نیشنل بک فاؤنڈیشن کا قومی میلہ اب ایک تہوار کی صورت اختیار کرگیا ہے۔ سہ روزہ دسواں قومی کتاب میلہ اسلام آباد میں جاری ہے۔ دنیا بھر سے شائقین کتب اور سفیران کتب کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ سڑکوں پر میلے کے شرکاءکی تصاویر پر مشتمل فلیکس دکھائی دیتے ہیں۔ موسم نہایت شاندار ہے۔ دوروز قبل کی بارش اور ژالہ باری نے قدرے خنکی پیدا کررکھی ہے۔ قومی کتاب میلہ پاک چائنا فرینڈ شپ سنٹر میں منعقد ہوتا ہے۔ حکومت کی تبدیلی کے ساتھ یہ گمان تھا کہ ”قناعت پسند حکومت“ شاید اب کے اجازت نہ دے لیکن نیشنل بک فاؤنڈیشن کے ایم ڈی اور ممتاز شاعرمحقق اور ادیب ڈاکٹر انعام الحق نے اپنے سیکرٹری انجینئر عامر حسن کی قیادت میں وزارت تعلیم اور قومی تاریخ وادبی ورثہ کے وزیر شفقت محمود کی وساطت سے حکومت کو یقین دلایا کہ ہمیشہ کی طرح ”این بی ایف میلہ “ اپنے وسائل اور سپانسرز سے یہ سالانہ ”تہوار“ منعقد کرسکتا ہے۔ سو اس میلے میں بیرون واندرون ملک سے کتاب دوست اہل قلم ، دانشور اور سفیران کتب نظر آرہے ہیں۔ افتتاحی تقریب میں صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے بطور مہمان خصوصی شرکت کی۔ قومی ترانے کے بعد تلاوت کلام پاک سے افتتاحی تقریب کا باقاعدہ آغاز کیا گیا۔ ڈاکٹر انعام الحق جاوید نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا اور بتایا کہ اس بار 185سے زائد بک سٹالز لگائے گئے ہیں جہاں چالیس فیصد تک رعایتی کتب دستیاب ہیں۔ میلے میں 65کے لگ بھگ اردو انگریزی اور قومی زبانوں کے پروگرام رکھے گئے ہیں۔ بچوں اور بڑوں کے لیے الگ الگ دلچسپی کے پروگرام لکی ڈرا ، میوزک ، میراتھن کا اہتمام ہے انہوں نے بتایا کہ اخراجات صرف وہاں کئے گئے جہاں بہت ضروری تھے۔ اہل قلم اور مہمانوں کی (مہمان نوازی میں) کمی کوتاہی کے لیے انہوں نے یہ شعر پیش کیا :
زندگی میلہ ہے میلے میں قرینہ کیسا
اتنا محتاط ہی رہنا ہے تو جینا کیسا
ہال میں مہمان پانی تلاش کرتے رہے معلوم ہوا کہ سکیورٹی معاملات آڑے ہیں اور پانی کی بوتلیں ہال میں لانے کی اجازت نہیں دی گئی۔
بچوں نے کتاب ترانہ :
کتابوں کی دنیا سلامت رہے
روشنی دوستی کی علامت رہے
پیش کیا تو سماں بندھ گیا۔
انجینئرعامر حسن سیکرٹری برائے قومی تاریخ وادبی ورثہ ڈویژن نے کہا کہ ہرسال اپریل میں یہ قومی کتاب میلہ اب ایک قومی اور یادگار تقریب بن چکی ہے۔ دراصل ہم قوم میں کتب بینی کی عادت کو فروغ دینا چاہتے ہیں ڈیجیٹل دور میں کتاب اور قاری کو قریب کرنے کی ایک اہم کوشش ہے۔ وزیرتعلیم شفقت محمود نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ طبیعت ناساز ہونے کے سبب طویل تقریر نہیں کروں گا۔ صدر مملکت کے ممنون ہیں کہ انہوں نے وقت نکالا، شفقت محمود نے کہا ہماری نسل کے لوگ کتابوں کا شوق رکھتے ہیں اور جب تک کاغذ والی اخبار نہ پڑھیں مزا نہیں آتا مگر آنے والے دور میں کتاب کی صورت بدل رہی ہے۔ اب کنڈل پر کتب پڑھی جانے لگی ہیں۔ رفتہ رفتہ کتاب معدوم ہونے کے خدشات ہیں۔ صدر مملکت عارف علوی آتے ہی پہلے تو مسکرائے ہوئے پھرکہا کہ میری طبیعت ٹھیک ہے اور میں کچھ زیادہ باتیں کروں گا۔ جس پر ہال میں قہقہے گونجنے لگے انہوں نے کہا کتاب ابلاغ کا ذریعہ ہے جو قاری کے ذہن پر مرتسم ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا جب سے صدر بنا ہوں آٹھ ضخیم کتابیں پڑھ چکا ہوں۔ جس پر ہال تالیوں سے گونج اٹھا۔ ہمارے ساتھ تشریف فرما ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم کہنے لگے صدر کو کتابوں کا شوق ہونا بہت اچھی بات ہے۔ ممتاز گلوکار اور شاعر عدیل برکی نے کہا اگر ایوان صدر میں اورکوئی کام نہ ہو تو کتاب خوانی سے اچھی مصروفیت کیا ہوسکتی ہے۔ صدر عارف علوی نے مسکراتے ہوئے کہا یہاں آنے سے قبل میں نے کتابوں کے حوالے سے اچھا خاصا مطالعہ کیا کہ اہل قلم کے درمیان پڑھا لکھا دکھائی دوں۔ صدر کے برجستہ جملوں پر تالیاں بجتی رہیں ۔ انہوں نے کہا کتاب کا نشہ سب سے بہترین نشہ ہے یہ والدین کا فرض ہے کہ بچوں کو مطالعے کی عادت ڈالیں۔ صدر نے کتاب پرچم کشائی بھی کی۔ اس نشست کی نظامت ہمارے محبوب دوست محبوب ظفر اور قراة العین نے کی۔ افتتاحی نشست کے بعد اہل قلم اور دیگر شرکا کتابوں کے سٹالز کی طرف ہولیے۔ اس بار اگلی نشستوں پر افتخار عارف اور انورمسعود کے ساتھ ڈاکٹر اجمل نیازی کو دیکھ کر ایک دوست بولا : کتاب میلے کی یہ ایک بڑی تبدیلی ہے۔ عطا الحق قاسمی کی جگہ اجمل نیازی دکھائی دے رہے ہیں۔ بعد میں دیرینہ دوست یوسف عالمگیرین ہمیں چائے پانی کے لیے ایک سٹال پر لے آئے۔ یہاں بہت سے احباب چٹکلے بازی کے ساتھ چائے کی چسکیاں لیتے رہے۔ بینا گوئندی ، صغراصدف، عائشہ مسعود گول کپے کھاتی ر ہیں۔ یہاں ناصر بشیر، عدیل برکی، امین کنجاہی، نوید مرزا عارف نوناری الماس شبی،قمرریاض ، حامد محمود، عقیل عباس جعفری، اور کئی احباب کے ساتھ گپ شپ رہی۔ دوسرے سیشن میں یارعزیز اختر رضا سلیمی کے اردو املا سافٹ ویئر کی تقریب میںافتخار عارف محمود شام کے علاوہ ریاض مجید، آغاناصر، حمید شاہد، ناصرعلی سید، وحید احمد، عقیل جعفری، رضی الدین رضی، محبوب ظفر،حفیظ شیرعلی موجود تھے۔ اختر رضا سلیمی نے سعید اور علی رضا کے ساتھ مل کر ایسا اردو املا سافٹ ویئر تیار کیا ہے جس سے انگریزی کی طرح اب اردو کی اغلاط بھی درست کی جاسکیں گی۔ بلاشبہ یہ ایک بڑا کارنامہ ہے۔ افتخار عارف نے درست کہا کوئی بڑا ادارہ اس پروجیکٹ میں معاونت کرے تو یہ مزید فعال ہوسکتا ہے۔ شام 8بجے مشاعرہ تھا صدارت افتخار عارف نے کی صغراصدف، آغا ناصر، فاطمہ حسن، نذیر تبسم اسٹیج پر تشریف فرما تھے۔ عابدہ تقی اور محبوب ظفر نے نظامت کی۔ اور کم وبیش 72شعرا نے اپنا کلام پیش کیا۔ جو نام یاد رہے ان میں اسٹیج کے علاوہ خالد شریف، راشد نور ، ناصر علی سید، خالد مسعود، سلمان باسط، رضی الدین رضی ، ناصر بشیر، سعداللہ شاہ ، عقیل جعفری ، رحمان حفیظ، اختر عثمان، بینا گوئندی، عائشہ مسعود، باسط خلیل ، مظہر مسعود، قمرریاض، منظر نقوی، عدیل برکی، جنید آذر، حسن عباس رضا ، نوید مرزا،راحت سرحدی، ایوب عافی، عادل بھٹی، حکیم ارشد شہزاد، باسط جلیلی، روبینہ شاد، محسن مگھیانہ اور دیگر شعراءشامل تھے۔ دوشعریاد رہ گئے روبینہ شاد، بصارت سے محروم شاعرہ نے کہا:
ماں کے ہوتے ہوئے بھی کہتے ہو
میرے حق میں دعا کرے کوئی
عقیل جعفری کا شعر تھا :
پہلے میرے گھر کے اندر مجھ کو قتل کریں
اور پھر میرا سوگ منائیں نامعلوم افراد
آخری نشستوں پر منیجنگ ڈائریکٹر این بی ایف ڈاکٹر انعام الحق جاوید مشاعرے کے آخرتک بیٹھے رہے۔ انہوں نے کلام نہیں سنایا۔ (جاری ہے)
(بشکریہ: روزنامہ دنیا)
فیس بک کمینٹ