علامہ محمد اقبالؒ نے کہا تھا:
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
واقعتاً جوں جوں سائنسی ترقی ہو رہی ہے، انسان بھی ایک مشین بن کر رہ گیا ہے، ایک زمانے میں لوگ دور دور رہتے ہوئے ایک دوسرے سے خطوط کے ذریعے منسلک ہوا کرتے تھے۔ مہینوں بعد کوئی خط آتا تو لوگ اپنے پیاروں کی لکھی تحریر کو آنکھوں سے لگاتے تھے، خط کی خوشبو تو جاں، دل معطر کرتے تھے، پہروں ڈاکیے کی راہ دیکھی جاتی چٹھی کے لئے، مگر اب خط کی جگہ موبائل انٹرنیٹ اور سکائیپ نے لے لی، یوں بظاہر فاصلے تو کم ہو گئے اور دور رہنے والے قریب آئے مگر وہ جو قریب اور آس پاس کے لوگ تھے۔ وہ ایک دوسرے سے دور ہوتے جاتے ہیں ایک ہی کمرے میں ایک خاندان کے لوگ بیٹھے ہوئے موبائلوں پر مصروف ہیں اور اردگرد سے قدرے بے نیاز ہونے لگے ہیں، سوشل میڈیا کے بازار میں ہم رات دن خود سے غافل ہوتے جاتے ہیں، مائیں اپنے گھر میں بیٹھے ہوئے بچوں کو بھی موبائل میسج کے ذریعے بلاتی ہیں کہ بیٹا آ جاؤ کھانا تیار ہے، اپنے کمرے سے نکل آؤ۔
نئی نسل تو چوبیس گھنٹے موبائل یا کمپیوٹر سکرین سے چپک کر رہ گئی ہے ان کے کھانے پینے کے اوقات نہیں رہے، رات گئے وہ باہر سے آن لائن کھانا منگواتے ہیں صبح تاخیر سے جاتے ہیں، گویا ناشتہ اول تو سکول کالج کیفے میں جا کرتے ہیں یا اگر چھٹی ہو تو گیارہ بجے سے ایک بجے تک وہ ناشتہ کرتے ہیں لنچ کی باری مغرب تک آتی ہے اور پھر رات گئے ڈنر….
کمپیوٹر موبائل نے اعصاب شکن کر دیئے ہیں اب کتابیں بھی آن لائن پڑھی جاتی ہیں ریسرچ کے لئے گوگل کا سہارا لیا جاتا ہے، جب سماج سے کتاب کے قاری نایاب ہو رہے ہوں تو ادبی رسائل جرائد اور اخبارات کون پڑھے گا؟ کتاب کو ہاتھ میں لے کر پڑھنے والی شاید یہ آخری نسل ہو۔
ادب بھی ڈیجیٹل ہوا چاہتا ہے اب لوگ شاعری افسانے پڑھنے کی بجائے سکرین پر دیکھنے سننے کے عادی ہو رہے ہیں، بس چند لوگ ہیں جو کتابیں خریدتے ہیں، رسائل جرائد پڑھتے ہیں، باقی نئی نسل کے پاس وقت ہی نہیں ہے۔ یہ ساری باتیں اس لئے یاد آ گئیں کہ دو تین رسائل اکٹھے موصول ہوئے خوشی ہوئی کبھی ہم بھی ادبی اخبار اور پھر ادبی جریدہ شائع کرتے تھے مگر اب ادبی جرائد پڑھنے والے بھی فیس بک اور وٹس ایپ پر آ گئے ہیں سو ہم نے تو گزشتہ برس رسالہ بند کر دیا تھا، لائق تحسین ہیں وہ دوست جو یہ خسارے کا کام جاری رکھے ہوئے ہیں…. ادب لطیف تیسطیر ادبیات، بیاض، الحمرائ، تخلیق، فانوس، ادب دوست، مکالمہ ماہ نو، الزبیر، مخزن، نوادر، نقاط الماس، پیلھوں چہار سو رنگ ادب اور کئی دیگر ادبی جرائد کا دم غنیمت ہے۔
بعض یونیورسٹیوں کے تحقیقی مجلّے سال میں ایک بار یا دوبار شائع ہوتے ہیں، مگر ان کے پڑھنے والے بھی محض پروفیسر یا اہل قلم ہیں، خیر بات رسائل کی ہو رہی تھی تازہ الحمرا میں اس بار ممتاز شاعر جمیل یوسف کا گوشہ شائع کیا گیا ہے، علاوہ ازیں تحقیقی و تنقیدی مضامین اور ادبی نگارشات بھی شامل ہیں، اس پرچے میں منیر نیازی کے حوالے سے عمران بابر جمیل کا دلچسپ مضمون بھی شامل ہے۔ منیر نیازی ہمارے اردو اور پنجابی کے اچھوتے شاعر تھے ان کی شاعری کے علاوہ باتیں اور چٹکلے بھی ہماری یادوں کا اثاثہ ہیں، کچھ واقعات عمران بابر جمیل نے بیان کیئے، منیر نیازی نے لڑکپن میں نیوی میں ملازمت کی تھی، عمران بابر جمیل نے نیول اکیڈمی کے ایک مشاعرے کا تذکرہ کیا جس کی صدارت منیر نیازی نے کی تھی آخر میں انہوں نے نیول چیف کی موجودگی میں مختصرخطاب بھی کیا اور کہا: ”نیول چیف صاحب سے آپ سب کی موجودگی میں یہ گزارش کرتا ہوں کہ میرا نام فوجی بھگوڑوں کی لسٹ سے نکال دیا جائے اس انکشاف پر نیوی کے جوان اور آفیسر سب حیران رہ گئے۔ منیر نیازی نے بتایا کہ میٹرک کے بعد وہ نیوی میں بھرتی ہوئے تھے مگر دل نہ لگنے کے سبب وہ بھاگ آئے تھے، وہ یہ انکشاف سرعام کر رہے تھے جہاں وہ ایک مہمان کی حیثیت سے مدعو تھے…. اب ایسے لوگ کم رہ گئے ہیں جو اپنے بارے میں پورا سچ بولنے کی جرات رکھتے ہوں، شاہد علی خان کے الحمرا کی خوبی یہ بھی ہے کہ وہ تواتر کے ساتھ ہر ماہ اپنے قارئین تک پہنچ جاتا ہے اور ہم میں سے زیادہ ایسے بھی ہیں جو رسالہ وصول کر کے اطلاع تک نہیں دیتے، رسالہ کیا اب تو آپ خاصا ڈاک خرچ کر کے اپنی کتاب کسی شاعر ادیب کو ارسال کریں تو اس کی رسید بھی بمشکل ہی ملتی ہے، اس کے لئے بھی ہم فیس بک پر رسالے یا کتاب کی تصویر پوسٹ کر دیتے ہیں ایسا کرنے والے بھی ہاتھ کی انگلیوں پر گنے جا سکتے ہیں۔
حال ہی میں نوجوان شاعر طارق اسد کا شعری مجموعہ ”گم شدہ خاک“ شائع ہوا ہے، طارق نے اپنے لہجے میں نکھار پیدا کیا ہے، وہ شہرت کے پیچھے بھاگنے کی بجائے مطالعے اور تخلیق پر توجہ دینے کا قائل ہے، دیباچہ غلام حسین ساجد نے تحریر کیا ہے جبکہ انتساب ممتاز اطہر اور جاوید اختر بھٹی کے نام ہے، تفصیل سے بات پھر ہو گی فی الوقت کئی روز سے ایک اور کتاب بھی ہمارے پاس پڑی ہے، فرخندہ شمیم اسلام آباد میں رہتی ہیں شاعری اور افسانہ تخلیق کرتی ہیں، ان کا تازہ مجموعہ ”ماں“ کے نام سے شائع ہوا ہے جس میں ان کی نظمیں شامل ہیں، احسان اکبر، ڈاکٹر نثار ترابی، رشید نثار کے علاوہ ڈاکٹر ضیاءالحسن اور قیوم طاہر کی آراءبھی کتاب کا حصہ ہیں، فرخندہ شمیم نے خواتین شاعرات میں اپنے منفرد لہجے کی ایک جینوئن شاعرہ ہیں، ٹیلی ویژن سے وابستگی کے سبب وہ ادبی حلقوں میں زیادہ متحرک نہیں رہیں، اب ریٹائرمنٹ کے بعد ان کا تخلیقی کام منظر عام پر آ رہا ہے، اس سے قبل ان کے افسانوں پر مشتمل مجموعہ ”مٹی اور پاؤں“ شائع ہو چکا ہے دونوں تخلیق کاروں کو مبارک ہو۔
(بشکریہ: روزنامہ نئی بات)
فیس بک کمینٹ