺکاجلوس بھی نکلتا تھا۔ وہ جلوس پہلی بار ہم نے 80ءکے عشرے میں دیکھا اور حیران ہوئے۔
عربی لباس میں بچے ،سکاﺅٹ ،اونٹوں پربیٹھے نوجوان تلواریں ،ڈھال ،ماڈلز اور جانے کیا کیا کچھ۔ یہ جلوس گزشتہ 82برس سے انجمن اسلامیہ کے زیراہتمام نکالاجاتا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس میں نئے لوگ شامل ہوتے جاتے ہیں۔اب اس جلوس میں بھی بہت سی تبدیلیاں آگئی ہیں۔ہم نے اپنی جوانی میں اس جلوس میں ننھے منے” محمد بن قاسم “ہی شرکت کرتے دیکھے تھے۔اب ان کے ساتھ ساتھ بہت سے کم سن ”راحیل شریف“ بھی عید میلادالنبیﷺ کے جلوسوں میں جلوہ افروز ہوتے ہیں۔فوجی وردیاں ،میڈل اورجانے کیا کیا کچھ۔ہمیں اس پر بھی اعتراض نہیں۔اعتراض تو اس بات پر ہے کہ کئی نوجوان اب ہمیں ان جلوسوں میں مختلف ٹی وی کرداروں کالبادہ اوڑھے بھی دکھائی دیتے ہیں۔جلوس کے راستے میں استقبالیہ کیمپ اب بھی لگتے ہیں لیکن ان میں وہ بوندی مٹر والا لفافہ نہیں ملتا جو ہمیں اپنے بچپن میں وہاں سے شیرینی کے طور پر ملتا تھا۔ محرم کے جلوسوں کی طرح گرمیوں کے موسم میں عیدمیلادالنبیﷺ کے جلوسوں کے راستوں میں بھی سبیل لگائی جاتی تھی۔جہاں لوگ پیاس بجھانے کی سبیل کرتے تھے۔اب تو سب کچھ لنچ باکس یا ٹِن پیک کی صورت میں تقسیم ہوتا ہے ۔وقت جو بدل چکا ہے۔اور شیرینی یا تبرک پر یاد آیا کہ ہمارے بچپن میں محرم کی طرح عیدمیلادالنبیﷺ کے موقع پر بھی گھر میںکچھ نہیںپکایا جاتا تھا کہ ان مواقع پر محلے سے نیاز جو آ جاتی تھی ۔ نیاز بلاتفریق ہرگھر میں دی جاتی تھی۔ہمارے محلے میں جو آٹھ دس گھر تھے ان میں سے ہر گھر میں کچھ نہ کچھ پکایا جاتا ۔کہیں حلوہ، کہیں پلاﺅ ،کہیں زردہ اور کہیں کوئی اور پکوان ۔ اوریہ سب کچھ دیگوں میں نہیں دیکچیوں میں تیار ہوتا تھا۔بس اتنا کہ گھر کے لوگ خود کھا لیں اور محلے کے چند گھروں میں ایک ایک پلیٹ تقسیم کردی جائے۔ مقصد ثواب کا حصول تھا،دکھاوا تو نہیں کرنا ہوتا تھا ۔نیاز پر زیادہ خرچہ بھی نہیں آتا تھا۔جو بھی حسب توفیق جو چاہتا بنا کر تقسیم کردیتا۔زردے میں کشمش ،بادام اور گریاں ہوتی تھیں۔ابھی رس گلے اور مربہ اشرفی زردے میں ڈالنے کا رواج نہیں ہوا تھا۔سو ہم کشمش اور بادام والا زردہ بہت شوق سے کھاتے تھے۔ اور اس لیے شوق سے کھاتے تھے کہ اس میں سے کبھی کڑوا بادام منہ میں نہیں آتا تھا ۔اب ہزاروں پونڈ کیک اور کئی کئی من کی دیگیں پکائی جاتی ہیں اور ان کی خبریں چینلز اور اخبارات میں آتی ہیں ۔ ممکن ہے نیت ثواب کی ہو، ممکن ہے قبولیت بھی ہو جائے لیکن پکانے والوں کے ذرائع آمدن تو ہم بخوبی جانتے ہیں ۔دوستو ہم نے جس زمانے کی باتیں آپ کو سنائیں یہ وہ زمانہ تھا جب ابھی مذہب میں دکھاوا نہیں آیاتھا۔جب ان جلوسوں اورجلسوں میں شریک ہونے والوں نے اپنے خاص حلیے نہیں بنائے تھے۔ اور یہ وہی زمانہ تھا کہ جب ان جلوسوں کے لیے سکیورٹی کے انتظامات بھی نہیں کرنا پڑتے تھے کہ خودکش بمباروں نے ابھی عیدمیلادالنبی ﷺ کے جلسوں اور جلوسوں کو نشانے پر نہیں لیا تھا۔
فیس بک کمینٹ