فجر کی نماز میں مولوی دین محمد خوددکھائی نہ دیئے بلکہ جماعت بھی قاری حبیب نے کرائی تو چند بزرگوں نے قاری صاحب سے مولوی دین محمد کے بارے میں دریافت کیا، معلوم ہوا کہ طبیعت ناساز ہے۔ تاج خان نے کہا آج میں ان کی خبرگیری کے لیے ان کے گھر جاؤں گا ۔ عصر کے وقت گاؤں کے بہت سے لوگوں کو پتہ چل گیا کہ مولوی صاحب کو سخت بخار ہے۔ گھریلو حالت بھی کچھ ایسی نہ تھی کہ دوادارو کے ساتھ اچھی خوراک کا بندوبست ہوسکے۔ لیکن ہمارے گاؤں کی روایت ہے کہ کسی کی بیمار پُرسی کے لیے جاتے ہیں تو کوئی بھی خالی ہاتھ نہیں جاتا۔
محبت خان نے بھینس کا دودھ نکالا تو دوکلو دودھ الگ برتن میں ڈال کر مولوی دین محمد کی مزاج پرسی کو پہنچ گیا، اس کے بیٹھتے ہی کچھ دیر بعد فضل عیار شاپر میں دیسی انڈے لیے مولوی صاحب کی طبیعت پوچھ رہا تھا۔ علم دین نمبر دار نے گاموں کے سرپر بیس کلو گندم لادی اور مولوی صاحب کا حال پوچھنے گئے۔
قصہ کوتاہ شام تک گاؤں کے کئی لوگ مولوی دین محمد کی بیمار پُرسی کو پہنچے اور کسی نے بغل میں دیسی مرغ داب رکھا تھا، کوئی دیسی گھی اور مکھن لے کر گیا تو کوئی گڑ چاول اور جوکا آٹا۔ یقین کریں دوتین روز میں غریب مسکین مولوی دین محمد کے گھر میں اچھا خاصا راشن جمع ہوگیا۔ دوچار چوچے مرغ، انڈے، آٹا گڑ اور دودھ مکھن سے مولوی صاحب کے چہرے کا رنگ روپ بدل گیا۔ خوراک کے استعمال سے بیماری تو دوسرے روز ہی ”کافور“ ہوگئی مولوی صاحب باقاعدگی سے مسجد بھی جانے لگے۔
یہ ہمارے گاؤں کی روایات میں سے ایک جھلک ہے ڈاکٹر صاحب، آپ سن رہے ہیں ناں!
صوفی ارشاد نے حقے کو منہ کے قریب کرتے ہوئے کہا تو میں چونک گیا۔
”جی بسم اللہ ….اصل میں آپ کی باتوں میں گم ہوگیا تھا۔“ میں نے سنبھل کر کہا تو وہ حقے کا کش لگا کر بولے: ”کیا اچھا زمانہ تھا آپ تو شاید اس وقت بہت چھوٹے ہوں، محلے میں کوئی بیمار پڑ جاتا، یا اس کے گھر میں کوئی غمی خوشی آجاتی تو سارے گاؤں کے لوگ مل کر اس کے دکھ سکھ میں شریک ہوتے تھے۔
چارپائی بستر سے لے کر دودھ لسی، مہمانوں کے لیے کبھی مسئلہ نہ بنتی تھی۔ مہمان زیادہ ہوں تو ہمسائیوں کی بیٹھکوں (ڈرائنگ روم) میں سلا لیے جاتے تھے۔ گویا خوشیاں اور غم سب کے سانجھے تھے۔ گاؤں سے باہر بیاہی بیٹی کے شوہر کو سارا گاؤں داماد سمجھتا تھا۔
اصل میں جی بڑی سادہ زندگی ہوتی تھی۔ بجلی، گیس کا زمانہ نہیں تھا۔ لوگ سادہ تھے۔
فصلوں کے موقع پر گاؤں کے غریب غربا مساکین اور کمیّوں کا خاص خیال رکھا جاتا تھا۔ گاؤں میں برتن بنانے والے کمہار ہوں، لوہار، ترکھان، نائی، موچی، میراثی یا جلاہے پنہار، سب کو تازہ فصلوں پھلوں اور سبزیوں سے نوازا جاتا تھا۔ یہ سب لوگ بھی ان سے اپنی خدمات کا کوئی نقد صلہ نہیں لیتے تھے۔ ہرفصل پر ان کا مقررہ حصہ باقاعدہ الگ محفوظ رکھا جاتا۔ گاؤں کے لوگ مل جل کر کام کرتے تھے۔ مکئی ،گندم کی کٹائی بیجائی ہو یا کوئی اور موقع، سب مل کر وہ کسی ایک کی مدد کرتے بغیر کسی معاوضے کے، ہاں یہ ضرورہوتا تھا کہ شام کا کھانا ذرا مہمانوں والا بنایا جاتا اور سب کو کھلایا جاتا۔ مہمانوں کا طعام بھی سادہ سا ہوتا، میٹھے کی ڈش کے ساتھ دال روٹی، کبھی گوشت سبزی بھی حلوے کے ساتھ ”ونگار“ پر آنے والوں کو پیش کرنے کی روایت تھی اب تو زمانہ بدل گیا ہے۔ گاؤں میں بھی شہر جیسی زندگی دکھائی دیتی ہے۔ بجلی، گیس، ٹیلی ویژن ، پانی کی موٹریں، فریج اور اٹیچ باتھ بن گئے ہیں۔ پھر برائلر اور ہرقسم کے گوشت، مٹھائیوں کی مارکیٹیں وجود میں آچکی ہیں۔ وہ پہلے سا بھائی چارہ، محبت، وضع داری کم کم دیکھنے کو ملتی ہے۔ ہاں بعض غمی خوشی کی رسمیں پرانی ہیں۔ مزاج پُرسی اور شادی بیاہ کے موقعوں پر برتی جانے والی ”ریت پریت“ بھی قدرے ختم ہوچکی ہیں۔کھیل تماشے اور تفریحات بھی پہلے جیسی نہیں” ٹیلیویژن کی چوبیس گھنٹے نشریات، انٹرنیٹ اور موبائل نے شہریوں کے ساتھ ساتھ ہمارے دیہات کے لوگوں کو بھی بیمار و لاچار کردیا ہے۔
باقی آپ مجھ سے بہترجانتے ہیں۔” یہ کہہ کر صوفی ارشاد چُپ ہوگئے اور حقہ پینے لگے۔ میں نے کہا آپ نے مجھے اپنے دیہاتی ماحول کی پرانی جھلک دکھائی بڑا لطف آتا ہے وہ زمانہ یاد کرکے۔ میرا بچپن بھی اِسی گاؤں میں گزرا تو بعض باتیں تو مجھے اب تک یاد ہیں۔
اصل میں جب بھی گاؤں آتا ہوں تو آپ ایسے کسی بزرگ سے ماضی کی کہانیاں سنتا ہوں۔ صوفی ارشاد چادر کاندھے پر رکھ کر بولے رات کو چکر لگاؤں گا مجھے یاد آگیا ہے گھوڑی کو پانی پلانے کی ڈیوٹی میری تھی۔ رب راکھا۔
میں دیرتک صوفی ارشاد کی بتائی ہوئی باتوں میں کھویا رہا۔ سوچتا رہا کہ آخر آج انسان میں وہ پہلی سی محبت اخوت بھائی چارہ کیوں ختم ہوگیا ہے؟ کیا اس کا تعلق ہماری روزمرہ خوراک، رزقِ حلال اور حرص وہوس سے تو نہیں۔ ”ہمیں غور کرنا پڑے گا ۔“
(بشکریہ: روزنامہ نئی بات)
فیس بک کمینٹ