اردو کے مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو پاک ٹی ہاؤس میں چائے پینے گئے ،اچانک چائے بناتے وقت ان کے ہاتھ سے چینک گر کر ٹوٹ گئی ،بیرا ساڑھے چار روپئے کا بل لایا ،آٹھ آنے چائے کے اور چار روپئے کراکری کے ۔منٹو نے خاموشی سے بل ادا کیا اور باہر آگئے۔ دوسرے روز پھر وہیں چائے پینے پہنچ گئے ۔ابھی وہ چائے پی ہی رہے تھے کہ ایک دم شور ہوا : سانپ ۔ سانپ ۔۔۔ریستوران میں بھگدڑ سی مچ گئی ، میزیں الٹ گئیں اور برتن ٹوٹ گئے ،لوگ باہر بھاگنے لگے،بیروں نے کسی نہ کسی طرح سانپ پر قابو پا لیا اور اسے مارنے میں کامیاب ہو گئے۔جب بیرا منٹو کے پاس بل لایا تووہ صرف آٹھ آنے کا تھا ۔منٹو نے اس سے پوچھا : ” آج آپ نے اس میں کراکری کی قیمت نہیں لگائی ۔“
بیرے نے کہا : ” صاحب ! اس میں آپ کا کیا قصور ہے؟ کراکری تو سانپ کی وجہ سے ٹوٹی ہے۔“منٹو نے بل ادا کر تے ہوئے کہا: ” مگر مجھے تو کوئی بچت نہ ہوئی ،سانپ چار روپئے میں خرید کر لایا تھا۔“
مولانا فضل الرحمن نے انتخابات میں اپنی دونوں نشستیں ہارنے کے بعد باقی شکست خوردہ پارٹی لیڈرز کی ” اے پی سی“ بلا لی یہاں الیکشن کمیشن پر خوب غصہ نکالا گیااور انتخابات کو مسترد کر دیا گیا یہی نہیں، دوبارہ الیکشن کرانے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔اس سلسلے میں باقاعدہ ۷۷¾ءوالی تحریک چلانے کا عہد کیا گیا ۔ہارنے والی پارٹیوں کو حلف نہ لینے کا مشورہ دیا گیا جو فی الوقت مسلم لیگ نون کے لئے قابل قبول نہیں ،شاید اسی لئے میاں شہباز شریف نے اس معاملے پر مشاورت کی مہلت مانگ لی ۔ادھر پیپلز پارٹی نے تو اس آل پارٹی کانفرنس میں شرکت ہی نہیں کی ۔ بلاول کی پریس کانفرنس میں بھی اگرچہ انتخابات کو مسترد کیا گیا مگر پارلیمان میں نہ جانے یا نئے الیکشن کی بات نہیں کی گئی۔
اس طرح مولانا فضل الرحمن کو اس سارے عمل سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اور نہ ہی ان کے لئے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون اپنی جیتی ہوئی نشستیں قربان کرنا چاہتی ہیں۔ سو اس بار مولانا فضل الرحمن اور ان کے ہمنواؤں کو اگلے الیکشن تک اسمبلیوں سے باہر ہی رہنا ہوگا ۔
ساری قوم کو مولانا فضل الرحمن کی شکست کا بےحد افسوس ہے ۔ سب سے زیادہ ملال تو مولانا سراج الحق کی ہار کا ہے وہ اپنے صوبے میں اچھے خاصے تحریک انصاف کے اتحادی تھے اور اسی مناسبت سے اگر موجودہ الیکشن لڑتے تو آج وہ بھی حکومت میں شامل ہونے کی تیاریاں کر رہے ہوتے مگر وہ مولانا فضل الرحمن کی باتوں میں آکر ایک بار پھر سے ایم ایم اے کو بحال کر بیٹھے ، اس بحالی کا نتیجہ ہے کہ وہ پارلیمانی سیاست سے نکل گئے۔محمود اچکزئی جیسے لوگوں کو تو اس پارلیمان میں ویسے بھی نہیں ہونا چاہیئے کہ وہ پاکستان کے لئے بہت کم کلمہ خیر منہ سے نکالتے ہیں ،انکو اپنی شکست سے آئینہ ہو گیا ہوگا۔ یہی سبق اسفند یار ولی کو بھی سیکھنا چاہےے۔ہارنے والوں کے پاس کوئی ثبوت ہوتا تو وہ الیکشن کمیشن کے پاس شکایت لے کر جاتے یا پھر عدلیہ سے رجوع کرتے ۔ساری دنیا کہہ رہی ہے پہلی بار صاف شفاف اور پُر امن انتخابات منعقد ہوئے ہیں ۔اور پھر الیکشن کمیشن تو مسلم لیگ نون کی حکومت میں بنایا گیا ،یہی نہیں نگران حکومت بنانے میںبھی مسلم لیگ نون کا اہم کردار رہا ہے ایسے میں الیکشن اگر شفاف نہیں ہوئے تو قصور وار کون ہے؟ اگر الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہوتی تو پھر مسلم لیگ دوسری بڑی جماعت کے طور پر کامیاب نہ ہوتی ۔ نہ ہی تحریک انصاف کے بہت قریبی رہنما شکست سے دوچار ہوتے ۔مسلم لیگ نون کو جمہوریت کی بقا کےلئے بطور اپوزیشن اپنا جاندار کردار ادا کرنا چاہئے ۔فی الوقت تو تحریک انصاف کی کامیابی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے اور مسلم لیگ کی وہ توقعات جو میاں نواز شریف لے کر گرفتاری دینے پاکستان تشریف لائے ،پوری نہیں ہوسکیں ۔ اور ان کے ساتھ لطیفہ کی سی بات ہو گئی ہے؛
” ٹرین میں سفر کے دوران ایک شخص نے ا سٹیشن پر گاڑی رکنے کے بعد قریب بیٹھے ایک نوجوان کو اپنی جیب سے دس روپئے نکال کر دئےے اور درخواست کی کہ ” بیٹا یہ پیسے لو اور دو سیب لے آؤ ایک خود کھا لینا اور دوسرا مجھے دے دینا۔“
لڑکا کچھ دیر بعد سیب کھاتا ہوا واپس آگیا گاڑی رینگنے لگی،اس نے پانچ روپئے اس شخص کو واپس دیتے ہوئے کہا: یہ لیجئے بزرگو ! اپنے پیسے واپس لے لیں ،دکان دار کے پاس صرف ایک ہی سیب تھا ، آپ اپنے حصے کا سیب ،اگلے سٹیشن سے لے لیجیے گا۔“
عمران خان نے مسلم لیگیوں کو بھی اپنے حصے کا سیب اگلے الیکشن میں لینے پر مجبور کردیا ہے ۔ ورنہ وہ پنجاب میں حکومت بنانے کی ”درخواست “ نہ کرتے ۔مگر تحریک انصاف نے ٹکا سا جواب دیا ہے کی یہ ۲۰۱۳ءنہیں ہے۔ پی ٹی آئی نے پنجاب میں بھی حکومت بنانے کا عندیہ دیا ہے۔دیکھئے اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ۔ابھی تو سبھی عمران خان کی پہلی تقریر کے نشے میں ہیں ۔اس تقریر کے بعد بہت سی توقعات وابستہ کر لی گئی ہیں ۔خدا کرے عمران واقعتا ہر قسم کا پروٹو کول ختم کرنے اور معاشرے میں انصاف کا نظام قائم کرنے میں کامیاب ہو جائیں ۔
بات مولانا فضل الرحمن کی اے پی سی سے شروع ہوئی تھی ۔ دراصل مولانا ایک عرصے بعد شکست سے دوچار ہوئے ہیں،اس طرح پہلی بار وہ اسمبلی سے ہی نہیں ان مراعات سے بھی محروم ہوگئے ہیں جس کے وہ عادی ہو چکے ہیں ۔آخر ایک دن تو ہر عروج کو زوال آتا ہے ۔آخر مولانا نے اور کتنی حکومتوں سے لطف اندوز ہونا ہے ۔ کشمیر کمیٹی انجوائے کرنے کی بجائے اب آپ کے اللہ اللہ کرنے کے دن ہیں بالکل اس دنیا داری کی دلدل سے دور ہو کر اپنے نفس کو پا ک کرنے کے جتن کریں اور یہ تو ہر مسلمان کو کرنا چاہئے۔ایسی اسمبلیوں کو تو دور سے سلام ، جہاں آئین سے ختم نبوت کی شق نکالنے کی کوشش کی جائے۔بلا تبصرہ اکبر الہ آبادی کا شعر تھوڑی سی ترمیم کے بعد قارئین کی نذر:
مسجدیں چھوڑ کے جا بیٹھے ہیں ایوانوں میں
واہ کیا جوش ِ ترقی ہے مسلمانوں میں
(بشکریہ:روزنامہ نئی بات)
فیس بک کمینٹ