ایک عربی لفٹ آپریٹر لوگوں کے بار بار وقت پوچھنے سے بے حدتنگ آچکا تھا، کسی دوست نے اسے مشورہ دیا کوئی گھڑی خرید کر لفٹ میں لگادو تاکہ وقت پوچھنے والے تم سے سوال کرنے کی بجائے خود ہی گھڑی سے وقت دیکھ لیا کریں۔ لفٹ آپریٹر نے ایسا ہی کیا۔ گھڑی کا فائدہ یہ ہوا کہ اب لفٹ میں آنے والے اس سے وقت نہیں پوچھتے تھے، ایک اور بات پوچھا کرتے۔
”کیا یہ گھڑی ٹھیک ہے؟“
یہ عرب کے لوگ بھی عجیب ہیں۔ مسلم اُمہ کی بات ضرور کرتے ہیں، مگر صرف بات کی حدتک ۔ وہ عالمی سطح پر مسلمانوں کے مسائل یا مصیبت میں گھرے مسلم بھائیوں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے۔ حال ہی میں کشمیر کے ایشو پر مسلمان ممالک نے کیا کردار ادا کیا ہے؟؟ دوتین مسلم ممالک کے سوا کشمیر کے حوالے سے کوئی بیان تک جاری نہیں کیا گیا۔
اگلے روز ایک ویڈیو کلپ وائرل ہوئی جس میں ایک عرب ملک کے ایئرپورٹ پر معصوم کشمیریوں پر ظلم کی انتہا کرنے والے بھارت کے یوم آزادی پر بھارتی مسافروں کو تحائف پیش کیے جارہے تھے، یہ تمام ممالک پاکستان سے، دوستی کا دم بھی بھرتے ہیں۔ ادھربھارت کی مودی سرکار نے معصوم نہتے کشمیریوں کو گھروں میں محصور کیا ہوا ہے۔ باہر نکلنے والوں کو گرفتار کیا جاتا ہے گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے۔ مواصلاتی رابطے منقطع ہیں۔ دوسری طرف مودی کو یواے ای کی حکومت اپنا سب سے بڑا ”سویلین ایوارڈ“ پیش کررہی ہے، بہت سے اسلامی ممالک کے بھارت سے گہرے تجارتی تعلقات میں۔ انہیں اس سے کچھ غرض نہیں ہے کہ بھارت میں رہنے والے مسلمانوں یا کشمیری مسلمانوں کی زندگی بھارت نے کس قدر اجیرن کی ہوئی ہے۔ سعودی عرب نے حال ہی میں بھارت میں کروڑوں کی سرمایہ کاری کی ہے۔ ان کے نزدیک بزنس یا تجارت اپنی جگہ اور مسلم بھائی چارہ اپنی جگہ۔
لوگ ہم سے زیادہ قابلِ بھروسہ لگتے ہیں …. وہاں پر ملازمت کرنے والوں کی زیادہ تر تعداد انڈین کی ہے بعض شہروں میں خاص طورپر مضافات میں عام ملازمین ہندو نظر آتے ہیں یا پھر اب دوسرے نمبر پر بنگلہ دیش کے لوگ بھی ہیں۔ یہ بات بھی درست ہے کہ ہم پاکستانیوں کی بھی بعض حرکات اور اعمال ایسے ہیں جس سے سعودیہ کے لوگ نالاں ہیں لیکن جس قدر اسلامی اخوت کے حوالے سے ہماری قوم جذباتی ہے اتنے عربی مسلمان نہیں۔ ہم نے ایسے کئی مظاہرے مصر میں بھی دیکھے ہیں۔
بات مسلم امہ کی ہورہی تھی جس کی ایک اتحادی فوج بھی بنائی گئی اور اس کے سالار ہمارے سابقہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف بنائے گئے تھے۔ اب ایسے موقعوں پر اس ”اسلامی فوج“ کا کوئی بیان ہی سامنے آتا؟ اگر ساری دنیا کے مسلمان ایک ہوکر اپنی کرنسی اور اپنی ”اقوام متحدہ“ بنالیں تو کس کی جرا¿ت ہے کہ وہ مسلمانوں کو دہشت گرد قرار دے یا دنیا میں کوئی ان سے نارواسلوک کرے۔ لیکن ہم سب ، نام کے مسلمان ہیں۔ اسلام ہمارے لیے بس ”رٹا رٹایا“ ایک سبق ہے، ہم نمازیں بھی پڑھتے ہیں روزے بھی رکھتے ہیں زکوٰة حج کے فرائض بھی ادا کرتے ہیں۔ اور بس، …. اسلام کو خود پر عملی طورپر نافذ نہیں کرتے۔ اگر اپنے اردگرد ظلم دیکھ کر اور طاقت رکھتے ہوئے بھی ہم خاموش رہتے ہیں تو پھر ہم کہاں کے مسلمان ہیں؟۔ اگر ہم رحم سے عاری ہیں۔ ایثار سے نابلد ہیں تو کہاں کی مسلمانی۔ اسلام طرز حیات ہے۔ ہمیں باطنی طورپر شفاف ہونا پڑے گا ہی نہیں روز وشب کے اعمال سے ثابت کرنا پڑے گا کہ ہم اپنے دین پر کاربند ہیں ۔تبھی ہم ایک حقیقی مسلمان کے درجے پر فائز ہوسکتے ہیں۔ مگر ہمارے ہاں رمضان کے مہینے میں روزہ رکھ کر جس قدر بددیانتی، ملاوٹ اور ناجائز منافع خوری ہوتی ہے اتنی سارا سال نہیں ہوتی۔ ہم حج پر حج کرتے ہیں رمضان کے آخری عشرے مکہ مدینہ بسر کرنا چاہتے ہیں مگر اندر سے انسان نہیں بنتے۔ کردار سے مسلمان دکھائی نہیں دیتے۔ دوسرے جائیں بھاڑ میں مجھے تو اپنی فکر ہے۔ میں کسی طرح پہلے آگے نکل جاؤں ۔ میری زندگی پُر تعیش اور آسان تر ہوجائے چاہے اس کے لیے دوسروں کے جذبوں کا خون ہو جائے۔ ہمارے ہاں کراچی کے کوڑے کچرے پر بحث جاری ہے، جبکہ صفائی نصف ایمان ہے ہر گھروالا اگر اپنے گھر کے آگے صفائی رکھنا شروع کردے اور کچرا کوڑے دانوں میں ڈالے تو سب کچھ صاف ستھرا ہوسکتا ہے اس کے علاوہ محلہ کمیٹیاں کونسلر اور شہری حکومتیں اگر اپنے اپنے فرائض ادا کرتے ہوئے کچرا باقاعدہ اٹھائیں برسات سے قبل تمام نالے گٹر صاف رکھنے پر عمل پیرا ہوں تو کوئی مسئلہ پیدا نہیں ہوسکتا۔ بااثر اور حکومتی افراد سنجیدگی سے فلاحی کاموں پر توجہ نہ دیں گے تو رہنا تو سب نے اسی فضا میں ہے۔ تعفن بدبو اور بیماریاں پھیلیں گی تو پوش علاقے کیا بچ جائیں گے؟۔ ہم سب کو اس پر غورکرنا پڑے گا اور صرف اپنے لیے نہیں دوسروں کو بھی جینے کا حق دینا پڑے گا۔ احساس کرنا پڑے گا۔ اسلام بھی یہی سکھاتا ہے۔ دوسروں کا احساس نہایت ضروری ہے۔ مسلم امہ کی طرف دیکھنے کی بجائے کیوں نہ خود ہم ٹھیک ہوجائیں اور عملی اخلاق وکردارسے اچھے انسان بن جائیں۔ کیا خیال ہے۔ ؟؟
(بشکریہ: روزنامہ نئی بات)