پچھلے دنوں گاؤں کا چکر لگا تو بابا دینا کی محفل سے بھی استفادہ کیا۔اسوقت نذیر چرسی،پیر بخش عرف رنگو ،ماسٹر خنیف اور کچھ دیگر شناسا لوگ موجود تھے۔حسب روایت بابا دینا بھی اپنے حقے کے ساتھ ایک کونے میں موجود سب کی سن رہے تھے۔بابا دینا سارے گاؤں کا بابا ہے۔زندگی گزارنے کے لےے بابے نے کیا کیا پاپڑ بیلے۔تانگا چلایا،کھیتوں میں مزدوری کی،جانوروں کا بیوپار کیا،غربت بھی دیکھی اور سکھ بھی۔اس وقت بابے کے بیٹے گاؤں میں اچھی بھلی زمینوں کے مالک ہیں۔مگر بابا دینا اپنے گھر کے بجائے اپنے کھیتوں کے ایک کونے میں بنی کٹیا میں رہ رہا ہے۔کٹیا اب اچھا خاصا ڈیرہ بن گیا ہے۔بابا دینا کی محفل اور باتیں ،آس پاس کے گاؤں میں بھی مشہور ہیں۔اس بار میں پہنچا توماسٹر خنیف کی گفتگو جاری تھی : ” انسان سکھ،راحت اور تعیش کی منزل تک تو پہنچ گیا ہے مگر اندر سے اکیلا ہو گیا ہے۔ایک زمانے میں گاؤں کی زندگی آئیڈیل ہوتی تھی مگر اب تو گاؤں بھی شہر کا روپ دھار چکے ہیں۔گاؤں میں جب بجلی نہیں آئی تھی تو مجھے یاد ہے کسی کی بکری یا بھیڑ جنگل میں کھو جاتی اور شام تک نہ ملتی تو لوگ گھروں سے لالٹینیں جلائے اکٹھے ،رات بھر پھرتے رہتے۔اب تو شاید ہی کسی گھر میں لالٹین بھی موجود ہو۔اب تو ہاتھ والی چکی بھی نظر نہیں آتی ۔گاؤں بھی شہر بن گیا ہے۔ کبھی گاؤں کے لوگ مل جل کر کام کرتے تھے۔خاص طور پر مکئی یا گندم کی فصلوں کی ” سینت سنبھال “ کے موقعوں پر سب اکٹھے ہو جایا کرتے تھے۔ماسٹر صاحب کی بات جاری تھی کہ نذیر چرسی بول پڑا : ”ماسٹر جی ! اس وقت لوگ دودھ میں پانی ڈالنے کا سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔دودھ بیچنا بھی معیوب سمجھا جاتا تھا۔چوزے اور انڈے لوگ یونہی ایک دوسرے کو تحفے میں دیتے تھے“۔
” ہاں ہاں ایسا ہی ہے“ ماسٹر خنیف نے بات دوبارہ سنبھال لی اور بولا : ” با با دینا آپ بتائیں آخر یہ بندہ، بندے سے دور کیوں ہو رہا ہے؟ سب کو اپنی اپنی کیوں پڑی ہوئی ہے؟ لوگ اتنی جلدی میں کیوں ہیں؟
بابا دینا نے حقے کی نڑی الگ کرتے ہوئے کہا : ” اوئے سارا قصور ہمارا اپنا ہے۔ ہم نے دوسروں کا منہ سرخ دیکھ کر تھپڑوں سے اپنا منہ بھی لال کر لیا ہے۔اصل میں ہم سب کام چور ہوگئے ہیں۔یعنی سستی اور کاہلی نے ہمیں ادھ موا کر دیا ہے ورنہ مجھے اچھی طرح یاد ہے ،شادی بیا ہ میں سارا پنڈ ” اِک مٹھ “ ہو جاتا تھا۔لوگ ہاتھوں سے کام کرتے تھے اور محنت میں برکت تھی۔ میں ہاتھ سے بان وٹ کر چارپائی بناتا ۔لکڑی بالن سر پر اٹھا کر لاتا رہا ہوں۔اب تو ہر چیز مشینوں سے ہوتی ہے۔لوگوں نے گھروں میں اٹیچ باتھ بنا لےے ہیں ،ایک زمانہ وہ بھی تھا کہ غسل کرنے کے لیے ہم مسجد میں جاتے تھے۔جانو ماشکی مسجد کے مٹ (پانی کی ٹینکی) بھرنے پر مامور ر تھا، وہ گدھے پر کنویں سے اپنے ٹین بھر کر لاتااور یوں مسجد کا پانی ختم نہ ہونے دیتا۔سردیوں میں مٹ کے نیچے لکڑیاں جلا کر نمازیوں کے لےے گرم پانی کا بندوبست ہوتا تھا۔ہائے ! کیا ماحول تھا مسجد میں بھی رونق ہوتی تھی۔سب کی خیرخیریت کا پتہ چل جاتا تھا۔اب تو لوگ گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے ہیں۔ہر شے گھر کے فریج میں موجود ہے لیکن یہ ساری نعمتیں ہوتے ہوئے بھی انسان تنہا ہو گیا ہے۔وہ گھر میں بھی موبائل پر اس قدر مصروف رہتا ہے کہ اسے آس پاس کی خبر ہی نہیں ہوتی“۔یہ باتیں جاری تھیں کہ نذیر سائیں نے نعرہ بلند کیا :
شاہ کوکو دیوآ پہاڑ بیٹھے پھونکوں
محفل قہقہوں سے بھر گئی۔مہر خان شکر پارے اور بالو شاہیاں لے آیا۔سب شکر پاروں کا شکریہ ادا کررہے تھے اور مہر خان سگریٹ سلگائے سر ہلاتے ہوئے کہہ رہا تھا : او بس ! ”بابے دینے دا مچ ہی سچ ہے“۔۔
بابے نے مسکراتے ہوئے کہا : شاہ کاکو کے مزار پر چرسی ایسا نعرہ لگاتے ہیں۔اس دعائیہ نعرے کا مقصد و مفہوم یہ ہوتا ہے ۔ ” اے بابا شاہ کوکو ،چرس کا پہاڑ عطا کرو تاکہ ہم سگریٹ بھر کر پھونکتے رہےں۔“
کسی نے ایسے ہی چرسی پر تنقید کی کہ چرس کا پہاڑ کیا کرو گے؟ وہ تلخ لہجے میں بولا : تمہیں کیا ہے؟ خدا سے مانگا ہے تمہارے با پ سے تو نہیں مانگا جو تمہیں تکلیف ہو “
ماسٹر خنیف نے دوبارہ بات سنبھالتے ہوئے کہا : ” لگتا ہے ہماری قوم بھی چرس پی کر سوئی ہوئی ہے۔ابھی الیکشن کا اعلان ہوا ہے تو یہ بھی آنکھیں کھولے گی ۔ دیکھنا یہ کس طرح سوچ سمجھ کر ووٹ کو عزت دیں گے۔
یہ رنگو جھلا اسی پر خوش ہے کہ چودھری نے اس سے ہاتھ ملایا ہے۔کئی روز تو اس نے ہاتھ ہی نہیں دھوئے مگر یہ چودھری لوگ الیکشن جیت جاتے ہیں تو اگلے الیکشن تک واپس نہیں پلٹتے پھر بھی رنگو جیسے لوگ ٹی وی پر اپنے لیڈر کی ایک جھلک دیکھ کر اچھلنے لگ جاتے ہیں۔رنگو کو اب بھی انتظار ہے کہ چودھری کب اسے کہے : ”رنگو!! پرچی پہ مہر کا پتہ ہے ناں!کہاں لگانی ہے؟؟؟
دوستو! یہ ووٹ کے شکاری پھر جال لے کر تم جیسوں کو ٹھگنے آرہے ہیں۔یہ کوئی خادم وادم نہیں ،یہ سب اپنے ” لون تیل “ کے لےے بھاگے پھرتے ہیں۔ان کی حرص ختم ہوتی ہی نہیں۔اس بار ووٹ کی پرچی پر مہر لگاتے ہوئے اپنے ضمیر کی سر گوشی پر دھیان ضرور دینا ورنہ
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں
محفل میں صرف ماسٹر خنیف کی آواز گونج رہی تھی کہ ایک طرف سے اکتارے کی آواز آنے لگی :
بخشو موچی چپ نہ رہ سکا،دانت نکال کر بولا : مینا ملنگ ادھر آرہا ہے۔۔ہاہا۔۔ہا!!!
اتنے میں مینو ملنگ اکتارے کی دھن پر محفل میں آکھڑا ہوا۔اس کے ہونٹوں پر میاں محمد بخش ؒ کے مصرعے تھے :
میں نیواں میرا مرشد اُچا اچیاں دے سنگ لائی
صدقے جاواں ایناں اچیاتوں جناں نیویاں نال نبھائی
(بشکریہ: روزنامہ نئی بات)
فیس بک کمینٹ