گزشتہ چند روز سفر میں گزرے۔ ڈیرہ نواب کا ہمارا مہینے میں یہ دوسرا سفر تھا۔ پہلے سفر میں ہم نے اپنی پنجابی کہانی کی 35منٹ کی شوٹ مکمل کی۔ اسی علاقے کا لینڈ سکیپ اور یہیں کے چنداحباب کیمرے کے سامنے تھے۔ سرائیکی زبان اور اردو کے ملے جلے لہجوں میں نان پروفیشنل افراد نے منجھے ہوئے اداکاروں کی طرح اپنے اپنے کردار نبھائے۔
ڈیرہ نواب سال میں ایک دوبار یوں بھی چکر لگ ہی جاتا ہے کہ کبھی کبھی مردِدرویش کے میلے میں شرکت کی سعادت نصیب ہوتی ہے۔ ہمارے بابا جی بھی ہری پور کے علاقے سے تشریف لاتے ہیں۔ ڈیرہ نواب ان دنوں سائیں مسکین کا ڈیرہ ہے ہم تو اسے احمد پور شرقیہ کے بجائے سائیں مسکین کے حوالے سے زیادہ جانتے ہیں۔ سائیں مسکین ایک زمانے میں صدیق فوجی کے نام سے جانا جاتا تھا پھر حق کی تلاش میں دردر کی خاک چھانتے ہوئے اسے ”مرشد“ مل گئے اور مرشد نے فوجی کو ”سائیں مسکین“ بنادیا۔ چالیس برس کی ریاضت کم نہیں ہوتی۔ اپنا گھربار اور سب کچھ ترک کرکے اپنے سائیں کی خدمت میں رہنا اس دور میں بہت کم دیکھنے میں آتا ہے۔ ڈیرہ نواب کا چکر لگے تو سائیں مسکین کی کٹیا تک رسائی ہوجاتی ہے وہ اس بستی کا ایک جیتا جاگتا کردار ہے۔ ہم نے یہیں بیٹھے بیٹھے اپنی کہانی کی ڈرامائی تشکیل کی منصوبہ بندی کی۔ اور کہانی میں اسی بستی کے چند احباب کو ”اداکار“ بنادیا۔ کہانی کی شوٹنگ کے دوران یہاں ہمارے بیٹے احتشام کا موبائل بھی کھوگیا۔ اس کا کہنا تھا کہ اڈے پر کسی نے اس سے ٹکراتے وقت اس کی جیب سے نکال لیا۔ خیر ایک دوروز تک موبائل پر رابطہ کیا جاتا رہا۔ لیکن کامیابی نہ ہوئی۔ رپورٹ درج کراکے ہم لاہور واپس آگئے اس سلسلے میں بہاول پور میں ہمارے مہربان اور بزرگ تابش الوری سے مدد بھی لی گئی۔ تابش الوری سیاست میں ہی نہیں ادب میں بھی اپنی پہچان رکھتے ہیں۔ اپنے لہجے کے منفرد شاعر ہیں۔ لاہور تشریف لائیں تو کبھی کبھار یارِعزیز باقی احمد پوری ان کے لیے گھر پر ادبی نشست منعقد کرتے ہیں تو ملاقات کی صورت نکل آتی ہے۔ مختلف ادبی کانفرنسوں اور مشاعروں میں بھی ان سے ملاقات رہتی ہے۔ میرے پی ایچ ڈی کے تھیسس کے سلسلے میں شہاب دہلوی کے صاحبزادے ڈاکٹر شاہد حسن رضوی اورتابش الوری صاحب نے بہت مدد کی کہ آپ حیدر دہلوی سے بھی خاص تعلق رکھتے ہیں۔
تابش الوری کی وساطت سے ڈی پی او آفس بہاولپور میں موبائل ٹریس کرنے والے مرکز سے رابطہ ہوگیا اور یہاں عمران نے جو اِس شعبے کا انسپکٹر تھا، بہت متحرک رہا اور ہمیں موبائل کے بارے خبردیتا رہا۔ جس شخص نے موبائل نکالا تھا۔ وہ فون پر کبھی کبھی رقم کا مطالبہ کرتا رہا۔ طارق لودھی سابق کونسلر موجودہ نکاح خواں اور علاقے کے معتبر نوجوانوں میں شمارہوتے ہیں۔ انہوں نے بھی موبائل کے لیے بہت کوشش کی۔ ان کے نمبر پر بار بار فون آتے رہے اور ہرروز رقم مانگنے کا تقاضا بھی جاری رکھا گیا۔ طارق لودھی نے اسے انعامی رقم دینے کا وعدہ کیا مگر وہ خوفزدہ کئی روز وعدے کے باوجود نہ پہنچ سکا۔ بالآخر لاہور سے احتشام نے وزیراعظم شکایت سیل پر رپورٹ درج کرائی کہ پولیس اتنے دن سے ایک موبائل ٹریس نہیں کرسکی۔ اس کا اثر یہ ضرور ہوا کہ ڈیرہ نواب کی پولیس حرکت میں آئی اور آخرکار ایک ماہ کے بعد متعلقہ شخص تک پہنچ کر موبائل برآمد کرلیا گیا۔ اب چونکہ موبائل کی ایف آئی آر بھی درج ہوچکی تھی لہٰذا سپرداری عدالت کے ذریعے ہونی تھی۔ اس سپرداری کے لیے دو روز تک مقامی پولیس اور علاقے کی عدالت کے جج صاحب نے جس اذیت سے دوچار کیا وہ ایک الگ کہانی ہے۔ جج صاحب چند منٹ کے لیے عدالتی نشست پر بیٹھتے پھر اپنے کمرے جا بیٹھتے۔ خلقِ خداکئی کئی گھنٹے ان کا معمولی سے کاغذ کے لیے انتظار کرتی ہے۔ یہ ہمارے عدالتی نظام کی ایک جھلک ہے۔ آپ کسی کچہری میں چلے جائیں۔ سائلین پہروں عدالتوں کے باہر انتظار کرتے نظرآتے ہیں۔ بھلے جج صاحب نے دستخط کی ”گھگی“ ہی کیوں نہ مارنی ہو۔ وکلاءحضرات کا اپنا دھندہ ہے۔ ذرا ذرا سی کارروائی کے لیے دن لگ جاتے ہیں۔ بظاہر پولیس کا یہی بیان تھاآپ لاہور سے تشریف لائیں اسی وقت معمول کی عدالتی کارروائی کے بعد آپ کو موبائل مل جائے گا مگر وہاں جاکر پولیس کا انسپکٹر بھی روایتی خصلت پر اتر آیا۔ موبائل پولیس کے قبضے میں تھا۔ عدالت میں دوروز کے بعد یہ فیصلہ حاصل کیا گیا کہ موبائل مالک کے سپرد کردیا جائے اب بات تھانے کی تھی مگر پانچ گھنٹے وہاں بھی صرف ہوگئے موبائل محرر صاحب نے اپنے گھر رکھوایا ہوا تھا اب انہیں موبائل لینے کے لیے گھر بھیجا گیا وہ اپنے ”امور خانہ“ سے فارغ ہوکر ہی گھر سے تشریف لائے۔ بچے نے موبائل دیکھا تو اس میں ”میموری کارڈ“ اور سِٹک غائب تھی۔ ڈیٹا تو پہلے ہی اڑا دیا گیا تھا۔ خیر کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے۔ موبائل جیسی حالت میں تھا وصول کرلیا۔ اب یہ کیس آگے چلے گا۔ چور صاحب جیل میں ہیں۔ پہلے تو اس کے لواحقین منت سماجت کرتے رہے کہ بندہ غریب آدمی ہے وکیل کے پیسے بھی اس کے پاس نہیں آپ یہیں صلح نامہ لکھ دیں۔ ہم بھی موبائل کے حصول کے خواہاں تھے۔ ہماری کوئی دشمنی نہیں تھی۔ یہ تو خود چور نے ہمیں اتنا انتظار کرایا۔ اگر وہ اِنہی ایام میں حسبِ وعدہ آجاتا تو انعام کی رقم کا مستحق ٹھہرتا مگر وہ تو چکمہ دے رہا تھا۔ اس نے قیمتی موبائل اوچ شریف جاکر محض تیرہ ہزار (13000)میں فروخت کردیا۔ پکڑے جانے پر منت سماجت کی باتیں ہونے لگیں۔ عدالت میں بھی اس کے لواحقین ہمیں صلح کی باتیں کررہے تھے اور خود وکیل کے ذریعے ضمانت پر لگے ہوئے تھے۔ وہ تو بروقت ہمارے وکیل نے دیکھ لیا اور چور کی ضمانت کینسل کرائی۔ اب دیکھو کیس آگے کیا رنگ لائے گا۔
یہ ساری روداد اس لیے بیان کی گئی ہے کہ ہماری حکومت ہرشعبے میں اصلاحات لے کر آرہی ہے۔ عدالتی نظام بھی بہتر کیا جارہا ہے۔ پولیس کو غیرسیاسی کیا جارہا ہے۔ ابھی تو کچھ بھی نہیں بدلا۔ لاہور کی بڑی عدالتوں کی بات اور ہے مگر دور دراز کے علاقوں کی تھانہ کچہریوں میں عام آدمی جس اذیت سے دوچار ہے وہ شاید ہمارے چیف جسٹس صاحب بھی نہ جانتے ہوں۔ وکلائ، پولیس اور مجسٹریٹ اور ججز حضرات عام لوگوں کو انسان ہی نہیں سمجھتے اور جتنی ذلت عوام تھانے اور کچہریوں میں اٹھارہی ہے، اس کا اندازہ لگانا بھی دشوار ہے۔ ہم عمران خان سے گزارش کرتے ہیں اور اپنے چیف جسٹس صاحب سے بھی کہ چھوٹی عدالتوں کے ججوں ، عدالتوں میں بھی کیمرے لگوائیں۔ تھانوں میں بھی کیمرے لگوائیں اور ان کو چیک کرنے کے لیے اسی محکمہ کے قابل اور دیانت دارآفیسر مقرر کریں تاکہ جج اور پولیس کی کارکردگی بہتر ہوسکے۔ ورنہ جج حضرات موبائل پر مصروف رہتے ہیں یا اپنے کمرے میں دوستوں کے ساتھ چائے پینے میں مشغول رہتے ہیں۔
(بشکریہ:روزنامہ نئی بات)
فیس بک کمینٹ