ایک دفتر کے گیٹ پر ’’آسامی خالی ہے‘‘ کے بورڈ پر لکھا تھا :
’’ضرورت ہے ایک دفتری کارکن کی، ٹائپنگ کی رفتارستر الفاظ فی منٹ ہو۔ کمپیوٹر چلانا جانتا ہو اکاؤنٹس کے کام بھی کرسکتا ہو۔ کم ازکم دوزبانیں جانتا ہو۔ جنس کی قید نہیں۔‘‘
آخری الفاظ پڑھ کر ایک کتے نے بھی اس آسامی کے لیے درخواست جمع کرادی۔ جب وہ انٹرویو کے لیے پیش ہوا تو انٹرویو لینے والے نے پوچھا:
’’تم ستر الفاظ فی منٹ کی رفتار سے ٹائپ کرسکتے ہو؟
کتا ٹائپ رائٹر پر بیٹھا اور تقریباً اسی الفاظ فی منٹ کی رفتار سے ’’کھٹاکھٹ‘‘ ایک درخواست ٹائپ کرڈالی۔ اس سے کمپیوٹر چلانے کی فرمائش کی گئی تو اس نے ہر پروگرام چلا کر دکھا دیا اس نے اکاؤنٹس کی مہارت بھی ثابت کردی۔
انٹرویو لینے والے نے سر کھجاتے ہوئے کہا :’’یہ سب تو ٹھیک ہے لیکن پھر بھی …بھلا دفتر میں ہم ایک کتے کو کیسے ملازم رکھ سکتے ہیں؟
کتے نے غصے سے بھونکتے ہوئے اس بورڈ کی طرف دوڑ لگاکر ان الفاظ پر پنجے رکھ دیئے۔ ’’جنس کی قید نہیں‘‘…انٹرویو لینے والے کو اچانک ایک عذر یاد آیا وہ جلدی سے بولا :
’’ارے ہاں …ہماری ایک شرط یہ بھی تو ہے کہ امیدوار کو کم ازکم دو زبانیں آتی ہوں۔ تمہیں کوئی دوسری زبان آتی ہے؟
کتے نے اثبات میں سرہلایا اور فوراً بولا :’’میاؤں میاؤں…میاؤں‘‘ یہ لطیفہ ایک دوست نے بھیجا کچھ فریش لگا سوچا قارئین کے ساتھ شیئر کیا جائے۔ اس سے کالم کے بقیہ حصے سے کوئی تعلق نہیں۔ اصل میں ہمارے ایک قاری نے فرمائش کررکھی ہے کہ رمضان میں قدرے شگفتہ کالم بلکہ سیاست سے بوجھل کیے بغیر ہلکے پھلکے کالم لکھے جائیں تاکہ رمضان کے روزے اچھے گزر جائیں۔‘‘ رمضان سے یاد آیا یہ صبر اور قناعت کا مہینہ بھی ہے۔ برکتیں اور رحمتیں بھی برستی ہیں لیکن اصل میں انسان روحانی سطح پر چاک وچوبند رہنے کے لیے جب صبر سے گزرتاہے تو اس کی روح سرشار ہوجاتی ہے۔ پھر قناعت کے بھی اپنے فائدے ہوتے ہیں۔ یہ دوسری بات کہ ہمارے ہاں اخراجات پہلے سے بھی بڑھ جاتے ہیں۔ انسانی فطرت ہے اس کی عادات آسانی سے تبدیل نہیں ہوتیں۔ عادات بدلنے کے لیے بہت زور لگانا پڑتا ہے۔ جس طرح پیٹرول کی قیمتیں ہوں یا چینی کی یا کچھ اور اشیاء کی یہ جب بڑھ جاتی ہیں تو خداگواہ ہے کبھی پرانی سطح پر نہیں آتیں۔ مہنگائی مسلسل بڑھتی ہے اور کم نہیں ہوتی۔ ہمارا ’’معیار زندگی‘‘ بھی جب بدل جاتا ہے۔ زیادہ سہولیات، تعیش اور روپیہ پیسہ جب کچھ زیادہ آتا ہے تو ہمارا اسلوب زندگی تبدیل ہوتا جاتا ہے۔ اگر ایک تنخواہ دار کی ماہانہ آمدنی میں اضافہ ہوتا ہے تو پھروہ اس کا عادی ہوجاتا ہے اس کے اخراجات کم نہیں ہوتے بڑھتے ہی جاتے ہیں۔ ہمارا رہن سہن کھانا پینا رہائش لباس ہرچیز میں جب معیار بلند ہوتا جاتا ہے تو پھر اس سے کم سطح پر ہم آہی نہیں سکتے۔ موجودہ دور میں میڈیا سے وابستہ وہ افراد جو ماہانہ تنخواہ لاکھوں میں وصول کرتے تھے وہ ان دنوں کافی مشکلات کا شکار ہیں۔ میڈیا میں نامی گرامی لوگ بھی زیادہ تنخواہ وصول کرتے ہیں ورکر تو بمشکل ’’روٹین ‘، کا ماہانہ مشاہرہ پاتے ہیں۔ موجودہ حکومت میں مہنگائی سے سبھی متاثر ہوئے ہیں لیکن میڈیا پر اس کے اثرات بہت زیادہ ہوئے ہیں۔ لاکھوں وصول کرنے والے بھی بے روزگاری کا شکار ہوئے ۔ بعض کو جب کم تنخواہوں پر کام کرنے کو کہا گیا تو ظاہر ہے وہ اس پر کیوں راضی ہوں گے کئی لوگوں نے ادارے بدل لیے۔ بعض نے سمجھوتہ کرلیا اور بعض تو اس سمجھوتے میں بہت آگے نکل گئے ہیں۔ خاص طورپر اینکرز ایسے بھی ہیں کہ وہ اپنا ٹاک شوز تو کررہے تھے وہ دیگر سبھی قسم کے پروگرام بھی کرنے کے لیے تیار ہوگئے ہیں۔ اصل بات وہی ہے جب زیادہ ماہانہ تنخواہ کی عادت پڑ جائے اور معیار زندگی ’’لگژری‘‘ ہو جائے تو بندہ اپنی عادات کا غلام بن جاتا ہے۔
اچھے بھلے اینکرز جو اس سے قبل محض ’’دانشوری‘‘ کا کردار (سکرپٹ) پرفارم کرتے تھے ان دنوں وہ سارا دن کیمرے کے سامنے سے ہٹنے کو تیار نہیں۔ وہ مذہبی پروگرام ہو کھانا پکانے کا ، نعت خوانی، بیت بازی گلوکاری یا کوئز پروگرام وہ ہرپروگرام کے لیے تیار ہے۔ وجہ وہی ہے کہ اب اپنے لگژری لائف اسٹائل سے نیچے آنا دشوار ہے سو جو مرضی کرالو بس پیسے کم نہ کیجئے ۔ ترس آتا ہے ان انسانوں پر جو اپنی خواہشات کم کرنے کے بجائے عادات کے غلام بن جاتے ہیں۔ رمضان المبارک میں اپنے آپ کو تبدیل کرنے کا موقع ہوتا ہے مگر ہمیں یہ سارا مہینہ ’’عید‘‘ کمانے کی فکرہوتی ہے تحریر کچھ زیادہ سنجیدہ ہوگئی ہے۔ چلتے چلتے یہ بھی سن لیں ۔
لمبی چوڑی لگژری کار میں بیٹھے ہوئے صاحب نے گداگر کو ایک روپے کا سکہ دیا اور بولا :
بابا میرے لیے دعا کرنا !
گداگر نے روپے کا سکہ دیکھ کر کہا :’’ کیا دعا کروں ، کار میں تو بیٹھے ہو۔ اب کیا آسمان پر بیٹھوگے؟
(بشکریہ: روزنامہ نئی بات)
فیس بک کمینٹ