ایک بدقسمت شوہر کی چاربیویاں آپس میں ہروقت لڑتی رہتی تھیں۔ ایک روز وہ حسبِ معمول باہم دست وگریباں تھیں کہ تھکا ہارا شوہر بھی گھر آگیا۔ چاروں بیگمات کو جھگڑتا دیکھ کر اس کا خون کھول اٹھا۔ اس نے سب سے زیادہ شور مچانے والی بیوی سے دھاڑ کر کہا :” جا تجھے میں نے طلاق دی “ شوہر کا یہ اعلان سن کر باقی تینوں بیگمات کو سانپ سونگھ گیا۔ چند لمحے سکوت کے بعد ایک بیوی کو تازہ مطلقہ پر رحم آیا اور وہ شوہر کو برا بھلا کہنے لگی مگر دیکھتے ہی دیکھتے وہ بھی طلاق شدہ ہوگئی۔ چند ہی منٹ میں باقی دو کو بھی طلاق مل گئی۔ برابر کے مکان سے دیوار پر چڑھی ہوئی پڑوسن بھی یہ منظر انہماک سے دیکھ رہی تھی۔ جب ا±س نے یہ منظر دیکھا کہ چاروں بیویوں کو کھڑے کھڑے شوہر نے طلاق دے دی ہے تو غصہ سے آگ بگولہ ہوکر چیخی!”جھاڑو پھرے ، کمینے ظالم تو کس قدر سنگ دل ہے کہ چاروں بیویوں کو ایک ساتھ طلاق دے دی ؟
پڑوسن کا واویلا سن کر مذکورہ شوہر کے غصہ میں مزید اضافہ ہوگیا اور وہ دانت پیس کر بولا !
”اگر تیرا شوہر اجازت دے تو تجھے بھی طلاق طلاق “
فوراً ہی اس مکان سے مردانہ آواز گونجی !اجازت ہے اجازت ہے“
ان دنوں اپوزیشن پارٹیوں کا حال بھی ان طلاق یافتہ خواتین کی طرح ہے۔ مسلم لیگ نون کے رہنماﺅں کے بعد پیپلزپارٹی کے وڈیرے بھی کچھ اسی قسم کی مصیبت سے گزر رہے ہیں اور وہ خوب کوسنے دینے میں مصروف ہیں۔ عمرانی حکومت کے دور میں ان کی کرپشن کی کہانیاں کھل کر سامنے آرہی ہیں اور روزانہ غریبوں کے اکاﺅنٹس سے کروڑوں برآمد ہورہے ہیں۔ وہ افلاس کے مارے جب اپنے اکاﺅنٹس میں اتنی رقوم کا سنتے ہیں تو ان کے پاﺅں کے نیچے سے زمین کھسکنے لگتی ہے وہ جو پائی پائی کے محتاج ہیں، جنہیں دووقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوئے ہیں انہی کے نام کے اکاﺅنٹس کھلوا کر ان سے کھلواڑ کیا جاتا رہا ہے او جے ٹی آئی کے مطابق ”ک±ھرا“ زرداریوں کے گھرکوجاتا ہے۔
ایک عام آدمی تو بینک میں اکاﺅنٹ کھلوانے جائے تو بینک کا عملہ کتنے سوالات کرتا ہے اور کیا کیا کاغذات طلب کرتا ہے۔ پھر یہ اکاﺅنٹس کیسے کھولے جاتے رہے ہیں ؟ شنید ہے کہ حکومتی سطح پر ایسی کارروائیاں ہوتی رہی ہیں۔ جب حکومت کرنے والے خود ہی اپنے سرکاری خزانے کو نقب لگانے لگیں اور اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال شروع کردیں تو وہ ملک کیونکر ترقی کرسکتا ہے۔ شاعر کہتا ہے
ا±ن مکانوں پہ خدا اپنا کرم فرمائے
جن میں خود ان کے مکیں نقب لگانے لگ جائیں
مگر ان سب اقدامات کے باوجود عوام میں ایک مایوسی پھیلی نظر آتی ہے۔ سبب یہ ہے کہ حکومت محض ”احتساب“ کے چسکے میں مصروف ہے اگر یہ احتساب بہت پہلے سے شروع ہے اور ان دنوں عدالتوں میں یہ مقدمات سنے جارہے ہیں تو حکومت اپنا کام کرے۔ کئی اداروں کے سربراہوں کی تعیناتیاں نہیں ہوسکیں۔ ملازمتیں دینے کا عمل بھی نہایت سست ہے۔ ابھی تک پرانی ”نوکر شاہی“ کے اثرات زائل نہیں کیے جاسکے۔ پولیس اپنی پرانی روش سے باز نہیں آئی۔ پنجاب کا حال تو بہت خراب ہے چوری، ڈاکے اور ٹریفک کی خلاف ورزیاں جوں کی توں ہیں۔ دن بھر مختلف سڑکوں پر ٹریفک جام رہتا ہے۔ لوگوں کی زندگی عذاب بنی ہوئی ہے۔ مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ ابھی تک عملی اقدامات سوائے شیلٹر ہومز کے کچھ نظر نہیں آتے۔ پی ٹی آئی کے اپنے نوجوان بے روزگار ہیں اور وہ منتظر ہیں کہ انہیں کب ملازمت ملے گی؟ مگر حکومت نجانے کن امور میں الجھی ہوئی ہے۔ عدالتوں اور قانون کو اپنا کام کرنے دیں آپ عوام کی فلاح کے لیے بھی کچھ کریں۔ مگر عمران خان اکیلا آدمی شاید ہی اپنے ارادوں کو عملی جامہ پہنا سکے۔ جب وزارتیں بھی مناسب طریقے سے تقسیم نہیں کی گئیں تو کام کیسے چلے گا ؟پنجاب جیسے بڑے صوبے میں ایک تگڑا اور پ±راعتماد وزیراعلیٰ درکار تھا۔ علامہ اقبال لیڈر کے اوصاف کے حوالے سے فرماتے ہیں
نگہ بلند سخن دلنواز جاں پ±رسوز
یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے
سوشل میڈیا پر ”شہباز شریف“ لگا ہوا ہوں کا لطیفہ چل رہا ہے۔ خبرناک میں وزیراعلیٰ صاحب کی وہ بھد اڑائی جاتی ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔
اگر علیم خان کو سینئر وزیر بنایا جاسکتا ہے تو وزیراعلیٰ بھی بنایا جاسکتا تھا مگر قوم بزدار کے وسیم اکرم بننے کے انتظار میں ہے۔ اور نہیں تو پی ٹی آئی میں ایک پڑھے لکھے اور تجربہ کار شفقت محمود کو یہ منصب پیش کیا جاسکتا تھا۔ وہ بھی ایک شریف النفس ہونے کے ساتھ ساتھ صرف ڈگری ہولڈر نہیں ایک بار±عب اور پ±راعتماد شخصیت کے مالک ہیں۔
ہم تو دعاگو ہیں کہ عثمان بزدار جلد ازایک نہایت ”ایکٹو“ وزیراعلیٰ بن جائیں اور کم ازکم پولیس کو درست کردیں۔ ٹریفک کے نظام کو ٹھیک کرنے کا بندوبست کریں۔ یا بھلے اپنے لوگوں کو سہی ملازمتیں تو دیں۔ ملازمت سے یاد آیا۔
” ایک گاہک نے سٹور کے مالک سے دریافت کیا۔
”تم دکان میں بھینگے سیلز مین کیوں رکھتے ہو ؟
ان کی وجہ سے چوری کا خدشہ نہیں ہوتا ….سٹور کے مالک نے جواب دیا۔ وہ کس طرح ….؟گاہک نے دوبارہ دلچسپی لیتے ہوئے پوچھا تو مالک بولا :
وہ اس طرح کہ ان کی نظریں کہیں اور ہوتی ہیں لیکن گاہک سمجھتے ہیں یہ انہی کی طرح دیکھ رہے ہیں۔“
جہاں تک احتساب کا تعلق ہے تو احتساب سبھی کا ہونا ضروری ہے۔ عوام مایوس ہیں تو صرف اس لیے کہ ”ہونا“ کچھ بھی نہیں ہے پہلے بھی زرداری جیسے لوگ جیلوں میں رہے ہیں۔ میاں صاحبان بھی یہ سب کچھ پہلے بھگت چکے ہیں۔ کیا ہوا ؟ اب بھی عوام یہی سوچتے ہیں۔ یا توکرپشن کرنے والے کسی بھی شخص کو نہ بخشا جائے۔ ملاوٹ کرنے والے، رشوت لینے والے سبھی کرپٹ افراد کو سرعام عبرت کا نشان بنایا جائے۔ ایک دو کو سرعام پھانسی پر لٹکائیں دیکھیں سبھی ٹھیک ہو جائےں گے۔
وہ پولیس اور بیوروکریسی کے افسران جو پی ٹی آئی کو چین سے حکومت نہیں کرنے دے رہے، یہ سب تیرکی طرح سیدھے ہو جائیں گے۔ آزمائش شرط ہے۔ ہاں کچھ مولویوں کی طرف بھی ر±خ موڑیں خاص طورپر وہ سیاستدان مولوی جو فی الفور حکومت کوگھر بھیجنا چاہتے ہیں۔ آخر میں بلاتبصرہ : لطیفہ:
مولوی صاحب(بچے سے) پڑھ بیٹا ح حلوہ ….ہاں بیٹا حلق سے نکالو۔ ح حلوہ۔“
ماں گھبرا کر کمرے میں داخل ہوئی اور بولی
مولوی جی !آپ بچے کے حلق سے حلوہ نہ نکالیں میں ابھی بنا کر بھیجتی ہوں۔
(بشکریہ:روزنامہ نئی بات)
فیس بک کمینٹ