مریض کے ہوش میں آنے کے بعد ایک یہودی ڈاکٹر نے مریض کو مخاطب کیا :
”میرے پاس تمہارے لیے بیک وقت دوخبریں ہیں مگر مجھے افسوس ہے کہ ایک خبر ب±ری ہے اور دوسری اچھی ….مریض نے اشتیاق سے ڈاکٹر کی طرف دیکھا اور بولا :” پہلے بری خبر سناﺅ۔“
ڈاکٹر نے کہا :”بری خبر یہ ہے کہ حادثے میں تمہاری دونوں ٹانگیں کٹ گئی ہیں، کوشش کے باوجود ہم تمہاری ٹانگوں کو کٹنے سے نہیں بچاسکے۔“
مریض کے چہرے کا رنگ بدلا اب اس نے حسرت سے ڈاکٹر کی طرف دیکھا اور آہستہ سے دکھی لہجے میں بولا:
”اچھی خبر کیا ہے؟“
اچھی خبر یہ ہے ”ڈاکٹر نے جواب دیا۔” میں تمہارے جوتے خریدنے کے لیے تیار ہوں“۔
پرویز الٰہی نے مولانا فضل الرحمن سے مسلسل مذاکرات کے بعد صحافیوں سے مخاطب ہوکر کہا ہے کہ جلدکوئی اچھی خبر سنائیں گے۔ ادھر مولانا فضل الرحمن نے کسی بھی پارٹی سے مذاکرات سے انکار نہیں کیا۔ ذرائع کے مطابق چودھری برادران سے تو خود انہوں نے درمیانی راستہ نکالنے کی درخواست کی تھی واللہ اعلم بالصواب۔ لیکن گزشتہ شام سے انہوں نے اپنا لہجہ مزید سخت کرلیا ہے۔ بعض احباب کا خیال ہے کہ انہیں ایک بار پھر کسی اشارے نے تقویت بخش دی ہے اور وہ حکومت پر مزید دباﺅ ڈالنے کی کوشش میں ہیں۔ ان کی تقریر میں بھی پیچھے نہ ہٹنے کے ارادے کا اظہار ملتا ہے۔ تجزیہ نگار تو کہتے ہیں مسلم لیگ نون اور پیپلزپارٹی دونوں نے مولانا کے مارچ میں حاضری لگوا کر اپنے مریضوں کے لیے کافی سہولیات اور حکومتی دلوں میں نرم گوشتہ حاصل کرلیا ہے۔
اب اگر وہ دھرنے میں مولانا کا ساتھ کھل کر نہ بھی دیں تو مولانا کا ایشو کامیابی اور ناکامی دونوں صورتوں میں ان کے لیے ”بونس“ کا درجہ رکھتا ہے۔ بظاہر مولانا فضل الرحمن کے جلسے میں زیادہ تعداد ان کے اپنے محبان ومریدان کی ہے۔ ان کے گارڈ بھی ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں اب تک کی تازہ ترین صورت حال میں مولانا فضل الرحمن نے صاف بتا دیا ہے کہ ہمیں ”: آپ کی آنیاں جانیاں پسند نہیں اور وزیراعظم کے استعفیٰ کے بغیر ہمارے پاس مت تشریف لائیں :“
گویا مولانا فضل الرحمن نے حلوہ کھانے کے باوجود بھی چودھریوں کو ”جھنڈی“ دکھادی ہے۔ اب تو جوں جوں وقت گزرتا جارہا ہے مولانا فضل الرحمن کی جھنجلاہٹ کرب اور پریشانی میں اضافہ ہورہا ہے۔ اب تو وہ برملا شہادتوں اور لاشوں کا اظہار کرنے لگے ہیں۔ اور دھرنے کا پلان بی بھی شروع کرنے والے ہیں۔ ایسے لگتا ہے جیسے وزیراعظم عمران خان سے وہ ذاتی عناد رکھتے ہیں اور ہرحال میں اسے کرسی سے ہٹانے کے درپے ہیں۔ انہیں اس بات کی قطعی کوئی پروا نہیں کہ وطن عزیز کس صورت حال سے گزررہا ہے۔ عمرانی حکومت نے کشمیر کا ایشو دنیا بھر میں پھیلا دیا تھا مگر اب ہمارا میڈیا صرف مولانا فضل الرحمن کو دکھارہا ہے۔ ہفتہ دس دنوں سے ”دھرنا دھرنا“ ہورہا ہے۔ اس دھرنے کے باعث عام آدمی کن مشکلات کا شکار ہے حکومت اور مولانا کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ سوشل میڈیا پر پرانے ویڈیو کلپس بھی دکھائے جارہے ہیں جن میں مولانا کا موقف یہ تھا کہ منتخب وزیراعظم کو ہٹانا اور اسلام آباد پر جتھوں کا قبضہ غیر آئینی ہے اور اسے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے ورنہ ہرکوئی چند جاں نثاروں کو لاکر اسلام آبادکو مفلوج کرکے حکومت کی تبدیلی کی باتیں کرے گا“۔ آج بالکل وہی صورت حال ہے۔ مولانا شاید ہی ان ویڈیو کلپس میں اپنی پرانی تقاریر سنتے ہوں مگر عوام تو دیکھ رہے ہیں کہ کل مولانا دھرنے کے خلاف تھے اسلام آباد پر چڑھائی کو غیرجمہوری رویہ قرار دے رہے تھے مگر آج وہ خود وزیراعظم کا استعفیٰ لینے آبیٹھے ہیں :
عید میلادالنبی منانے کی گھڑیوں میں اسلام آباد میں خون خرابے کا اندیشہ ہے۔ اگر ایک بھی لاش گرتی ہے تو اپوزیشن کو ایک زبردست ایشو میسر آئے گا۔ ہمارے ہاں تو ماڈل ٹاﺅن کا ایشو ابھی تک حل طلب ہے۔ ایک نیا ماڈل ٹاﺅن پاکستان کے حق میں نہیں۔ ہمارے کالج کے موڑ پر چھلیاں (بھٹے) بیچنے والے وزیرخان نے حکومت کو اچھا مشورہ دیا ہے اس کا خیال ہے عمران خان دوچار اچھے حلوے تیار کراکے اگر خود مولانا کے کنٹینر پر پہنچ جائیں تو مولانا عمران کو گلے لگالیں گے۔ عمران کسی سیٹ پر الیکشن کراکے انہیں دوبارہ کشمیر کمیٹی کا چیئرمین بنادے تو دھرنا، ”پھ±ر“ سے اڑ جائے گا۔ واللہ اعلم بالصواب چلتے چلتے سن لیں۔
ایک مجرم کو بجلی کی کرسی پر بٹھا کر سزائے موت دی جانی تھی، جیلر نے مجرم سے کہا :تمہاری آخری خواہش کیا ہے؟
”میری آخری خواہش یہ ہے کہ اس کرسی پر آپ بیٹھ جائیں: مجرم نے ادب سے جواب دیا۔
(بشکریہ:روزنامہ نئی بات)
فیس بک کمینٹ